آج معروف نغمہ نگار حسرت جے پوری کا یومِ وفات ہے۔

(پیدائش: 15 اپریل 1922ء – وفات: 17 ستمبر 1999ء)
——
حسرت جے پوری: ٹائٹل سانگ لکھنے میں ماہر نغمہ نگار از اقبال رضوی
——
جب تک گھر والوں کا دیا نام ’اقبال حسین‘ ان کے ساتھ جڑا رہا وہ زبردست جدوجہد کرتے رہے، لیکن جب انھوں نے اپنا نام ’حسرت جے پوری‘ کر لیا تو وہ گھر گھر پہچانے جانے لگے۔ یہ نام بدل لینا کوئی چمتکار نہیں تھا۔ یہ تو وقت کی بات تھی کہ اقبال حسین کو حسرت جے پوری کے نام سے آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ 15 اپریل 1922 کو جے پور میں پیدا ہوئے حسرت جے پوری کو فلمی نغمہ نگار کی شکل میں پہچانا جاتا ہے، حالانکہ انھوں نے غیر فلمی شاعری بھی کی جو ان کی فلمی شہرت کی روشنی میں دھندلی سی پڑ گئی۔
لڑکپن کے جس دور میں پیار کا پرندہ بولتا ہے اس عمر میں حسرت کو بھی اس پرندے کی آواز سنائی دی۔ انھیں پڑوس کی ایک لڑکی سے پیار ہو گیا۔ اس وقت تک حسرت شاعری کرنے لگے تھے۔ ان کے دادا فدا حسین شاعر تھے اور ان سے ہی حسرت نے شاعری کا ہنر سیکھا۔ خیر، جب حسرت کو پیار ہوا تو انھوں نے ’پریم پتر‘ بھی لکھا اور اس خط کا آغاز اس طرح کیا ’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا۔‘‘ بعد میں انھیں لائنوں کی بنیاد پر حسرت نے پورا نغمہ لکھا جسے شنکر جے کشن نے موسیقی دے کر فلم ’سنگم‘ (1964) کا بے حد مقبول نغمہ بنا دیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت موہانی کا یوم پیدائش
——
حسرت کی پڑھائی جے پور میں ہوئی۔ جوان ہونے سے پہلے ہی شاعری کرنے لگے، لیکن شاعری سے پیٹ پالنا ممکن نہیں تھا۔ 18 سال کی عمر میں روزگار کی تلاش میں ممبئی جا پہنچے۔ کچھ دن ایک کپڑا مل میں کام کیا، کچھ اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کیے اور آخر کار بس کنڈکٹر کی ملازمت کر لی۔ حسرت شاعری تو کرتے ہی تھے، اس لیے وہ مشاعروں میں بھی شامل ہونے لگے۔ بہت سادہ زبان میں شاعری کرنے والے حسرت کو ایک مشاعرہ میں پرتھوی راج کپور نے سنا۔ انھوں نے حسرت کو اِپٹا کے دفتر میں بلایا۔ راج کپور اپنی ہدایت کاری میں بن رہی فلم ’برسات‘ کے لیے نغمہ نگار کی تلاش میں تھے۔ شیلندر کو وہ اِپٹا کی تقریب میں سن چکے تھے۔ راج کپور نے حسرت سے بھی ان کا کلام سنا اور پھر شنکر، جے کشن، شیلندر، حسرت اور راج کپور کی ایک ٹیم بن گئی۔ راج کپور کی ہدایت کاری میں بنی پہلی فلم ’برسات‘ (1949) سے شروعات کر اس ٹیم نے ہندی سنیما کو ڈھیروں یادگار گیت دیے۔ اس فلم میں حسرت نے پہلا فلمی نغمہ لکھا- ’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے…‘۔
اس وقت فلموں میں فلم کے نام پر مبنی نغمے یعنی ٹائٹل سانگ شامل کرنے کا چلن تھا۔ حسرت ٹائٹل سانگ لکھنے میں ماہر تھے۔ ان کے لکھے ٹائٹل سانگ پر ایک سرسری نظر ڈالیے- رات اور دن دیا جلے (رات اور دن)، گمنام ہے کوئی (گمنام)، رخ سے ذرا نقاب ہٹا دو میرے حضور (میرے حضور)، دنیا کی سیر کر لو انساں کے دوست بن کر – اراؤنڈ دی ورلڈ اِن ایٹ ڈالر (اراؤنڈ دی ورلڈ)، این ایوننگ اِن پیرس (این ایوننگ اِن پیرس)، کون ہے جو سپنوں میں آیا، کون ہے جو دل میں سمایا، لو جھک گیا آسماں بھی، عشق میرا رنگ لایا (جھک گیا آسماں)، دیوانہ مجھ کو لوگ کہیں (دیوانہ)، تیرے گھر کے سامنے اک گھر بناؤں گا (تیرے گھر کے سامنے)، دو جاسوس کریں محسوس، یہ دنیا بڑی خراب ہے (دو جاسوس)، میں ہوں خوش رنگ حنا (حنا)۔
اپنے 40 سال کے فلمی کیریر میں حسرت نے 350 فلموں کے لیے تقریباً 2000 نغمے لکھے۔ اس دوران انعامات اور اعزازات پھولوں کی طرح حسرت کی جھولی میں گرتے رہے۔ انھیں دو مرتبہ فلم فیئر کی ٹرافی بھی ملے۔ پہلی بار فلم ’سورج‘ کے نغمہ ’بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘ کے لیے اور پھر فلم ’انداز‘ کے نغمہ ’زندگی ایک سفر ہے سہانہ‘ کے لیے۔ حسرت کے نغموں کی خاصیت ان کی سادہ زبان ہے۔ مکیش کے لیے تو حسرت نے کئی نایاب نغمے لکھے تھے، مثلاً- چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے (برسات)، ہم تم سے محبت کر کے صنم روتے بھی رہے (آوارہ)، آنسو بھری ہیں یہ جیون کی راہیں کوئی ان سے کہہ دے (پرورش)، دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی (تیسری قسم)، جانے کہاں گئے وہ دن (میرا نام جوکر)۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشتاق احمد یوسفی کا یومِ پیدائش
——
بہر حال، ہر شخص کا ایک دور ہوتا ہے، حسرت کا بھی ایک دور تھا۔ شیلندر اور جے کشن کی موت کے بعد وہ بہت تنہا محسوس کرنے لگے اور راج کپور کی موت کے بعد تو ان کی حالت بغیر پروں والے پرندے جیسی ہو گئی۔ 17 ستمبر 1999 کو اپنی موت سے پہلے کئی سال تک حسرت نے گمنامی کی زندگی گزاری۔ فلم ’پگلا کہیں کا‘ (1970) میں حسرت نے ایک نغمہ لکھا جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ ’’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے، جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے…‘۔
۔ذیل میں حسرت جے پوری کے چند یادگار گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:
——
1جیا بے قرار ہے،آئی بہار ہے(برسات)
2تیری پیاری پیاری صورت کو(سسرال)
3۔پنکھ ہوتے تو اُڑ آتی میں(سہرا)
4۔تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے(پگلا کہیں کا)
5۔احسان تیرا ہو گا مجھ پر(جنگلی)
6۔زندگی اک سفر ہے سہانا(انداز)
7۔دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی(تیسری قسم)
8۔دل کے جھروکے میں تم کو بٹھا کر(برہمچاری)
9۔آج کل تیرے میرے پیار کے چرچے(برہمچاری)
10۔سن صابا سن پیار کی دھن(رام تیری گنگا میلی)
——
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ حسرت جے پوری ایک اعلیٰ پائے کے نغمہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک عمدہ غزل گو بھی تھے۔انہوں نے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور ان کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئی ں ،ان کے شعری کلیات’’آبشار غزل ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہندی اور اردو سگی بہنوں کی طرح ہیں جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : میاں محمد بخش کا یوم وفات
——
منتخب کلام
——
دیوار ہے دنیا اسے راہوں سے ہٹا دے
ہر رسم محبت کو مٹانے کے لیے آ
——
کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ مرا نام
میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
——
خدا جانے کس کس کی یہ جان لے گی
وہ قاتل ادا وہ قضا مہکی مہکی
——
ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کے جن کے لیے روتے ہیں
وہ غیر کی بانہوں میں آرام سے سوتے ہیں
——
کہیں وہ آ کے مٹا دیں نہ انتظار کا لطف
کہیں قبول نہ ہو جائے التجا میری
——
ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کے جن کے لیے روتے ہیں
وہ غیر کی بانہوں میں آرام سے سوتے ہیں
ہم اشک جدائی کے گرنے ہی نہیں دیتے
بے چین سی پلکوں میں موتی سے پروتے ہیں
ہوتا چلا آیا ہے بے درد زمانے میں
سچائی کی راہوں میں کانٹے سبھی بوتے ہیں
انداز ستم ان کا دیکھے تو کوئی حسرتؔ
ملنے کو تو ملتے ہیں نشتر سے چبھوتے ہیں
——
اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان کی نیت ٹھیک نہیں
نکلا نہ کرو تم سج دھج کر ایمان کی نیت ٹھیک نہیں
یہ دل ہے بڑا ہی دیوانہ چھیڑا نہ کرو اس پاگل کو
تم سے نہ شرارت کر بیٹھے نادان کی نیت ٹھیک نہیں
کاندھے سے ہٹا لو سر اپنا یہ پیار محبت رہنے دو
کشتی کو سنبھالو موجوں میں طوفان کی نیت ٹھیک نہیں
میں کیسے خدا حافظ کہہ دوں مجھ کو تو کسی کا یقین نہیں
چھپ جاؤ ہماری آنکھوں میں بھگوان کی نیت ٹھیک نہیں
——
ان کے خیال آئے تو آتے چلے گئے
دیوانہ زندگی کو بناتے چلے گئے
جو سانس آ رہی ہے اسی کا پیام ہے
بیتابیوں کو اور بڑھاتے چلے گئے
اس دل سے آ رہی ہے کسی یار کی سدا
ویران مرا دل تھا بساتے چلے گئے
ہوش و حواس پہ مرے بجلی سی گر پڑی
مستی بھری نظر سے پلا کے چلے گئے
——
محبت ایسی دھڑکن ہے جو سمجھائی نہیں جاتی
زباں پر دل کی بے چینی کبھی لائی نہیں جاتی
چلے آؤ چلے آؤ تقاضا ہے نگاہوں کا
کسی کی آرزو ایسے تو ٹھکرائی نہیں جاتی
مرے دل نے بچھائے ہیں یہ سجدے آج راہوں میں
جو حالت عاشقی کی ہے وہ بتلائی نہیں جاتی