اردوئے معلیٰ

آج مشہور و معروف انسان دوست ڈرامہ نگار، ناول نگار اور افسانہ نگار حمید کاشمیری کا یوم وفات ہے

حمید کاشمیری
(پیدائش: یکم جون، 1930ء- وفات: 6 جولائی، 2003ء)
——
اصل نام: عبدالحمید
قلمی نام: حمید کاشمیری
والد کا نام: غلام نبی
آبائی وطن: سری نگر ، کشمیر
تاریخ پیدائش: یکم جون 1929ء بانسرہ گلی۔مری
تاریخ وفات: 06 جولائی 2003ء جاۓ مدفن میوہ شاہ کراچی
تعلیم و تربیت: اپنے گاؤں کے سکول ہی میں تعلیم پائی
حمید کاشمیری کو رسمی اور مروجہ تعلیم اعلٰی سطحوں پر تعلم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا لیکن مطالعے کے فطری ذوق شوق نے اس کمی کو پورا کر دیا۔ان کا مشاہدہ تیز اور ذہن دراک تھا۔ان کا خمیر جس سر زمین اور آب و ہوا میں تیار ہوا اس کی خوشبو۔کشادگی اور شادابی ان کی سوچ اور مزاج دونوں سے نمایاں ہے۔زندگی سے ان کی پیار کی نوعیت طبقاتی تعصبات سے ہمیشہ بلند رہی ہے۔اور انہوں نے آدمی کو آدمی ہی کی حیثیت سے دیکھنے اور سمجھنے کا مطالعہ جانا ہے۔
حمید کاشمیری کا گھریلو ماحول بظہر ان کے مستقبل کے لۓ خوشگوار نہ تھا۔ابتدائی زندگی بھی معاش و معشیت کے کٹھن مرحلوں سے دو چار رہی۔لیکن حمید کاشمیری اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت ان مرحلوں سے آسانی سے گذر گۓ۔زندگی کو کھٹائیوں سے گذرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ حمید کاشمیری کو زندگی کے ان مسائل و رموز سے بہت جلد آگہی ہو گئی جن سے مدت العمر کے بعد لوگ واقف ہوتے ہیں۔ نتیجتآ شروع ہی سے ان کی سوچ اور فنی تصورات میں ذندگی کا سچا شعور پایا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : محمد حمید اللہ کا یومِ وفات
——
حمید کاشمیری کے شوق مطالعہ نے کتابی دنیا سے انہیں ایسا مانوس کیا کہ وہ کتابوں ہی کے ہو کے رہ گۓ۔کراچی کی سڑک الفی پر ان کا ایک بک سٹال تھا اس پر خریداروں کے علاوہ ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کا جھگمنٹ رہتا تھا۔ حمید کاشمیری کتابوں کی دکان چلانے کے ساتھ ساتھ اخبارات کے لۓ کالم ،ریڈیو اور ٹی وی کے لۓ ڈرامے بھی لکھتے تھے۔پچھلے 25 سال میں اردو کے جو افاسانہ نگار سامنے آۓ ہیں ان میں حمید کاشمیری کا نام ممتاز ہے،انہوں نے جس تیزی سے شہرت حاصل کی اور اپنے فن کا لوہا منوایا وہ ان کے ہم عصروں کے لۓ قابل رشک ہے
انہوں نے پورے 25 سال کی عمر میں زندگی کے متنوع تجربات کے ساتھ افسانے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نمائندہ افانہ نگاروں کی صف میں شامل ہو گۓ تھے۔
——
تصانیف
——
دیواریں: افسانوں کا پہلا مجموعہ 1965ء
کافی ہاؤس: ڈراموں کا مجموعہ 1980ء
سرحدیں: افسانوں کا دوسرا مجموعہ
——
ممتاز ڈرامہ نگار ’’حمید کاشمیری‘‘ از ڈاکٹر ہما میر
——
ڈرامے یا فلم کی کام یابی میں اسکرپٹ رائٹر یعنی کہانی کار کا ذہن اور تحریر کا نمایاں رول ہوتا ہے۔ کمزور اسکرپٹ ہو تو بڑے سے بڑے اداکار کے لیے اسے نبھانا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن عمدہ اور مضبوط اسکرپٹ ہو تو اوسط درجے کی اداکاری بھی اسے زبردست کام یابی بخشتی ہے۔ ہدایت کار کا اسکرپٹ کو سمجھنا اور اسے ڈائریکٹ کرنا، بھی ایک کمال ہے۔ لائٹنگ، ساؤنڈ، ریکارڈنگ سب کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن بنیادی ضرورت ایک اچھے اسکرپٹ کی ہے۔ ماضی میں جب ڈراما ہوتا تھا، تو ڈائریکٹر کو اچھے اسکرپٹ کی ہی تلاش ہوتی تھی۔
ڈراما رائٹر پہلے ایک پائلٹ لکھتے تھے، وہ منظور ہوتا تھا، تو پھر پورا ڈراما بنتا تھا۔ پروڈیوسر اور رائٹر کی بہت ساری میٹنگز ہوتی تھیں، اسکرپٹ ڈسکس ہوتا تھا، سیٹ ڈیزائنز بھی میٹنگ میں اکثر شریک ہوتا تھا۔ بہت عرق ریزی کے بعد ڈراما سیریل کی 13؍اقساط مکمل ہوتیں۔ پہلے لانگ پلے بھی نشر ہوا کرتے تھے، جن کا دورانیہ 90؍منٹ کا ہوا کرتا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بڑے بڑے ادیبوں، دانش وروں اور لکھاریوں نے ڈرامے لکھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آغا حشر کاشمیری کا یوم پیدائش
——
اشفاق احمد، بانو قدسیہ، منو بھائی، مستنضر حسین تارڑ، انتظار حسین، یونس جاوید اور شوکت صدیقی سمیت بے شمار نام ہیں، جنہوں نے اسکرین پر اپنے قلم کی دھاک بٹھائی۔ ایسے ہی ناموں میں ایک نام معروف ڈراما نگار اور ادیب حمید کاشمیری کا بھی ہے۔ حمید کاشمیری پاکستان کے صفِ اول کے افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نویس اور دانش ور تھے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے تحریر کیے۔ ٹیلی ویژن کا سنہرا دور ان کے ڈراموں سے سجا ہوا ہے۔
یکم جون 1930ء کو بانسرہ گلی، مری میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری، جب کراچی آئے تو صدر کے علاقے میں ایک فلیٹ میں سکونت اختیار کی۔ الفسٹن اسٹریٹ جو آج کل زیب النساء مارکیٹ کہلاتی ہے، اس پر ایک بک اسٹال کھول لیا۔ کتابوں کی یہ چھوٹی سی دُنیا بعد میں علم و ادب کا ایک بڑا مرکز بن گئی کہ ہر شام وہاں شہر بھر کے ادیب، شاعر، نقاد، دانش ور جمع ہونے لگے۔ اہل علم کی یہ بیٹھک ایسی مشہور ہوئی کہ شہر میں اگر کسی کو کسی بڑے شاعر یا ادیب سے ملنا ہوتا تھا، تو وہ حمید کاشمیری کی کتابوں کی دُکان کا رخ کرتا تھا۔ اس بک اسٹال کی شہرت کراچی سے نِکل کر پھر پورے پاکستان میں پھیل گئی اور کراچی میں باہر سے آنے والے شعرا اور ادیب بھی یہیں آکر سب سے ملاقات کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس مرکز پر دانش ورں کے ساتھ ساتھ فن کار بھی آنے لگے۔ یہ ریڈیو کا زمانہ تھا، پھر جب ٹیلی ویژن آیا، تو ٹی وی پروڈیوسر بھی بک اسٹال پر آنے لگے۔ صدر میں واقع اس بک اسٹال کی اہمیت وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اسے اس دور میں دیکھا ہوگا۔ حمید کاشمیری کی کتابوں سے محبت اور لکھنے لکھانے سے رغبت نے انہیں ملک کا صف اول کا افسانہ نگار، ڈراما نگار اور ناول نگار بنا دیا تھا۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دیواریں‘‘ 1965ء میں شائع ہوا، دوسرا افسانوں کا مجموعہ 1993ء میں ’’سرحدیں‘‘ کے نام سے جاری ہوا۔ انہوں نے 15؍؍سے زائد ناول لکھے۔ ’’ادھورے خواب‘‘ ’’کشکول‘‘ ’’پہلا آدمی‘‘ اور ’’رگ گل‘‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ حمید کاشمیری کے ناول ہفت روزہ ’’اخبارجہاں‘‘میں پابندی سے شائع ہوتے رہے۔ انہوں نے اپنے بہت سے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اور ڈراما سیریل تحریر کیے۔
حمید کاشمیری کے ڈرامے ناظرین کے ذہن و دل کو فتح کرلیتے تھے۔ ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ ان کا ایسا سیریل تھا، جس میں طلعت حسین اپنے منفرد کردار ’’عالی جاہ‘‘ اعجاز اسلم ’’روشو‘‘ کے کردار میں خوب چمکے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے بہت سے نئے فن کاروں کو متعارف بھی کروایا۔ ہمیں بھی حمید کاشمیری کے بہت سے ڈراموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور ہمارے فنی کیریئر اور ہماری شہرت میں حمید کاشمیری کے تحریر کردہ ڈراموں کا بہت کردار رہا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آغا حشر کاشمیری کا یوم پیدائش
——
اُن کے مقبول ڈراموں میں زندگی، اعتراف، کشکول، پاداش، شکست آرزو، رنگِ حنا، گریز، ہفت آسماں، روزن زندان اورپت جھڑ کے بعد، شامل ہیں۔ ’’پت جھڑ کے بعد‘‘ ایسا شاہ کار ڈراما تھا، جسے 70ء کی دہائی کےایک بڑے فیسٹیول میں ایوارڈ ملا۔
ان کا لکھا ہوا ڈراما ’’زندگی‘‘ ایک سیریز تھی، جس میں ہر ہفتے نئی کہانی پیش کی جاتی۔ ہم نے ’’زندگی‘‘ سیریز کے ڈرامے ’’الاؤ‘‘ میں کام کیا۔ ’’رنگ حنا‘‘ بھی سیریز تھی، جس کے ہدایت کار ایم ظہیر خان اور حیدر امام رضوی تھے۔ طاہرہ واسطی اس میں اسٹاک کیریئر میں تھیں۔ وہ ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کررہی تھیں، جو میرج بیورہ کی روح رواں ہیں اور رشتے طے کرواتی ہیں۔ حمید کاشمیری نے یہ کردار شہر کی معروف میرج بیورو منیجر کو ذہن میں رکھ کے تخلیق کیا تھا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس ڈرامے میں ہر ہفتہ نیا کھیل نشر ہوتا، جو شادی بیاہ سے ہی معتلق ہوتا تھا۔ ہم نے ’’رنگِ حنا‘‘ کے ایک ڈرامے میں کام کیا، جس میں ہمارے ساتھ ہماری طرح اس وقت کے نئے فن کار شامل تھے۔
’’روزن زندان‘‘ بھی حقیقی زندگی سے جڑی کہانیوں پر مشتمل ڈراما سیریز تھی۔ ملک کے معروف وکیل ضیاء اعوان نے اس ڈرامے کے لیے بہت تعاون کیا اور وہ اسٹوریاں شیئر کیں، جو کیس ان کے پاس آئے۔ حمید کاشمیری نے حقیقی زندگی میں پیش آنے والے جرائم، کیس، جیل، عدالت، سزا، تمام حالات زندگی قلم بند کیے اور پورے 13؍ڈرامے پیش کیے۔ ’’روزن زندان‘‘ کے ڈائریکٹر شاہد اقبال پاشا اور ضیاء اعوان کا کردار طلعت حسین نے ادا کیا تھا۔ ہم نے ’’روزن زندان‘‘ کے کھیل ’’کفارہ‘‘ میں کام کیا، جس میں ہمارے ساتھ قاضی واجد اور بدر خلیل نے بھی کردار نگاری کی۔
یہ ڈراما ایک ایسی کم عمر لڑکی کے بارے میں تھا ،جو کسی گھر میں کل وقتی ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے اور مالکن اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگا کر نہ صرف اس پر خوف ناک تشدد کرتی ہے، بلکہ اس کو گرفتار بھی کروا دیتی ہے۔ ہم اب ڈراما سیریل ’’پاداش‘‘ کا بھی ذکر کریں گے، جو ہماری زندگی کا یادگار ڈراما تھا۔ ’’پاداش‘‘ ناول کی شکل میں ’’اخبارجہاں‘‘ میں پہلے شائع ہوچکا تھا، چار سہیلیاں جو آئیڈیل کا خواب دیکھتی ہیں، مگر جب عملی زندگی میں آتی ہیں، تو خواب چکناچور ہوجاتے ہیں۔
حمید کاشمیری کا ڈراما سیریل ’’شکست آرزو‘‘ بھی لاجواب ڈراما تھا، جس میں نیلما حسن، محمود اختر، لیلیٰ زبیری، رضوان واسطی، معصومہ لطیف اور طلعت حسین نے کام کیا۔ یہ کاظم پاشا کی پیش کش تھی۔ ڈراما سیریل ’’گریز‘‘ کے بھی ہدایت کار کاظم پاشا ہی تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظہیر کاشمیری کا یومِ وفات
——
حمید کاشمیری نے جہاں ڈراما سیریل اور سیریز میں خود کو منوایا، وہیں لانگ پلے بھی بہت عمدہ تحریر کیے۔ ’’ہفت آسماں‘‘ تصوف کے موضوع پر بننے والا ان کا لانگ پلے تھا، جس میں ہم نے بھی کام کیا۔ ہمارے علاوہ اس ڈرامے کی کاسٹ میں انور سولنگی، روشن عطا اور راشد سمیع شامل تھے۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر طارق جمیل تھے، جو آج کل ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن ڈراموں کے ساتھ ساتھ حمید کاشمیری نے ریڈیو اور اسٹیج کے لیے بھی ڈرامے لکھے۔ ’’خون اور پانی‘‘ ان کا مقبول اسٹیج پلے تھا۔ اُن کے کریڈٹ پر سو سے زیادہ ڈرامے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے دُکھ سُکھ ڈرامے کی شکل میں ٹی وی پر پیش کیے۔ 6؍جولائی 2003ء کو وہ دُنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد ڈراما کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔