اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر حزیں صدیقی کا یوم وفات ہے

حزیں صدیقی(پیدائش: 1 ستمبر، 1922ء- وفات: 27 دسمبر، 1995ء)
——
نام قاضی محمد عفیف الدین احمد اور تخلص حزیں تھا۔ ستمبر ۱۹۲۲ء میں روہتک(مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔آپ کی شاعری کی ابتدا۱۹۳۹ء سے ہوئی ۔
اپنے بہنوئی سفیر الدین صدیقی کمسنؔ سے اصلاح لی۔۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے منسلک رہے۔ لاہور میں شباب پروڈکشن میں ایک عرصہ گزارا۔
’’لاہور ٹاکیز‘‘ اور ’’نیاپیام‘‘ نام کے رسالوں کے مدیر رہے۔حضرت احسان دانش کی یاد میں جاری ہونے والا ادبی مجلہ’’بزم دانش‘‘ کے مدیر اعلی رہے۔جناب حزیں صدیقی ’’بزم ضیائے ادب‘‘ ملتان کے روح رواں رہے۔ حزیں معدے کے سرطان میں مبتلا ہوگئے ۔۲۷؍دسمبر۱۹۹۵ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ حزیں صدیقی کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’قفس رنگ‘‘، ’’حرف ابد‘‘
——
قفسِ رنگ کے شاعر حزیں صدیقی کی یاد میں از اقبال ساغر صدیقی
——
جناب حزیں صدیقی کو مرحوم کہنے کو آج بھی دل آمادہ نہیں ۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ وہ اپنی بیٹھک میں پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں ، سامنے میز پر چائے رکھی ہے اور وہ اپنے ہاتھوں سے چائے بنا بنا کر ہر شخص کو پیش کر رہے ہیں ۔
وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے ۔ امروز میں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ایک بوڑھی برقعہ پوش آیا کرتی ، صرف نوشابہ اور حزیں صاحب نہایت پابندی سے اس کی مدد کرتے تھے ۔ نہ جانے کتنے طالب علموں کی کتابیں اور فیس وہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے ۔
چھاؤنی میں ان کا دیوان خانہ نہ صرف ملتان بلکہ باہر سے آںے والوں کے لیے شاعروں اور ادیبوں کا مرکز تھا ۔ اختر انصاری اکبر آبادی ، برنی کرنل دل نواز دل ، جناب طفیل ہوشیار پوری ، قمر لکھنوی اور ہلال جعفری وغیرہ سے میرا پہلا تعارف ان کی مجلس میں ہوا ۔
شاعری میں وہ احسان دانش کے شاگرد تھے بلکہ ان کے انتقال کے بعد احسان دانش کے بہت سے شاگردوں نے حزیں صاحب کو اپنا جانشیں نامزد کیا اور یہ بحث کئی دن تک اخبارات میں چھپتی رہی ۔ مگر چونکہ حزیں صاحب کی افتادِ طبع اس قسم کے جھمیلوں کی روادار نہیں تھی اس لیے انہوں نے اسے پسند نہ کیا ۔ وہ صرف اور صرف شاعر تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی کام ٹک کر نہ کیا ۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ ایک زمانے میں انہوں نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے مگر فلمی دنیا انہیں پسند نہ آئی ۔
یہ فخر اور اعزاز مجھے حاصل ہے کہ ان جیسے آہوئے رم خوردہ کو امروز میں ملازمت کے لیے آمادہ کیا ۔
امروز میں ان کی ملازمت یقیناََ امروز کے لیے باعثِ فخر تھی ۔ وہ جب تک امروز میں رہے نہایت ڈیوٹی فل اور کارگزار رہے ۔
ان کے دور میں امروز میں کبھی املا یا زبان و بیان کی کوئی غلطی نظر نہیں آتی تھی ۔
مرزا ابنِ حنیف گواہ ہیں کہ اس زمانے میں امروز میں شائع ہونے والی ہر غزل اور نظم پہلے حزیں صاحب دیکھتے پھر شائع ہوتی ۔
اگرچہ امروز ملتان کی مجلسِ ادارت میں ملک گیر شہرت کے کئی ادیب اور دانشور شامل تھے ، مسعودہ اشعر ، حمید اختر ، نوشابہ نرگس ، ابنِ حنیف ولی ، محمد واجد ، مظہر عارف ، شبیر حسن اختر ، حنیف چوہدری ، تاہم حزیں صاحب کی آمد کے بعد یہ کہکشاں اور جگمگا اٹھی ۔
اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہم سب پسماندگان کو صبر کی توفیق دے ۔ آمین ۔
——
حزیں صدیقی صاحب کی وفات پر شعرا اور ادبا کے تاثرات
——
شاعر کی ایک خاص انداز کی زندگی اور شاعری کا ایک منفرد لجہ ختم ہو گیا ، ایک مکتبۂ فکر ختم ہو گیا ۔
( ڈاکٹر عرش صدیقی )
——
محبتیں بانٹنے والا حزیں صدیقی ہم سے آج جدا ہوا
( ڈاکٹر اسد اریب )
——
حضرت حزیں صدیقی کی رحلت سے شعر و ادب کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پورا ہونا ناممکن ہے ۔
( پروفیسر اسلم انصاری )
——
وہ اپنے الفاظ اور اخلاق میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اسے زندگی سے باہر نہ سمجھیں ۔
( پیر رفیع الدین )
——
حزیں بہترین دوست غزل گو اور انسان تھے ۔ ایسے آدمی کا دنیا میں انتقال ایک عظیم سانحہ ہے ۔
( پروفیسر اصغر علی شاہ )
——
عصمتِ افکار اور عظمتِ کردار کا پیکر مر گیا ۔
( عاصی کرنالی )
——
غزل کی کلاسیکی روایت کے بڑے شاعر تھے ان کے بہت سے اشعار سہلِ ممتنع میں اور قابلِ حوالہ ہیں ۔ انہوں نے کئی نسلوں کی شعری تربیت کی ہے ۔
( کرامت گردیزی )
——
عظیم لوگوں کو موت نہیں چھوتی ۔ محترم حزیں صدیقی اپنی عظمتِ شعری اور فضائلِ انسان کی بدولت ہمارے دلوں میں یاد بن کر زندہ رہیں گے ۔
( آصف قریشی )
——
آج ایوانِ ادب ایک اہم ستون سے محروم ہو گیا ہے ۔
چھوڑ کر اس جہانِ فانی کو
چل دئیے حضرتِ حزیں بھی آج
( مرتضیٰ اشعر )
——
منتخب کلام
——
پھر اشاروں سے بلاتے ہیں وہ اپنی جانب
اور جو یہ بھی نگہ شوق کا دھوکہ نکلا
——
پروازِ مُشتِ خاک یہی ہے تو کیا عجب
ذرے خراج لینے لگیں مہر و ماہ سے
——
پروازِ خاک میں جو بلندی کا ہے شعور
کہتے ہیں یہ زمیں کبھی آسماں پہ تھی
——
ہاتھ آ گیا ہے جام تو دستِ رسا پہ ناز
محروم رہ گئے تو لکھا تھا نصیب میں
——
کونین کی حدوں سے گزرتے چلے گئے
ہم ایک دوسرے کا سہارا لیے ہوئے
——
قیدِ ہستی کا الٰہی کوئی مفہوم تو ہو
میرا کیا جُرم ہے آخر مجھے معلوم تو ہو
——
دل کو بنا کے آئینہ بردارِ آرزو
ہنستا رہا کوئی پسِ دیوارِ آرزو
——
اپنی خوشی سے ایک قدم تو اُٹھا سکوں
اتنی لچک تو پاؤں کی زنجیر میں رہے
——
تنہا روی مجھے بھی گوارا نہیں مگر
تُو خود بھٹک رہا ہے ترے ساتھ کیا چلوں
——
ہر طرف اپنے ہی پرتو کو فروزاں دیکھ کر
دے دیا دنیا کو ہم نے آئینہ خانے کا نام
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر باقی صدیقی کا یوم پیدائش
——
باتوں باتوں میں ملاقات کی شب بیت گئی
آج معلوم ہوئی وقت کی رفتار مجھے
——
جو لوگ پھولوں کو توڑتے ہیں
ترے اصولوں کو توڑتے ہیں
——
دنیا کو میرے بعد بھی ہو گا نہ کوئی غم
دنیا سے جاؤں گا غمِ دنیا لیے ہوئے
——
بازارِ زندگی سے حزیںؔ سرسری گذر
ہر چیز کو نہ دیکھ خریدار کی طرح
——
بازارِ زندگی میں کسی طفل کی طرح
پھرتا ہوں اپنے دل میں لیے خواہشیں بہت
——
ازراہِ لطف میری طرف کیوں بڑھا دیا
جس تشنہ لب کا حق ہے اِسی کو یہ جام دو
——
عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں
ہم اپنے سامنے حیراں کھڑے ہیں
مری آنکھیں تو پیاسی ہیں سحر کی
ستارے کیوں اُترتے آ رہے ہیں
نہیں، یہ خواب کا عالم نہیں ہے
یہ سب منظر تو جیتے جاگتے ہیں
دیارِ شب کے سنّاٹے میں ہم نے
نگارِ صبح کے نغمے سُنے ہیں
ابھی کچھ رنگ ہیں دِل بستگی کے
ابھی کچھ خواب آنکھوں میں سجے ہیں
اُلجھتی جا رہی ہے ذہن کی رَو
کہانی میں کئی موڑ آ چکے ہیں
یہ سورج کس لیے جلتا ہے دِن بھر
ستارے رات بھر کیوں جاگتے ہیں
فرشتوں کی طرح دُنیا کو دیکھا
صحیفوں کی طرح چہرے پڑھے ہیں
یہ چھوٹا سا جزیرہ رہ گیا ہے
اسے بھی ہم ڈبونے پر تُلے ہیں
——
موجوں کا سانس ہے لبِ دریا رکا ہوا
شاید ابھر رہا ہے کوئی ڈوبتا ہوا
بیٹھا ہے عشق یوں سرِ منزل تھکا ہوا
رستے میں جیسے کوئی مسافر لٹا ہوا
کچھ دن سے رنگِ روئے جفا ہے اڑا ہوا
اے خونِ آرزو تری سرخی کو کیا ہوا
کیا منزلت ہے اپنی سرِ آستانِ دوست
جیسے ہو راہ میں کوئی پتھر پڑا ہوا
آنکھوں کا حال جیسے کنول ہوں بجھے ہوئے
دل کا یہ رنگ جیسے چمن ہو لٹا ہوا
کل تیری جستجو تھی مِرا مقصدِ حیات
پھرتا ہوں آج اپنا پتہ پوچھتا ہوا
میرا ہدف ہے کون مجھے خود پتہ نہیں
اِک تیر ہوں کمانِ ازل سے چلا ہوا
دل مرکزِ نگاہ تھا منزل تھی سامنے
بھٹکے وہیں دماغ جہاں رہنما ہوا
ان کا تو کیا شمار جو سجدے قضا ہوئے
بندے کو وہ بھی یاد نہیں جو ادا ہوا
——
یہ بھی پڑھیں : اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
——
جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو
ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو
کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی
کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو
کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا
کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو
کہیں ایسا نہ ہو شیرازہِ ہستی بکھر جائے
نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو
کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے
حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو
——
تحریر و شعری انتخاب از ہفت روزہ کلیم ، ملتان ، حزیں صدیقی نمبر
جلد آٹھ ، شمارہ نمبر 34 ، شائع شدہ جون 1996ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ