آج معروف شاعر اور نقاد حسن اکبر کمال کا یوم وفات ہے

——
پروفیسر حسن اکبر کمال پاکستان کے نامور شاعر، نقاد، معلم اور ماہرِ تعلیم تھے۔ سیدحسن اکبر 14 فروری 1946ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیّد ثابت حُسین تھا ۔
تقسیم ہند کے فوراً بعد ان کے والدین پاکستان آ گئے۔ ان کے والدریلوے میں اپنی ملازمت کے سبب ملک کے مختلف علاقوں میں رہے۔
بقول حسن اکبرکمال انہوں نے بہاولپور، خان پور، نوشکی اور سکھر جیسے علاقوں میں قدرت کے نظاروں کو بہت قریب پایا جس سے شاعری کے ذوق کو مہمیز ملی اور چودہ پندرہ برس کی عمر سے شاعری شروع کر دی۔ اسکول اور کالج کی تعلیم کے بعد انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اور تدریس سے وابستہ ہو گئے۔
گورنمنٹ کالج، رحیم یارخاں، گورنمنٹ اسلامیہ کالج، سکھر اور گورنمنٹ دہلی کالج، کراچی کے شعبہ انگریزی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔
1970ء میں انہیں پی ٹی وی کے لیے پروڈیوسر کی پوسٹ کی آفر بھی ہوئی تاہم انہوں نے تب تک دہلی کالج، کراچی میں لیکچرر شپ جائن کر لی تھی۔ جہاں سے وہ 2006 میں شعبہ انگریزی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
تصانیف
وہ غزل، گیت نگاری اورنعت، سلام و منقبت نگاری میں یکساں دسترس رکھتے تھے۔ نام سید حسن اکبر اور تخلص کمال تھا ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
التجا(حمد و نعت)
سخن
خزاں میرا موسم(شعری مجموعہ)
جہانِ عشق(شعری مجموعہ)
خوشبو جیسی بات کرو(نظموں اور گیتوں کا مجموعہ)
کمال کے مضامین (تأثراتی تنقید)
بچوں کے لیے چند ناول بھی لکھے:
رستم خاں
آدم خوروں کا جزیرہ
چاچا خیرو
ملاح کا بھوت
اعزازات:
پاکستان رائٹرز گلڈ نے ان کے شعری مجموعے خزاں میرا موسم پر 1980ء میں انہیں آدم جی ادبی انعام عطا کیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز افسانہ نگار ، صحافی اور کالم نویس مسعود اشعر کا یومِ پیدائش
——
وفات
پروفیسر حسن اکبر کمال 22 جولائی 2017ء کی رات کو کراچی میں وفات پا گئے ۔
——
حسن اکبر کمال کی ’’التجا‘‘ از ناصر زیدی
——
حسن اکبر کمال بڑے باکمال شخص و شاعر ہیں وہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں۔ اُردو ادبیات کے پروفیسر ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں، دانشور ہیں اور ہر صنفِ سخن میں رواں ہیں۔
’’سخن‘‘۔’’خزاں میرا موسم‘‘ اور ’’خوشبو جیسی بات کرو‘‘ کی صُورت میں اپنے کمالِ فن کا اعتراف کرانے کے بعد ’’التجا‘‘ کو بھی اپنی جدتِ ادا و نوا کے ذریعے وہ پذیرائی حاصل کرائی جو کم کم کسی کو میسر ہوتی ہے۔ مختصر مگر اہم کے مصداق قد و قامت میں معقول اور قدر وقیمت میں گراں بہا مجموعہِ حمد و نعت ’’التجا‘‘ فکرو تخیلّ کے نئے انداز کا حامل ہے۔ حمدِ باری تعالیٰ روشِ عام سے ہٹ کر نیا اسلوبِ سخن لئے ہوئے ہے:
——
نگر سے کہسار تک
آسماں سے پار تک
بُوند سے ساگر تک
پھیلا ہُوا اک نام!
——
نعتیہ نظم ’’روشنی کی لکیر‘‘ بھی ندرتِ اظہار کا منفرد نمونہ ہے:
——
روشنی اُن کا استعارا ہے
اور یہی روشنی ہمارے لئے
جُزوِ ایماں ہے، اک سہارا ہے
——
اسی عقیدے و عقیدت کا عاجزانہ اظہار غزل کی ہیئت میں رقم کردہ نعت میں یُوں ملتا ہے:
——
یہ حمد و نعت و سلام میرے لئے وسیلہ نجات کا ہیں
جو، ان سے ہٹ کر ہیں لفظ جوڑے وہ بس کمالِ سخنوری ہے
——
’’التجا‘‘ کی اثر پذیری کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ حسن اکبر کمال معہ اہلیہ محترمہ حجِ بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے اور وہ بھی اپنے اس شعر کے نتیجے میں:
——
یقین ہے وہ مری التجا نہ ٹالیں گے
یقین ہے وہ مدینے مجھے بُلا لیں گے
——
دوسرے ایڈیشن کے بعد ’’التجا‘‘ کے متوقع تیسرے ایڈیشن کی آمد آمد پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور اُن کے ناشر طاہر سلطانی صاحب بھی کہ وہ حمدو نعت کے شعری مجموعوں کو اہلِ ذوق تک پہنچانے اور کارِ با ثواب کا ہُنر جانتے ہیں۔متذکرہ کتاب ’’التجا‘‘ کے صفحات85-79، 105 اور 112 پر ایک لفظ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘ چار بار استعمال کیا گیا ہے۔
جبکہ میری ناقص رائے میں اس لفظ کا صحیح تلفظ ’’موَاجہے‘‘ ہے اور یہی ہونا چاہئے تھا:
حسن اکبر کمال کا ایک نعتیہ شعر اس طرح ہے:
——
وہ سائبانِ کرم پردہ پوش ہے ورنہ!
ہیں کیا ہماری عبادات اور کیا ہم لوگ؟
——
اس سے پہلے بھی کسی کا ایک مشہورِ زمانہ شعر میرے حافظے میں یُوں محفوظ ہے:
——
کیا ہماری نماز کیا روزہ،
بخش دینے کے سب بہانے ہیں
——
ایک عجیب و غریب حقیقت میرے مشاہدے میں ہے کہ جب کبھی کسی نے دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے تمنّائی شعر کہا، اُس کی تمنا، آرزو خواہش ضرور پوری ہوئی اور شعر کی تاثیر یُوں ظاہر ہُوئی کہ اُدھر سے بُلاوا آ گیا۔اس سلسلے میں، دو تین شعراء کی سچی طلب والے اشعار ملاحظہ ہُوں:
——
سکُوں ملے گا جبھی جب مدینے جاؤں گا
سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا
محشر بدایونی
——
آرزو ہے کہ دِر سیّدِ والا دیکھوں!
کاش ناصِر مَیں کبھی گُنبدِ خضریٰ دیکھوں
ناصِر زیدی
——
مدینے جاؤں گا اک دن ضرور جاؤں گا
کہ یہ سفر تو مرے ہاتھ کی لکیر میں ہے
سرشار صدیقی
——
اور ’’التجا‘‘ میں حسن اکبر کمال کا یقینِ محکم:
——
یقین ہے وہ مری التجا نہ ٹالیں گے
یقین ہے وہ مدینے مجھے بُلا لیں گے
——
اور پھر ان چاروں شعراء کو بُلا لیا گیا تھا نا!
حاضری و حضوری کی یہ داستان خاصی دل پذیر ہے محشر بدایونی صاحب نے کسی مشاعرے میں کلام سنایا جہاں ایک بینک کے بہت بڑے افسر اور ادب نواز شخصیت اظہر عباس ہاشمی بھی موجود تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور فلمی شاعر تنویر نقوی کا یومِ پیدائش
——
وہ محشر بدایونی کے اس مایوسانہ سوال پر لہلوٹ ہو گئے سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا؟اور فوراً کہا آپ ضرور مدینے جائیں گے تیاری پکڑیں اور یوں محشر بدایونی اپنے اس شعر کی بدولت عمرے کی سعادت حاصل کر آئے:
——
سکوں ملے گا جبھی جب مدینے جاؤں گا
سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا؟
اوَروں کے ساتھ بھی یہی حُسنِ سلوک ہُوا!
——
منتخب کلام
——
پایا جب سے زخم کسی کو کھونے کا
سیکھا فن ہم نے بے آنسو رونے کا
——
نہ ٹوٹے اور کچھ دن تجھ سے رشتہ اس طرح میرا
مجھے برباد کر دے تو مگر آہستہ آہستہ
——
دیے بجھاتی رہی دل بجھا سکے تو بجھائے
ہوا کے سامنے یہ امتحان رکھنا ہے
——
دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا
پتھر میں اس گلاب کو بویا نہ جا سکا
——
بڑوں نے اس کو چھین لیا ہے بچوں سے
خبر نہیں اب کیا ہو حال کھلونے کا
——
کیا ترجمانیٔ غم دنیا کریں کہ جب
فن میں خود اپنا غم بھی سمویا نہ جا سکا
——
اسے شکست نہ ہونے پہ مان کتنا تھا
جو ریزہ ریزہ ہوا سخت جان کتنا تھا
ہے اب دلوں میں یہ دہشت کہ سر پہ آ نہ گرے
زمیں سے دور یہی آسمان کتنا تھا
میں اپنا ظرف بھی دیکھوں کہ اس سے رنجش پر
بھلا دیا کہ وہی مہربان کتنا تھا
بجا ہے وسعت دنیا مگر چھٹا جب گھر
کھلا کہ تنگ ہمیں پر جہان کتنا تھا
دیئے تو بجھ گئے بجلی کے قمقمے نہ بجھے
ہوا کو زور پہ اپنے گمان کتنا تھا
جو پھول گود سے اس کی کمالؔ چھینے گئے
اداس ان کے لیے پھول دان کتنا تھا
——
دکھ اٹھاؤ کتنے ہی گھر بہار کرنے میں
ایک پل نہیں لگتا پھول سب بکھرنے میں
زندگی ہو کیسی بھی اس سے جی نہیں بھرتا
ورنہ صرف ہوتا ہے کتنا وقت مرنے میں
کھڑکیاں ہوئیں خالی پھولوں اور چراغوں سے
کیسا دل تڑپتا ہے شہر سے گزرنے میں
وقت زخم بھرتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے
عمر بیت جاتی ہے ایک زخم بھرنے میں
سب کی بات دہرانا یوں تو رسم دنیا ہے
لطف اور ہے لیکن اپنی بات کرنے میں
جا بسی ہے وہ لڑکی شہر میں مگر اب بھی
گونجتے ہیں گیت اس کے ہر پہاڑی جھرنے میں
——
کیا ہوتا ہے خزاں بہار کے آنے جانے سے
سب موسم ہیں دل کھلنے اور دل مرجھانے سے
ایک دیا کب روک سکا ہے رات کو آنے سے
لیکن دل کچھ سنبھلا تو اک دیا جلانے سے
جو پھولوں اور کانٹوں کی پہچان نہیں رکھتا
پھول نہیں رکتے گھر اس کا بھی مہکانے سے
جلتے نظر نہیں آئے اور جل کر خاک ہوئے
دور کا رشتہ اپنا بھی نکلا پروانے سے
کچی عمر میں اور ساون میں کیسے باز آئیں
آنکھیں جگمگ کرنے سے آنچل لہرانے سے
کتنا اچھا لگتا ہے اک عام سا چہرہ بھی
صرف محبت بھرا تبسم لب پر لانے سے
گئے دنوں میں رونا بھی تو کتنا سچا تھا
دل ہلکا ہو جاتا تھا جب اشک بہانے سے
بھیگی رات کا سناٹا کرتا ہے وہی باتیں
زخم ہرے ہوتے ہیں جو باتیں یاد آنے سے
——
نظم : ماضی میں رہ جانے والی آنکھیں
——
ہم سب کی یادوں میں ہے اک سبز دریچہ
جس میں رکھا ہے گلدان
اس گلدان میں اب تک تازہ پھول سجے ہیں
پھولوں میں دو آنکھیں ہیں
جو ماضی کی تاریک گزر گاہوں میں
جیسے شمعیں بن کر روشن ہیں
ان آنکھوں اور ہم لوگوں میں
اب وقت کا صحرا حائل ہے
دور ہیں لیکن یہ آنکھیں ہر لمحہ دیکھتی رہتی ہیں
ہم کیسے ہیں کس دیس میں ہیں
کس بھیس میں ہیں کن لوگوں میں ہیں
کون ہمیں خوشیاں دیتا ہے کون ہمیں غم دیتا ہے
ان سے بچھڑ کے کس سے ملے
اور کس سے ہوئے ہم لوگ جدا
دکھ میں اور تنہائی میں وہ کون تھا جس کو یاد کیا
ہم روئیں تو آج بھی جیسے یہ آنکھیں رو دیتی ہیں
ہم خوش ہوں تو یہ بھی خوش ہو جاتی ہیں
ان آنکھوں کا ہمیں سہارا رہتا ہے
جیسے مسافر دشت میں ہو
تو اس کا ساتھی اس پر روشن ایک ستارہ رہتا ہے
لیکن ہم لوگوں کے دل یہ سوچ کے اکثر کانپ اٹھتے ہیں
جب یہ آنکھیں بجھ جائیں گی
سبز دریچہ ہو جائے گا بند تو آخر کیا ہوگا