اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز مصنفہ، مکالمہ نگار اور ڈراما نویس حسینہ معین کا یوم پیدائش ہے۔

 

 حسینہ معین‏ (پیدائش: 20 نومبر، 1941ء – وفات: 26 مارچ 2021ء)
——
وہ حسینہ معین تھیں، جنہوں نے صرف ڈراما نگاری کو ہی اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا بلکہ اس پیشے سے کئی نسلوں کی ذہنی پرورش بھی کی۔ اپنے فرض کو مقدم جانا اور اس کام کے لیے اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ ہم کہانی کے گھنے سائے سے محروم ہوگئے ہیں۔ کہانی کے منظرنامے پر اداسی ہے۔ ان کے تخلیق کردہ کردار بھی اس وقت دلگیر ہیں۔ ڈرامے کی دنیا میں تہذیب کی روشن علامت اور ہر دل عزیز شخصیت ہم سے رخصت ہوئی۔
حسینہ معین کو سب حسینہ آپا بھی کہتے تھے کیونکہ وہ اس قدر شفقت اور محبت سے لبریز لہجے میں گفتگو کرتی تھیں کہ کوئی وجہ نہ ہوتی کہ ان سے ذاتی تعلق نہ بنا لیا جائے۔ وہ پورے پاکستان کی حسینہ آپا تھیں۔ ان کی ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں تصور کیا جائے تو یہ 10، 20 برسوں کی بات نہیں بلکہ نصف صدی پر پھیلا ہوا سلسلہ ہے۔ انہیں دیکھنے کے بعد ہمیں سمجھ آتا ہے کہ کسی فن کے لیے اپنی زندگی کو تج دینا کیا ہوتا ہے اور کسی پیشے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردینے کی قربانی کیا ہوتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور دانشور اور ادیب عبید اللہ بیگ کا یوم وفات
——
وہ بطور کہانی نویس اور ڈراما نگار مختلف ذرائع (میڈیمز) کے لیے لکھتی رہیں۔ انہوں نے ابتدائی طور پر بچوں کے معروف رسالے ’بھائی جان‘ سے لکھنے کی شروعات کی۔ یہ وہ دور تھا جب اس رسالے میں آج کے کئی نامور لوگ لکھ رہے تھے، جیسے رضا علی عابدی، غازی صلاح الدین اور دیگر، ان کے ہمراہ حسینہ آپا بھی اپنی جگہ بنا رہی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ زمانہ طالب علمی میں بھی لکھنے کے حوالے سے متحرک رہیں اور اسکول کی طرف سے طلبا کے تحریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ انہوں نے 7ویں جماعت سے لکھنے کی شروعات کی اور اس دور میں بہت سارے اعزازات اپنے نام کیے۔
حسینہ معین 20 نومبر 1941ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں اور 26 مارچ 2021ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ انہوں نے ابتدائی زندگی کے چند برس ہندوستان میں گزارے، پھر اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرکے راولپنڈی میں سکونت اختیار کی۔ چند برسوں کے بعد 1950ء کی دہائی میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئیں۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے گریجویشن کیا اور جامعہ کراچی سے 1963ء میں تاریخ کے موضوع پر ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرتے ہی وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں۔ طویل عرصہ خدمات انجام دیں اور پرنسپل کے عہدے تک پہنچیں۔
ریڈیو پاکستان سے لکھنے کا پیشہ ورانہ آغاز کیا۔ ریڈیو پاکستان کے مشہور زمانہ پروگرام ’اسٹوڈیو نمبر 9‘ کے لیے صوتی کھیل لکھے۔ ڈراما نگاری کے حوالے سے ان کی زندگی میں ڈرامائی موڑ تب آیا جب 1969ء میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے انہیں ایک ڈراما لکھنے کی پیشکش کی گئی۔ معروف شاعر افتخار عارف اسکرپٹنگ کے شعبے کے سربراہ تھے، انہوں نے حسینہ آپا کو راغب کیا کہ وہ ڈراما نگاری کریں۔ انہوں نے اس وقت عید کے لیے ایک خصوصی کھیل ’عید کا جوڑا‘ لکھا جس کے مرکزی کرداروں میں نیلوفر علیم اور طلعت حسین تھے جبکہ معاون کرداروں میں عشرت ہاشمی اور خالد نظامی تھے۔ یہ ڈراما بہت پسند کیا گیا۔
انہوں نے لکھنے کا باقاعدہ آغاز ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’اسٹوڈیو نمبر 9‘ سے کیا
انہوں نے اسی دور میں کچھ ڈرامے تھیٹر کے لیے بھی لکھے جو اسٹیج بھی ہوئے، مگر بہت جلد ان کی پوری توجہ ٹیلی وژن کے لیے ڈراما نگاری کی طرف ہوگئی۔ 1970ء کی دہائی سے لے کر اگلے 40 برس تک وہ ٹیلی وژن کے لیے ڈراما نگاری کرتی رہیں اور بے پناہ شہرت سمیٹی۔ ان کی پہلی ڈراما سیریل ’شہزوری‘ تھی جس کو انہوں نے مرزا عظیم بیگ چغتائی کے ناول سے ماخوذ کیا تھا۔ اس ڈراما سیریل نے شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس کے بعد حسینہ معین پاکستان میں ایک مقبول ڈراما نگار بن چکی تھیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین کا یوم پیدائش
——
حسینہ معین کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا تھا، جن کی وجہ شہرت کتاب نہیں بلکہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کا میڈیم رہا۔ انہوں نے پاکستان میں ادبی رجحان کی ایک نئی جہت کو متعارف کروایا۔ وہ جہت ٹیلی وژن کے لیے ’اصل اسکرپٹ‘ تخلیق کرنا تھا۔
ماضی میں ریڈیو پاکستان کی حد تک تو اسکرپٹ کا عمل دخل تھا، مگر پاکستان ٹیلی وژن شروع ہوا تو ابتدائی طور پر جتنے ڈرامے بنائے گئے ان کی بنیاد پاکستانی ناول نگاروں کے لکھے ہوئے ناول ہوتے تھے۔ ان ناولوں سے کہانیاں ماخوذ کرکے انہیں ڈرامائی تشکیل دی جاتی تھی۔ پہلی مرتبہ حسینہ معین نے کسی کہانی کو ماخوذ کیے بنا، ٹی وی کی ضرورت کے مطابق، اسکرین کے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اوریجنل اسکرپٹ لکھا اور اس پر کامیاب ڈراما بنا، اس ڈرامے کا نام ’کرن کہانی‘ تھا۔ پاکستانی ٹیلی وژن کے لیے یہ ان کا دوسرا ڈراما تھا۔
اس کے بعد سے حسینہ معین نے بے شمار کہانیاں تخلیق کیں، اور وہ سب اسکرپٹس کی شکل میں تخلیق ہوئیں۔ کبھی ان اسکرپٹ کردہ کہانیوں کے ذریعے اسٹیج پر کھیل پیش کیے گئے، تو کبھی ان کو ریڈیو اور کبھی فلم کے پردے پر نشر کیا گیا۔ انہوں نے تھیٹر، ریڈیو اور پھر ٹیلی وژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے، صرف یہی نہیں بلکہ ٹیلی وژن کے لیے ٹیلی فلمیں بھی لکھیں۔ مختلف مواقع پر خصوصی طور پر لکھے گئے ڈراموں کی روداد الگ ہے۔ 40، 50 سال پر محیط ان کی پیشہ ورانہ زندگی، ان کے لکھے گئے ڈراموں، طویل دورانیے کے کھیلوں، ٹیلی فلموں اور فیچر فلموں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
——
ڈراما سیریل کی فہرست
——
حسینہ معین کے لکھے گئے ڈراموں میں ’شہزوری’، ’کرن کہانی’، ’انکل عرفی’، ’زیر زبر پیش’، ’پرچھائیاں’، ’ان کہی’، ’تنہائیاں’، ’دھوپ کنارے’، ’رومی’، ’بندش’، ’دُھند’، ’بالائے جان’، ’آہٹ’، ’پڑوسی’، ’کسک’، ’تان سین’، ’قہار’، ’جانے انجانے’، ’پل دو پل’، ’دیس پردیس’، ’آنسو’، ’دی کیسل’، ’ایک امید’، ’شاید کہ بہار آئے’، ’تیرے آجانے سے’، ’میرے درد کو جو زباں ملی’، ’تم سے مل کر’، ’اک نئے موڑ پر’، ’کیسا یہ جنون، آئینہ’، ’چھوٹی سی کہانی’، ’کشمکش’، ’تنہا’، ’سارے موسم اپنے ہیں’، ’تنہائیاں نئے سلسلے’، ’میری بہن مایا’، ’انجانے نگر’ اور ’محبت ہوگئی تم سے’ شامل ہیں۔
——
طویل دورانیے کے ڈراموں اور ٹیلی فلموں کی فہرست
——
’نیا راستہ’، ’ہیپی عید مبارک’، ’گڑیا’، ’مہم جو’، ’عید کا جوڑا’، ’رابطہ’، ’روشنی’، ’میکے کا بکرا’، ’چلتے چلتے’، ’ساگر کے آنسو’، ’چھوٹی چھوٹی باتیں’، ’دھندلے راستے’، ’چپ دریا’، ’سنگسار’، ’موسم گل’، ’دعا’، ’گھروندا’، ’وقت کو تھام لو’، ’اوپر گوری کا مکان’۔
——
فیچر فلموں کے لیے لکھے گئے مکالمے یا کہانیاں
——
۔ یہاں سے وہاں تک (1978)
۔ نزدیکیاں (1986)
۔ حنا (1991۔ ہندوستانی فلم)
۔ کہیں پیار نہ ہو جائے (1998)
حسینہ معین نے ہندوستان کے لیے ایک فلم ’حنا‘ جبکہ ایک ڈراما ’تنہا‘ لکھا، اس کے علاوہ ان کے ایک اور معروف ڈرامے ’دھوپ کنارے‘ کو ہندوستان میں دوبارہ فلمایا گیا۔ انہوں نے کئی عالمی شہ پاروں سے ماخوذ کھیل بھی لکھے، ان میں ہندوستانی ادیب مرزا عظیم بیگ چغتائی کے ناول پر مبنی ڈراما ’شہزوری‘، امریکی ادیب ہنری جیمز کا ناول ’دی پورٹریٹ آف دی لیڈی‘، برطانوی ادیبہ ڈیفنی ڈی موریے کا ناول ’مائی کزن ریچل‘ اور امریکی ادیب جان اسٹین بیک کا ناول ’پرل‘ شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور دانشور اور ادیب عبید اللہ بیگ کا یوم پیدائش
——
برِصغیر کی کلاسیکی موسیقی کے معروف موسیقار اور مغل دور کی عظیم شخصیت تان سین کی زندگی پر بھی سوانحی ڈراما لکھا۔ ان کی لکھی ہوئی ایک ٹیلی فلم ’گڑیا‘ نے جاپان کے شہر ٹوکیو میں بہترین اسکرپٹ کا ایوارڈ بھی جیتا۔ یہ پی ٹی وی کی پروڈکشن تھی اور شیریں خان اس کی ہدایت کارہ تھیں۔ فلم ’حنا‘ جس کے مکالمے حسینہ آپا نے لکھے تھے، راج کپور صاحب کی فلم تھی، ریلیز کے بعد یہ کامیاب رہی اور ہندوستان کی طرف سے یہ فلم آسکر ایوارڈز کے لیے غیر ملکی فلم کے طور پر نامزد کی گئی تھی۔
حسینہ معین نے سب سے زیادہ کام پاکستان ٹیلی وژن کے لیے کیا۔ یہاں بھی کچھ ہدایت کار ایسے ہیں، جن کے ساتھ زیادہ کام کیا، ان میں سرفہرست محسن علی، شیریں خان، شعیب منصور، شہزاد خلیل، ساحرہ کاظمی، علی رضوی، رعنا شیخ اور دیگر شامل ہیں۔
ان کے لکھے ہوئے کرداروں کو نبھانے والے فنکار بھی امر ہوگئے۔ ان کے ڈراموں سے کئی فنکاروں نے کیریئر کی ابتدا کی اور کچھ نے بے حد عروج پایا۔ ان میں سرفہرست شکیل، روحی بانو، جمشید انصاری، جاوید شیخ، راحت کاظمی، ساحرہ کاظمی، مرینہ خان، شہناز شیخ، طلعت حسین، بہروز سبزواری، ساجد حسن، خالدہ ریاست، ثانیہ سعید، روبینہ اشرف، فضیلہ قاضی، زیبا بختیار، آصف رضا میر، نادیہ جمیل، نادیہ خان، ریحان شیخ، ثمینہ پیرزادہ اور دیگر شامل تھے۔
وہ کچھ عرصے سے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی سے بھی وابستہ تھیں۔ وہ وہاں گورننگ باڈی کی رکن رہیں اور ادبی کمیٹی کی سربراہی بھی کی۔ کورونا کی آمد سے قبل، گزشتہ برس میں نے ان سے ڈان اردو کے لیے بات کی، اس گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی خود نوشت لکھ رہی ہیں جو معروف اشاعتی ادارے دانیال پبلی کیشنز، کراچی سے شائع ہوگی۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوئی امید بر نہیں آتی
——
حسینہ معین اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجود مشرقی خاتون ہونے کی بہترین مثال تھیں جنہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے معاشرے کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ لوگ جنہیں پیسے سے زیادہ تہذیب کا پاس تھا، یہ اس آخری نسل کے بجھتے ہوئے چند چراغوں میں سے ایک تھیں، کیونکہ ہم شاید ہی پھر ایسی جہاں دیدہ اور روح پرور شخصیات دیکھ پائیں گے۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ