اردوئے معلیٰ

آج اردو کے ممتاز ماہرِ لسانیات، نقاد، محقق اور شاعر پروفیسر حنیف فوق کا یوم پیدائش ہے۔

ڈاکٹر محمد حنیف فوق(پیدائش: 26 دسمبر، 1926ء – وفات: یکم مئی، 2009ء)
——
ڈاکٹر محمد حنیف فوق اردو کے ممتاز ماہرِ لسانیات، نقاد، محقق، شاعر، سابق مدیر اعلیٰ اردو لغت بورڈ اور سابق پروفیسر و چیئرمین شعبۂ اردو کراچی یونیورسٹی تھے۔
ڈاکٹر حنیف فوق 26 دسمبر، 1926ء کو بھوپال، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد حنیف تھا۔ انہوں نے بھوپال، کانپور اور لکھنؤ سے تعلیمی مراحل طے کیے۔ 1950ء میں وہ ڈھاکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کرلی اور اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند کا بھی حاصل کی۔ بعد ازاں وہ کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور بعد ازاں چیئرمین مقرر ہوئے۔ 1981ء میں وہ انقرہ یونیورسٹی ترکی سے بطور وزیٹنگ پروفیسر وابستہ ہوئے جہاں انہوں نے ترکی زبان پر عبور حاصل کیا۔ 1995ء سے 1998ء تک وہ اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ رہے۔ وہ کچھ عرصے سر سید یونیورسٹی آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی سے بھی وابستہ رہے۔
——
تصانیف
——
مثبت قدریں
چراغِ شناسائی
متوازی نقوش
ترکی زبان اور اتا ترک (اردو تحریروں میں)
غالب(نظر اور نظارہ)
ترقی پسند افسانے
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور سابق سول سرونٹ سید ہاشم رضا کا یومِ وفات
——
ڈاکٹر حنیف فوق یکم مئی، 2009ء کو بھوپال، بھارت میں وفات پاگئے
——
منتخب کلام
——
وقت کی لاش پہ رونے کو جگر ہے کس کا
کس جنازے کو لیے اہل نظر آتے ہیں
رات کی بات ہی کیا رات گئی بات گئی
رات کے خواب کہیں دن کو نظر آتے ہیں
——
اداس راتوں کی تیرگی میں نہ کوئی تارا نہ کوئی جگنو
کسی کا نقش قدم ہی چمکے تو نور کا اعتبار آئے
——
شیشۂ شب میں بھری ہے فوقؔ جو صہبائے کیف
قطرہ قطرہ بھی پیوں تو رات بھر کافی نہیں
——
رات ڈھلتے ہی سفیران قمر آتے ہیں
دل کے آئینے میں سو عکس اتر آتے ہیں
سیل مہتاب سے جب نقش ابھر آتے ہیں
اوس گرتی ہے تو پیغام شرر آتے ہیں
ساعت دید کا گلزار ہو یا سایۂ دار
ایسے کتنے ہی مقامات سفر آتے ہیں
جاگتی آنکھوں نے جن لمحوں کو بکھرا دیکھا
وہی لمحے مرے خوابوں میں نکھر آتے ہیں
وقت کی لاش پہ رونے کو جگر ہے کس کا
کس جنازے کو لیے اہل نظر آتے ہیں
رات کی بات ہی کیا رات گئی بات گئی
رات کے خواب کہیں دن کو نظر آتے ہیں
وادیٔ غرب سے پیہم ہے اندھیروں کا نزول
مطلع شرق سے پیغام سحر آتے ہیں
——
جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے
آگ سے نکلے تو انگارہ بنے
شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر
کوئی آنسو آئے اور تارا بنے
لوح دل پہ نقش اب کوئی نہیں
وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے
اب کسی لمحہ کو منزل مان لیں
در بدر پھرتے ہیں بنجارا بنے
کم ہو گر جھوٹے ستاروں کی نمود
یہ زمیں بھی انجمن آرا بنے
جرم ناکردہ گناہی ہے بہت
زندگی ہی کیوں نہ کفارہ بنے
توڑ ڈالیں ہم نظام خستگی
یہ جہاں کہنہ دوبارا بنے
——
یہ بھی پڑھیں : ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد ایوب قادری کا یوم پیدائش
——
یہ فضائے نیلگوں یہ بال و پر کافی نہیں
ماہ و انجم تک مرا ذوق سفر کافی نہیں
ایک ساعت اک صدی ہے اک نظر آفاق گیر
اب نظام گردش شام و سحر کافی نہیں
پھر جنوں کو وسعت افلاک ہے کوہ ندا
اے دل دیوانہ دشت پر خطر کافی نہیں
یہ ہوائے نم یہ سینے میں سلگتی آگ سی
آہ یہ عمر رواں کی رہگزر کافی نہیں
پھر مشیت سے الجھتی ہے مری دیوانگی
نالۂ شبگیر اشکوں کے گہر کافی نہیں
آرزوئے بے کراں ہے اور جسم ناتواں
کیا رگ جاں کے لیے یہ نیشتر کافی نہیں
خنکیٔ شبنم سے غنچہ کو نہیں تسکین قلب
زخم گل کو اب نسیم چارہ گر کافی نہیں
شیشۂ شب میں بھری ہے فوقؔ جو صہبائے کیف
قطرہ قطرہ بھی پیوں تو رات بھر کافی نہیں
——
ترکی شاعر فواد بایرام اوغلو کی رباعیات کا ترجمہ از حنیف فوق
——
گرداں صفتِ دور ہیں دولابِ خلا ہیں
گو اصل ہے مٹی پہ مزین بہ جلا ہیں
فرعون کے ، نمرود کے مانند ہیں سرکش
ہم بندۂ عاجز نہیں گویا کہ خدا ہیں
——
ہے کون جو تُو بن کے تری ذات میں بیٹھے
عفریت کہ ابلیس تری کھال ہے اوڑھے
یا نفس ہے لے ضبطِ تمنا کا جو بدلہ
تجھ کو ترے مغلوبوں کو مغلوب ہی کر دے
——
سیم بر اک نئی آتش میں جلایا ہے مجھے
آگ وہ تن میں لگی ہے کہ نہ اشکوں سے بجھے
سامنے میرے اسی طور سے اٹکھیلیاں کر
چشمِ بد سے تجھے اللہ اماں ہی میں رکھے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔