اردوئے معلیٰ

آج مشہور شاعر اور طبیب، جناب حکیم محمد ناصر کا یومِ وفات ہے۔

حکیم ناصر (پیدائش: 1946ء – وفات: 28 جولائی 2007ء)
——
حکیم ناصر کا پورا نام عبد الناصر تھا۔ وہ 1946ء میں ہندوستان کے شہر اجمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ انکے والد اور دادا بھی حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں انہوں نے باقاعدہ ڈومیسٹک کرکٹ بھی کھیلی۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ہمدرد طبیہ کالج کراچی سے حکمت کا چار سالہ کورس کیا اور کراچی میں برنس روڈ پر اپنا مطب سنبھالا۔
مریض دیکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حکیم ناصر نے غزلیں بھی کہیں اوربہت سے گیت بھی لکھے۔ انکے لکھے ہوئے کئی گیت مشہور گلوکار عالمگیر نے گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ "جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے” انکی سب سے مشہور غزل ہے جسے عابدہ پروین نے گایا تھا۔
حکیم ناصر کی شاعری کے دو مجموعے "جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے” اور "تم تو نہ مل سکے” کے نام سے شائع ہوئے۔
28 جولائی 2007ء کو حکیم محمد ناصر کراچی میں انتقال کر گئے اور کراچی ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ناصر کاظمی کا یوم پیدائش
——
حکیم ناصر از انور مقصود
——
پیشہ : حکمت ، شوق : کرکٹ ، خوشبو ، خاطر ، موسیقی اندرونی مجبوری ، شاعری ۔
حکیم ناصر کو میں کرکٹ کے ایک اچھے کھلاڑی کی حیثیت سے جانتا تھا ۔ اگر حکمت کی طرف نہ آتے تو آج پاکستان کی طرف سے نجانے کتنے ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہوتے ۔
اُلٹے ہاتھ آہستہ آہستہ گیند کرتے تھے مگر گیند پڑنے کے بعد گولی کی طرح نکلتی تھی ۔ ناصر میاں کے والد کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔
حکمت پر مجبور کیا اور ناصر میاں حکیم بن گئے ۔
حکیم ناصر کا بچپن جوشؔ صاحب ، ماہرؔ صاحب ، نقشبؔ صاحب اور استاد قمرؔ کا بڑھاپا ناصر میاں کے درمیان گزرا ۔
بزرگ شاعروں کے ساتھ نے ناصر میاں کو شاعری کی طرف بھی راغب کیا ۔ اور پھر یوں ہوا کہ ناصر میاں کی شاعری آگے نکل گئی اور حکمت پیچھے رہ گئی ۔
ناصر میاں کی شاعری کو نہ تو رندی کہا جا سکتا ہے نہ یہ پرہیزی شاعری ہے ۔
سیاسی ، معاشی اور سماجی شاعری سے بھی ناصر میاں دور ہی رہتے ہیں ۔
سایۂ عشقِ بُتاں سے بھی بچنا چاہتے ہیں مگر اپنی غزلوں میں اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں ۔
ناصر میاں کی شاعری کو سمجھنے کے لیے آپ کو نہ تو کوئی دریا پار کرنا پڑتا ہے اور نہ کوئی پہاڑ سر کرنا پڑتا ہے ۔
سیدھی سادھی شاعری ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیدھے سادھے لوگوں میں بے پناہ مقبول ہے ۔
تخلیق کے لیے حکمت ضروری ہے اور شاعری بھی ۔ ان دونوں تخلیقوں پر ناصر میاں کو کافی عبور ہے ۔
شاید ہی کسی اور شاعر کی غزلیں اتنی ریکارڈ کی گئی ہوں ۔
ناصر میاں کی ہر نئی غزل ہر پرانا گانے والا گانے کے لیے بے قرار رہتا ہے ۔
اب تک تقریباََ ساٹھ غزلیں مختلف گلوکار گا چکے ہیں ۔
اس سے بڑا اعزاز کسی شاعر کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے ؟
——
وہ ہماری داستاں سننے سے پہلے رو دیا
کیا ہمارے درد سے وہ آشنا پہلے سے تھا ؟
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ عیلہ و آلہ و سلم
——
محشر میں دکھا دے کوئی ایوانِ محمد
فریاد یہ کرتے ہیں غلامانِ محمد
میں اپنے گناہوں کو چھپاؤں گا اُسی میں
آ جائے جو ہاتھوں میں وہ دامانِ محمد
میں اُن کی بتائی ہوئی راہوں پہ چلوں گا
قرآن ہے میرے لیے فرمانِ محمد
واقف نہیں جنت کے مکیں دورِ خزاں سے
پھولوں سے لَدا ہے وہ گلستانِ محمد
وہ چھاؤں میں رحمت کی بھی تاعُمر رہے گا
ہو جائے عطا جس کو بھی عِرفانِ محمد
وہ آگ میں ہرگر بھی نہ دوزخ کی جلے گا
جس دل میں ہو تھوڑا سا بھی ایمانِ محمد
دنیا میں جو شہرت ملے اِس نعت کو ناصرؔ
ہو گا یہ بہت ہم پہ تو احسانِ محمد
——
اُمت کے سربراہ مرے مصطفٰے جو ہیں
مشکل کو حل کریں گے وہ مشکل کشا جو ہیں
ہر اُمتی کے گھر میں اُجالا ضرور ہے
اُمت کے خیر خواہ وہ نُورِ خدا جو ہیں
کشتی میں جا رہا ہوں زمینِ حجاز پر
حافظ خدا ہے ساتھ وہ صلِ علیٰ جو ہیں
ناصرؔ نہ ڈر کہ تیری شفاعت کریں گے وہ
محشر میں آج شافعِ روزِ جزا جو ہیں
——
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
——
جی میں آتا ہے ہم بہت روئیں
رات لیکن گزر نہ جائے کہیں
——
اس تشنہ لب پہ پھر بھی کسی کی نظر نہیں
قطرہ بھی جس کو پیاس میں دریا دکھائی دے
——
روتا ہے مری قبر پہ آ آ کے زمانہ
تو بھی تو کبھی پھول چڑھانے کے لیے آ
——
لے گئی اشک چُرا کر مرے سارے ناصرؔ
خود برستی رہی برسات نے رونے نہ دیا
——
خدا ہی رحم کرے اس کی بدنصیبی پر
وہ جس کے پاس سب کچھ ہو مگر قرار نہ ہو
——
اے دوست اس طرح سے مجھے تُو فریب دے
جس سے لگے نہ ٹھیس مرے اعتبار کو
——
ہمارے پینے کا مقصد اُسے بھلانا تھا
مگر وہ جام میں دیکھو اُتر گیا یارو
——
مجھ کو حرم میں دیکھ کے یوں بدگماں نہ ہو
اے دوست تیرے در پہ بھی سجدا کریں گے ہم
——
ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن وہ گلی چھٹتی نہیں
لُطف سارا زندگی کا سعیِ لاحاصل میں ہے
——
نقش و نگار میرے بھی کتنے بدل گئے
میں بھی نہ بچ سکا ہوں غمِ روزگار سے
——
اب یہ عالم ہے ترا نام تلک یاد نہیں
میرے ہونٹوں پہ رہتا ہے سدا جاناں جاناں
——
شبنم کے چند قطروں کو پھولوں سے چھین کر
کیا مل گیا ہے پوچھے کوئی آفتاب سے
——
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
——
اگر ہے رسم تو ہم بھی گلہ نہیں کرتے
حسین لوگ کسی سے وفا نہیں کرتے
بلند اپنے جنوں کا وقار رکھتے ہیں
جو چاک کر لیا دامن سِیا نہیں کرتے
او جانے والے انہیں بھی سمیٹ کر لے جا
بکھر کے پھول دوبارا کھلا نہیں کرتے
رکھے ہیں کس لیے صیاد اس قدر پہرے
یہ بِن پروں کے پرندے اُڑا نہیں کرتے
ہم اس کے تیروں کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں
جو زخم اس نے دئیے ہیں گِنا نہیں کرتے
خدا کرے وہ سمجھ جائیں دل کی باتوں کو
لبوں سے ہم جو بیاں مدعا نہیں کرتے
مرے طبیب ہوئے مجھ سے کس قدر مایوس
دعا تو کرتے ہیں لیکن دوا نہیں کرتے
یہ مجھ سے کہتے ہیں محفل میں جل کے پروانے
جو عشق کرتے ہیں ناصرؔ ، جیا نہیں کرتے
——
ساغر کو تیرے نام کیا اور رو لیے
خود کو نذرِ جام کیا اور رو لیے
گُل پھر چراغِ شام کیا اور رو لیے
ہم نے یہ اہتمام کیا اور رو لیے
ہم نے سحر کو شام کیا اور رو لیے
یہ دن بھی تیرے نام کیا اور رو لیے
یوں بھی ملے ہیں اُن سے تصور میں بارہا
ہم نے انہیں سلام کیا اور رو لیے
اشکوں سے لکھ دیا ہے شبِ غم کا ماجرا
خط ہم نے یوں تمام کیا اور رو لیے
اپنی ہنسی بھی ہم نے اُڑائی ہے اس قدر
تیرا بھی احترام کیا اور رو لیے
دستک کی آج دل کو جسارت نہ ہو سکی
در سے ترے کلام کیا اور رو لیے
ان کے خطوط رکھ کے سرہانے شبِ فراق
قاصد کو پھر سلام کیا اور رو لیے
ناصرؔ انہی کے حکم پہ چھوڑا ہے شہر کو
صحرا میں پھر قیام کیا اور رو لیے
——
حوالہ جات
——
تحریر و شعری انتخاب از دیوانہ بنا رکھا ہے ، مصنف : حکیم ناصر
شائع شدہ : 1963 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات