آج معروف شاعر ، مترجم اور مصور حسن شاہنواز زیدی کا یوم پیدائش ہے

——
پاکستان کے ممتاز مصور، شاعراور مترجم حسن شاہنواز زیدی 24 مئی 1948ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
1968 میں پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ایم اے کیا اور 1969 میں اسی شعبے سے بطور لیکچرر وابستہ ہوگئے اور چیئرمین کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔
ان کی مصوری کی متعدد نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔
شعری مجموعہ تماشا اور ہربرٹ ریڈ کی مشہور کتاب ’’میننگ آف آرٹ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’آرٹ کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 2013 ء کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
——
تماشا کہیں جسے از اجمد اسلام امجد
——
کہتے ہیں کہ تمام فنون لطیفہ اصل میں ایک ہی ماں کے بچھڑے ہوئے بچے ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ الگ ماحول اور مختلف طرزاظہار کے باوجود ان میں کچھ مشترک خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کہیں لفظ رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں اور کہیں رنگ بولتے نظر آتے ہیں، کہیں رقص کو اعضاء کی شاعری کہا جاتا ہے اور کہیں پتھر کے اندر محفوظ نقش کسی فن کار کے دستک دینے پر طرح طرح کے روپ دھار کر سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں، کہیں نغمگی کے قدِ بالا پر قبائے ساز تنگ ہونے لگتی ہے اور کہیں کسی مغنیٔ آتش نفس کی صدا جلوۂ برق فنا بن کر کوندتی نظر آتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : جہاں آراء شاہنواز کا یوم وفات
——
فنون لطیفہ کی اس کہانی میں شاعری اور مصوری کے دو کردار تاریخی اور تخلیقی دونوں اعتبار سے نسبتاً زیادہ نمایاں اور ایک دوسرے سے قریب تر نظر آتے ہیں کہ جہاں ہمیں بہت سے شاعروں کے دیوان تصویروں کے ارژنگ نما لگتے ہیں وہاں بہت سی تصویریں بھی بولتے ہوئے مصرعوں کی طرح دل و دماغ میں گونجنے لگتی ہیں۔ ایسے میں کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جو باقاعدہ مصور بھی ہیں اور اسی طرح کچھ مصوروں کے بارے میں بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ پہلے شاعر ہیں یا مصور۔ شاہنواز زیدی کا یہ شعری مجموعہ ’’تماشا‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سوال سے کئی بار دوچار ہوا ہوں جب کہ یہ صورت حال صادقین اور اسلم کمال کو پڑھتے وقت سامنے نہیں آتی کہ بلا شبہ وہ مصور پہلے اور شاعر بعد میں ہیں۔
’’تماشا‘‘ پر بات کرنے سے پہلے تخلیقی اظہار کے مختلف پیرایوں اور ان کے مخصوص کتابوں کے حوالے سے ایک لطیفہ نما واقعے کا ذکر ضروری ہے کہ اس میں بیک وقت قربت اور دوری کے وہ دونوں استعارے موجود ہیں جن کا تعلق شاعری اور مصوری کی زبان کے فرق سے ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک مصور اور شاعر کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ شاعر، مصور کو اپنی شاعری سناتا اور داد پاتا جب کہ مصور ہر نئی تصویر مکمل ہونے پر سب سے پہلے اپنے شاعر دوست کو دکھاتا اور اس کی رائے لیتا۔ ایک بار اس نے پرانے وقتوں کی کسی لڑائی کا منظر پینٹ کیا جس میں بادشاہ کے ہاتھی کو تیر کھا کر چنگھاڑتا ہوا دکھایا گیا تھا، شاعر دوست نے تصویر کی تعریف تو کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہاتھی کی سونڈ کی شکل کچھ صحیح نہیں بنی۔ مصور خاموش ہوگیا۔ چند دن بعد اس نے شاعر کو دوبارہ وہی تصویر دکھائی اور کہا کہ میں نے تمہارے مشورے کے مطابق سونڈ کو ڈرائنگ کے اعتبار سے ٹھیک کردیا ہے۔ شاعر دوست نے تصویر کو غور سے دیکھا اور پھر کہا، یار یہ سونڈ ٹھیک تو ہوگئی ہے مگر اس میں وہ لطف نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مصور نے ہنس کر کہا وہ لطف کیسے رہے گا میں جو بیچ میں سے نکل گیا ہوں۔
سو مطلب یہ ہوا کہ ہر فن کے پیمانے اس کے اپنے ہوتے ہیں، دودھ کو اگر آپ گزوں سے ناپنے کی کوشش کریں گے تو آپ کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ حسن شاہنواز زیدی کی اس شاعری میں ان کے انداز کا مصور رہ رہ کے جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں کچھ کلاسیک اور ہم عصر مصوروں پر باقاعدہ نظمیں بھی لکھی ہیں جس میں ان کی ذات اور کمال فن کی تحسین کے ساتھ ساتھ ایسی بے شمار تمثالیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
جن میں مصوری اور شاعری ایک دوسرے میں مدغم ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان نظموں میں عبدالرحمن چغتائی، خالد اقبال، اعجاز الحسن، پروفیسر پرویز ونڈل، رخ نیلوفر اور راحت مسعود سے متعلق نظمیں خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہیں، اس کے علاوہ صادقین، وان گاگ اور کچھ دیگر مصوروں کے حوالے ان کی اپنی ایک پینٹنگ سمیت بھی آئے ہیں لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ان Tribute بنیاد نظموں کی فہرست میں اپنے کچھ محبوب ادیبوں اور شاعروں کو بھی شامل کیا ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی، گلزار، جو سلین سعید، رنکودتہ اور منصورہ احمد کے بارے میں لکھی گئی نظمیں اس فہرست میں شامل کی جاسکتی ہیں اور چونکہ انھیں موسیقی سے بھی خاصا شغف ہے کہ وہ خود گلوکاری بھی کرتے ہیں اس حوالے سے طبلہ نواز استاد شوکت حسین پر لکھی ہوئی ان کی نظم خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : فیاض علی زیدی کا یوم وفات
——
جہاں تک پروفیسر حسن شاہنواز زیدی کی غزلوں کا تعلق ہے یہ میرے لیے ایک Pleasant Surprise کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد اب میں یہ بات اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ معاصر غزل میں شاہنواز زیدی بلاشبہ اپنی نسل کے ایک بہت عمدہ اور منفرد غزل گو شاعر ہیں۔
آزاد نظم کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں۔ حسن شاہنواز زیدی کی تمام نظمیں اسی ہئیت میں لکھی گئی ہیں۔ وہ شعر اور موسیقی دونوں کی باریکیوں، رمزوں اور قوت سے آشنا ہیں اور ان سے کام لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن اکثر ان کا بیانیہ نغمگی اور موسیقیت پر حاوی ہوجاتا ہے۔
اگر وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں تو مجھے یقین ہے کہ ان کی نظموں میں وہ کیفیت مزید بڑھ جائے گی جس کی وجہ سے سامعین اور قارئین کو نظموں کی لائنیں اور بند غزل کے اشعار کی طرح یاد ہوجاتے ہیں البتہ جہاں تک ان نظموں کے ٹریٹمنٹ کا تعلق ہے وہ موضوعات کے تنوع کے باوجود ہر نظم کو اس کا انفرادی تشخص اور معنویت دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی جن نظموں نے مجھے زیادہ متاثر کیا ان میں ’’ایک منظر‘‘، ’’ٹائم مشین‘‘، ’’ایک امریکی فوجی کا خط‘‘، ’’میراث‘‘، ’’احمد ندیم قاسمی‘‘، ’’عمل چغتائی‘‘ اور ’’محبت کی سمجھ مشکل سے آتی ہے‘‘ زیادہ نمایاں ہیں۔
حسن شاہنواز زیدی کا یہ شعری مجموعہ ’’تماشا‘‘ اپنے نام کے حوالے سے بھی ایک مخصوص معنویت کا حامل ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس تماشے کو دیکھنے والی آنکھیں اوراس کے تسلسل کو سمجھنے اور بیان کرنیوالا ذہن کس سطح کا ہے اور بلا شبہ حسن شاہنواز زیدی نے اس امتحانی سوال کا ایسا مربوط اور خوبصورت جواب دیا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد سے یقینا ان کا شمار اپنے دور کے نمائندہ شعراء میں ہوا کریگا۔
اس مختصر تحریر میں تمام منتخب اشعار تو درج نہیں کیے جاسکتے لیکن مشتے از خروارے کے طور پر ان میں سے کچھ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔
——
منتخب کلام
——
میں اسے بھول گیا تاکہ اسے یاد نہ آؤں
کتنا محبوب مجھے بھولنے والا تھا مرا
——
جو شعر ہو نہ سکا کچھ مصوری کرلی
زباں دراز کو راس آئے بے زبانی کہاں
——
کوئی ہے جو مجھے کہتا ہے ہر اک سانس کے ساتھ
پیکر خاک تجھے میں نے سنبھالا ہوا ہے
——
اس طرح میرے قبیلے میں کبھی ہوتا نہیں
کیسے جاؤں تیرے غم کی میزبانی چھوڑ کر
——
وقت کی آنکھوں میں دیکھی کالی گھنگھور گھٹا
لیکن گز بھر چھاؤں نہیں تھی جب میں پار گیا
——
شام اپنے طلسمات میں ڈوبی ہوئی آئی
چاند اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا نکلا
——
نجانے شہر سے کیوں گاؤں میں لے آئے ہو مجھ کو
یہاں سب بھاگتے ہیں اور مجھے چلنا نہیں آتا
——
حیات کیا ہے اسے کس طرح گزارنا ہے
کسی فقرے سے پوچھوں تو کچھ سمجھ آئے
——
سحر ہوتے ہی ریت بھر جاتی ہے آنکھوں میں
نسیمِ ہجر تیرے ذائقے اچھے نہیں لگتے
——
کہسار بھاگنے لگے بادل سمیٹ کر
پانی زمیں کی قید سے آزاد ہو گیا
——
یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں
دل وہ ٹوٹا ہوا برتن ہے کہ بھرتا ہی نہیں
ایک الجھن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
اک تماشا ہے کہ آنکھوں سے اترتا ہی نہیں
اک ترے ہجر کی میعاد کہ کاٹے نہ کٹے
اک ترے وصل کا لمحہ کہ ٹھہرتا ہی نہیں
دوستو لاؤ کوئی کشتئ نوح امید
اب کے پانی وہ چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں
اشک خون دل وحشی دبے پاؤں والا
اک مسافر ہے کہ پلکوں سے گزرتا ہی نہیں
عمر بھر دیتے رہے ہیں تجھے تاوان وفا
سود در سود ترا قرض اترتا ہی نہیں
——
وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی
دعائے شب کی طرح بے اثر گئے ہم بھی
سماعتوں کے جزیرے تلک رسائی نہ تھی
وہ بے خبر ہی رہا بے ثمر گئے ہم بھی
یہی کہیں گے کہ اک خوف تھا بلندی کا
کسی کے بام نظر سے اتر گئے ہم بھی
ملا وہ زور تصور سبک ارادہ ہوئے
مصیبت آنے سے پہلے ہی ڈر گئے ہم بھی
شناوری پہ کہیں حرف ہی نہ آ جائے
اگر تراش کے دریا گزر گئے ہم بھی
خدا بھی تو کبھی یکسانیت سے اکتائے
کمال کون سا ہوگا جو مر گئے ہم بھی
صدائے خواب تو تھے ایسے چور چور ہوئے
غبار بن کے فضا میں بکھر گئے ہم بھی
——
آؤ پھر مل جائیں سب باتیں پرانی چھوڑ کر
جا نہیں سکتے کہیں دریا روانی چھوڑ کر
وہ مرے کاسے میں یادیں چھوڑ کر یوں چل دیا
جس طرح الفاظ جاتے ہوں معانی چھوڑ کر
تم مرے دل سے گئے ہو تو نگاہوں سے بھی جاؤ
پھر وہاں ٹھہرا نہیں کرتے نشانی چھوڑ کر
اب سنا ہے عام شہری کی طرح پھرتے ہو تم
کیا ملا ہے میرے دل کی حکمرانی چھوڑ کر
بس ابھی طوفان غم کا تذکرہ آیا ہی تھا
سب گھروں کو چل دئیے میری کہانی چھوڑ کر
اس طرح میرے قبیلے میں کبھی ہوتا نہیں
کیسے جاؤں تیرے غم کی میزبانی چھوڑ کر
یہ کلام اللہ کب ہے جو سدا باقی رہے
دار فانی سے چلے ہیں نقش فانی چھوڑ کر
——
با وفا
——
شجر ہجرت نہیں کرتے
بگڑتے موسموں روٹھی گھٹاؤں
دور ہوتے پانیوں تک سے کبھی
نفرت نہیں کرتے
یہ اپنی اجتماعی قتل گاہوں کا
تماشا دیکھتے ہیں پر
نئے سرسبز میدانوں
خنک جھیلوں کے متلاشی نہیں ہوتے
زمیں سے اپنی پیوستہ طنابیں کھینچ کر اڑنے نہیں لگتے
شجر ہجرت نہیں کرتے