ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے

سکون قلب نہیں پھر بھی آدمی کے لیے

تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری

تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے

نہ کھا فریب وفا کا یہ بے وفا دنیا

کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے

یہ دور شمس و قمر یہ فروغ علم و ہنر

زمین پھر بھی ترستی ہے روشنی کے لیے

کبھی اٹھے جو خورشید زندگی بن کر

ترس رہے ہیں وہ تاروں کی روشنی کے لیے

ستم طرازی دور خرد خدا کی پناہ

کہ آدمی ہی مصیبت ہے آدمی کے لیے

رہ حیات کی تاریکیوں میں اے زاہدؔ

چراغ دل ہے مرے پاس روشنی کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]