اردوئے معلیٰ

آج معروف نقاد اور شاعر گوہر شیخپوروی کا یومِ وفات ہے ۔

گوہر شیخپوروی(پیدائش: 21 اکتوبر 1951ء – وفات: 14 ستمبر 2017ء)
——
گوہر شیخپوروی کا نام سید علی حسنین اور تخلص گوہرؔ تھا۔
21 اکتوبر 1951ء کو شیخ پوروہ ضلع شیخ پورہ بہار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد عاشوری خان تھا۔ آپ کی تعلیم، میٹرک تک اسلامیہ ہائی اسکول، شیخ پورہ سے B.A اے این کالج سے، M.A (اردو) کاشی ودیاپیٹھ یونیورسٹی بنارس سے کیا۔ دوران ملازمت آپ علم ادب کا گہوارہ کہے جانے والے شہر بنارس رہے۔ آپ محکمۂ ریلوے میں چیف بکنگ سپروائزر کے عہدے سے 31؍اکتوبر 2011ء کو سبکدوش ہونے کے بعد مستقل قیام دولی گھاٹ میں اپنے گھر "سائبان” پٹنہ سٹی میں مقیم تھے۔ اپنے نام کی نسبت سے سچ مچ گہر نایاب تھے۔ گوہرؔ شیخ پوروی نے اپنی شاعری کا آغاز میٹرک کی تعلیم کے دوران شروع کی۔ گوہرؔ شیخ پوروی کے استاد محترم سحاب سخن، اماالقلم علامہ ابراحسنی گنوری (مرحوم) تھے۔
گوہر شیخپوروی 14 ستمبر 2017ء کو پٹنہ میں انتقال کر گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : گوہر ملسیانی کا یومِ پیدائش
——
گوہر شیخپوروی کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں۔
حصارِ فکر(مجموعہ غزلیات) غبار فکر (مجموعہ غزلیات)
شاہ کارفکر (مناقب کا مجموعہ)
غمگسار فکر(نوحے اور سلام)
آبشار فکر (نظمیات)
گوہر عروض و بلاغت (عروضیات)
دیار فکر (مجموعہ غزلیات)
بار بار (مجوعہ غزلیات)
زرد پتوں کی دعا (مجموعہ غزلیات)
حدیثِ درد ( مجموعہ غزلیات)
——
گوہرِ ناسُفتہ کا شاعر گوہر شیخ پوروی از ناوک حمزہ پوری
——
جناب گوہر شیخپوروی سحابِ سخن حضرت ابر احسنی گنّوری مرحوم کے شاگردوں میں سے ہیں ۔
——
تم ہو تلمیذِ جناب ابرؔ اے گوہرؔ میاں
شاعری کی راہ میں مشکل سے گھبرانا نہیں
——
اور یہ سلسلۂ تلمذ علامہ احسنؔ مارہروی کے واسطے سے حضرت داغؔ دہلوی تک پہنچتا ہے جن کی زبان دانی کی دھوم کل بھی تھی اور آج بھی ہے ۔
اس طرح جناب گوہرؔ داغؔ کے سلسلے کے شاعر ہوئے ۔ اور ان سے زبان دانی کی ہی توقع کی جانی چاہیے ۔ اور مجھے کہنے دیجیے کہ گوہرؔ کے کلام کی اسی خصوصیت نے مجھے ان کے کلام پر اظہارِ خیال کے لیے آمادہ کیا ہے ۔
نمونہ کے طور پر یہ غزل دیکھیے :
——
میری جانب بھی کسی سمت سے آیا پتھر
میرے اپنوں میں ہوا کس کا کلیجا پتھر
کیوں نہ سمجھوں کہ ہے انسان سے اچھا پتھر
آج تک خود نہ کسی پر کبھی برسا پتھر
اب نہ احساسِ مسرت ہے نہ احساسِ الم
میرے حالات نہ کیا مجھ کو بنایا پتھر
چین شیشے کے مکانوں میں نہیں پاؤ گے
اب تو بے وجہ بھی چلتا ہے یہاں کا پتھر
ان کو غنچوں کے تبسم سے کوئی ربط کہاں
کھا کے پتھر ہُوا احساس بھی جن کا پتھر
میں نے پتھر کی حویلی میں گذاری ہے حیات
میری نظروں میں ہے یہ سارا زمانا پتھر
آبشاروں نے تو یہ بات بھی ظاہر کر دی
چاہتے ہیں تو بہا دیتے ہیں دریا پتھر
خود کو پتھر نہ کہو تم کہ ہو گوہر گوہرؔ
جوہری ڈھونڈتا پھرتا ہے اچھوتا پتھر
——
یہاں گوہر شیخپوروی کی پوری غزل نقل کرنے کے کئی اسباب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ بقول صاحب نظرے اگر کسی غزل کا ایک شعر بھی کامیاب ہو تو پوری غزل کو کامیاب سمجھنا چاہیے ۔
یہاں سوال ایک شعر کے کامیاب ہونے کا نہیں بلکہ پوری کی پوری غزل ہی سراسر انتخاب اور لاجواب ہے ۔ ہر شعر دامن کشِ دل ہے ۔
دوسری وجہ اس غزل کی زبان کی حلاوت ہے ، سلاست ہے ، شائستگی ہے ، شبستگی ہے ، حسن ہے ، تیور ہے ، ادا ہے ، اسلوب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شاعر نے پوری غزل میں اس معیار کو پست نہیں ہونے دیا ۔
المختصر یہ کہ اس غزل کے مطالعہ سے یہ بات کہ جا سکتی ہے کہ گوہر نے اپنے سلسلے کے اساتذہ کی آبرو ڈبوئی نہیں ۔ زبان و بیان کی پاکیزگی و طہارت کی ایسی مثالوں کی گوہر کے کلام میں کمی نہیں ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا
——
گوہر شیخپوروی مغربی افکار و تصورات کے مقابلہ میں مشرقی تہذیبی اقدار کے حسن کے شیدائی ہیں ۔ وہ واقف ہیں کہ محض لب و لہجہ پہ ابہام اہمال کا مکروہ غلاف چڑھا دینا فن کاری نہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ تمام قدیم و جدید اقدار سے مفاہمت کی وساطت سے فنکار اپنا اسلوب ، اپنا لہجہ کس طرح کاڑھتا ہے ۔
شاعری میں تجریدیت و لایعینیت کا عبرتناک مآل ان پر آئینہ ہے :
——
کرم خوردہ سب کتابیں درس دیتی ہیں ہمیں
آدمی کو بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
——
اور یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ گوہر کو بات کرنے کا بڑا سلیقہ ہے ۔ ان کے کلام پر چیستاں گوئی کا کالا سایہ کبھی نہیں پڑا اور اس لیے ترسیل و ابلاغ کا کوئی مسئلہ ان کی بات سمجھنے کے راستے میں حائل نہیں ہوتا ۔
گوہر کے کلام میں ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس دورِ پر آشوب کی تمام تر مشکلات ، آفات ، تغیرات و حادثات کے باوجود ان کی شاعری کسی یاسیت کا شکار نہیں اور یہ استقلال رجائیت ان کے ہاں اس شدت کے ساتھ ہے کہ وہ ہر نیا حادثہ جھیلنے کے بعد ہھر جواں ہمت و تازہ دم نظر آتے ہیں ، نیز تازہ زخم کے استقبال کا حوصلہ رکھتے ہیں :
——
حادثوں نے جب بھی یہ پوچھا تمہیں کیا چاہیے
ہم نے خوش ہو کر کہا بس زخمِ تازہ چاہیے
شادیانی کی تمنا حرفِ آخر تو نہیں
حادثوں سے کھیلنے کا بھی کلیجہ چاہیے
——
عزم و ہمت نے صدا دی ہے مجھے ہر گام پر
برق کی زد پر بنے جب اپنا کاشانہ بنے
——
ان کے مطالعہ و مشاہدہ کی دنیا بہت وسیع ہے ۔ وہ اپنے گرد و پیش کے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں ، ان سے اثر قبول کرتے ہیں نیز ان پر تبصرے کے حق سے بھی نہیں چُوکتے ۔
——
مٹی کے مکانوں پہ ہوئی جھوم کے بارش
برسات کا انصاف بھی کیا خوب رہا ہے
——
وارداتِ قتل ، اغوا ، رہزنی ، عصمت دری
آپ کو اخبار میں اب اور کیا کیا چاہیے
——
اس دورِ ناہنجار میں جب تمام رشتے بے معنی ہوتے جاتے ہیں اور اپنی ذات اور ذاتی مفاد کے علاوہ اور کچھ سوجھتا نہیں یہ کم بڑی بات نہیں کہ گوہر اپنے پرائے سب کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں ۔ دشمن تک کو مصیبت میں پھنسا دیکھنا نہیں چاہتے ۔ اور ایک عالمگیر اخوت کی تبلیغ چاہتے ہیں ۔
——
ٹوٹتی قدروں کا دعویٰ ہے کہ انساں کے لیے
انگلیوں پر جوڑنے والا ہی رشتہ چاہیے
——
جس طرح گوہرؔ کا دل ویران ہو کر رہ گیا
یوں کسی دشمن کا گھر بھی اب نہ ویرانہ بنے
——
یہ بھی پڑھیں : آئِنہ کردار ہیں خواجہ حسن
——
اور سب سے بڑی بات کہ گوہر کی شاعری مانگے کا اجالا نہیں ۔ انہوں نے اپنے اساتذہ سے اکتسابِ فن تو کیا ہے لیکن ان کے افکار و تصورات کی کاسہ لیسی نہیں کی ۔ ان کے بات کرنے کا جو سلیقہ ہے وہ ان کا اپنا سلیقہ ہے ، اپنا اسلوب ہے ، اپنی طرزِ ادا ہے ۔ اور اس باب میں وہ اتنے خوددار ہیں کہ اسلاف صالحین کی تابندہ روایت کے پیشِ نظر پیٹ پر پتھر تو باندھ لینے کو تو تیار ہیں مگر صدقہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔
——
منتخب کلام
——
ہیں اخوت کے پجاری اس لیے گوہرؔ ہمیں
ہر عبادت گاہ سے کچھ ربط رکھنا چاہیے
——
یقیناََ یہ بزرگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے
دیارِ فکر میں گوہرؔ جو عزت ہم نے حاصل کی
——
ٹوٹ جاتے ہیں یہاں رشتۂ خوں بھی لیکن
کبھی ٹوٹا نہیں قرطاس و قلم کا رشتہ
——
دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں
——
یہ شرافت سے ہے بالا ، آدمیت سے بعید
آدمی کو رنج پہونچے آدمی کی ذات سے
——
ہم کو گداگری ملی اس کو تونگری
اب تک وہی ہوا جو خدا کی رضا ہوئی
——
بھوک ، رسوائی ، غریبی ، بے دری ، کم مائیگی
بے کسوں نے بانٹ لی آپس میں سوغات بھی
——
دنیا پھری پھری ہے تمہاری نظر کے ساتھ
تم کیا بدل گئے کہ خدائی بدل گئی
——
خود اپنے ہی سایہ کے برابر بھی نہیں ہوں
لیکن قد و قامت میں تو کمتر بھی نہیں ہوں
اے شیخِ حرم دیکھ نہ ذلت کی نظر سے
اللہ کی رحمت سے میں باہر بھی نہیں ہوں
——
کٹتی ہے یوں حیات مری اضطراب میں
مچھلی ہو جیسے پانی کے باہر عذاب میں
ہر لمحہ جس کا روزِ قیامت سے کم نہیں
وہ زندگی لکھی گئی میرے حساب میں
——
فضلِ خدا بھی ناخدا ہماری نظر میں ہے
جب کشتیٔ حیات ہماری بھنور میں ہے
——
اک پل بھی کہیں راحت و آرام نہیں ہے
یہ عشق کا آغاز ہے انجام نہیں ہے
ڈرتا ہوں کہ گردش نہ زمانے کی ٹھہر جائے
اب ہاتھ میں سورج ہے مرے جام نہیں ہے
کیا لوٹ لیا رندوں نے مے خانہ ہی سارا
یا میری ہی قسمت میں کوئی جام نہیں ہے
جس پاپ کی دنیا میں ہے راون کا بسیرا
اس سورگ سی دھرتی پہ کوئی رام نہیں ہے
میں نے ہی نکھارا ہے ترا رنگ محبت
اور میرا تری بزم میں کچھ کام نہیں ہے
تم نے ہی ستم ڈھائے ہیں تم نے ہی جفا کی
میں کیسے کہوں تم پہ کچھ الزام نہیں ہے
سب کچھ ہے جب اپنا ہی تو میں سوچ رہا ہوں
انسان کو کیوں پہلا سا آرام نہیں ہے
میرے ہی گناہوں پہ نظر کیوں ہے جہاں کی
ہے کون جو اس دور میں بدنام نہیں ہے
حیرت ہے کہ تو اس کو نہیں جانتا لیکن
اس شہر میں گوہرؔ کوئی گم نام نہیں ہے
——
دنیا کی جو خوشی تھی وہ غم سے بدل گئی
شاید حیات عشق کے سانچے میں ڈھل گئی
دنیا پھری پھری ہے تمہاری نظر کے ساتھ
تم کیا بدل گئے کہ خدائی بدل گئی
رخ بجلیوں نے موڑ لیا سوئے آشیاں
آئی ہوئی بلا مرے گلشن سے ٹل گئی
دی ہے کسی کی یاد نے دستک کچھ اس طرح
جیسے صبا قریب سے آ کر نکل گئی
میری خوشی کی بات کا اب پوچھنا ہی کیا
میری ہر اک خوشی تو ترے غم میں ڈھل گئی
جس شے کو تم نے دیکھ لیا التفات سے
وہ شے تمہارے حسن کے سانچے میں ڈھل گئی
وہ خیریت کے واسطے آئیں گے گھر مرے
شاید اسی سبب سے طبیعت سنبھل گئی
کتنا قوی جنوں کا ہے رشتہ بہار سے
جب بھی بہار آئی طبیعت مچل گئی
دنیا کو خوش جو دیکھا تو میں مسکرا اٹھا
دنیا نے جب خوشی مری دیکھی تو جل گئی
گوہرؔ گراں ہے میری طبیعت پہ کیف و رنگ
ہاں دیکھ کر خزاں کو طبیعت بہل گئی
——
روز دل کو مرے اک زخم نیا دیتے ہیں
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں
میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں
کوئی آواز نہیں ہوتی بھرے برتن سے
اور خالی ہوں تو ہر گام صدا دیتے ہیں
دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں
زخم دل چاند کی مانند چمکتے ہیں مرے
آپ جب بھولی ہوئی بات سنا دیتے ہیں
آپ چپ چاپ ہی آتے ہیں تصور میں مگر
میرے خوابیدہ خیالوں کو جگا دیتے ہیں
صرف اک دیوتا سمجھا ہے تمہیں میں نے مگر
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں
کچی دیوار کی مانند ہیں ہم اے گوہرؔ
ایک ٹھوکر سے جسے لوگ گرا دیتے ہیں
——
حوالہ جات
——
تحریر : ناوک حمزہ پوری ،21 دسمبر 1987 ء از حصارِ فکر
شعری انتخاب از حصارِ فکر ، مصنف : گوہر شیخپوروی ، شائع شدہ 1989ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔