اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر ، ادیب ، نقاد ،محقق ، مترجم اور بہترین ماہر تعلیم پروفیسر حسین سحر کا یومِ وفات ہے ۔

(پیدائش: 10 اکتوبر 1942ء – وفات: 15 ستمبر 2003ء)
——
اصل نام خادم حسین تھا۔ 10 اکتوبر 1942ء کو ضلع فیروزپور کے قصبے جلال آباد میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے بھارت سے قصور پہنچے اور پھر مارچ 1948ء میں ملتان آئے۔ ان کے والد برکت علی بھی پنجابی کے شاعر تھے۔
خادم حسین نے 1953ء میں اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔`1956ء میں بزم طلوع ادب کے زیراہتمام ٹاﺅن ہال گھنٹہ گھر ملتان میں زندگی کاپہلا مشاعرہ پڑھا۔آپ پہلے خادم حسین خادم کے نام سے شعر کہتے رہے۔ پھر ایک طویل عرصہ تک سحر ررومانی کے نام سے پہچانے گئے۔ 1958ءمیں ایمرسن کالج، ملتان میں داخلہ لیا اور کالج میگزین نخلستان کے ایڈیٹر بنے۔ یکم جنوری 1962ء کو شادی ہوئی۔ اس برس بی اے کے امتحان میں کامیابی کے بعد یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔
1967ء میں لیکچرار منتخب ہوئے اور 1970ء کے اواخر میں ایس ای کالج، بہاولپور میں تبادلہ ہو گیا۔1971ء میں انٹر کالج۔ ملتان میں تعینات ہوئے جسے بعد ازاں گورنمنٹ کالج سول لائنز، ملتان کا نام دیاگیا۔ شعبہ تعلیم میں آپ نے پرنسپل کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔ گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ کالج، ملتان میں پرنسپل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔20 مئی1997ء کو قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر خالد سعید کا یومِ وفات
——
حسین سحر 60 کتابوں کے مصنف تھے جن میں غزل، نظم، نعت ،منقبت ،سلام اور تنقید و تحقیق کی کئی کتابیں شامل ہیں۔ انہوں نے قرآن پاک کا منظوم اردو ترجمہ ”فرقان عظیم “کے نام سے کیا۔ ان کی خودنوشت ” شام وسحر“ کے نام سے شائع ہوئی جو ان کی وفات کے ایک برس بعد منظرعام پر آئی۔
پروفیسر حسین سحر کو ان کی دینی خدمات پر دو مرتبہ صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔
15ستمبر 2016ء کو حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔
——
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
——
حسین سحر دبستان ملتان کی ایک حسین و جمیل شخصیت تھے جنہوں نے اپنی وضع دار شخصیت ہنس مکھ چہرے اور خوبصورت شاعری سے اپنے بہت سے مداح پیدا کئے۔ ان کی شہرت ملتان سے پورے پاکستان اور پھر پاکستان سے باہر تک جا پہنچی یہ 1979ءمیں کالج کا زمانہ تھا جب سول لائنز کالج میں اردو کے استاد کی حیثیت سے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر حسین سحر طلباءامور کے بھی نگران تھے۔ سول لائنز کالج کا یہ وہ دور تھا جب اساتذہ میں جابر علی سید‘ ڈاکٹر محمد امین‘ انور جمال‘ پروفیسر مبارک مجوکہ اپنے طلباءکو تحصیل علم کے ساتھ ساتھ ادبی محافل کی طرف بھی راغب کرتے تھے۔ حسین سحر کی زیر نگرانی کالج میگزین دلیل سحر شائع ہوتا تھا جس کی ادارت راقم کے ذمہ آئی یہ زمانہ طالبعلمی کا وہ دور تھا جب رضی شاکر‘ شوذب کاظمی‘ اطہر ناسک‘ سلیم ناز‘ افضل شیخ‘ قاسم خان‘ سرفراز خان اور شہزاد سحر بھی شعر و ادب کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ طلباءیونین کے تحت شعر و ادب کی محفلوں کے ساتھ ساتھ بین الصوبائی تقاریر کا سلسلہ بھی اس دور میں عروج پر تھا اور علم و ادب کے میدان میں طلباءکو حسین سحر کی رہنمائی حاصل رہتی تھی۔
طلباءیونین کے عہدے دار اور کالج میگزین دلیل سحر کے مدیر کی حیثیت سے پروفیسر حسین سحر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا پھر ریڈیو ملتان کا وہ زمانہ جب مقابلہ قرآن فہمی اور دیگر کوئز پروگرام اور مذاکروں میں حسین سحر کی میزبانی میں بھرپور شرکت کا موقع ملا اور یوں حسین سحر کے ساتھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلق بھی مزید مضبوط ہوتا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : عرش صدیقی کا یوم پیدائش
——
خادم حسین پہلے سحر رومانی بنے اور پھر حسین سحر ہو گئے۔ اقبال ارشد کے ساتھ ان کی جوڑی مشہور ہوتی گئی اور دبستان ملتان کے ادبی آسمان پر وہ ستاروں کی طرح دمکتے نظر آئے۔ بزم اہل قلم کے تحت انہوں نے اہل قلم کا بھی اجراءکیا جبکہ ملتان کی ادبی فضا کو بھی خوب گرمائے رکھا۔ کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے جہاں قدرت نے ان سے قرآن مجید کے منظوم تراجم جیسا عظیم کارنامہ سرانجام دلایا۔ انہوں نے بچوں کے لئے نظمیں بھی لکھیں۔ صدارتی ایوارڈ اور دیگر اعزازات بھی حاصل کئے۔ وہ ایک مرنجاں مرنج اور وضعدار شخصیت کے مالک تھے آخری ملاقات میں اکادمی ادبیات ملتان کی لائبریری کے لئے اپنی کتابوں کا سیٹ دیتے ہوئے اپنے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا جس سے ملتے محبت اور خلوص سے ملتے بغیر تواضع کے اٹھنے نہ دیتے۔ وہ ایک حسین و جمیل شخصیت تھے اور اپنے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رکھتے تھے۔ بیماری دل نے آخر ان کی زندگی کے چراغ کو بجھا دیا ہے لیکن انہوں نے خلوص و محبت کی جو شمعیں روشن کی ہیں وہ روشن ہیں شہزاد اور مہزاد سحر کی اچھی تعلیم و تربیت اور روزگار دلایا۔ شہزاد ان کی طرح خلوص و محبت کا پیکر ہے اور مہزاد ایک اچھا لکھاری ہے۔
حسین سحر جب سحر رومانی تھے تو ان کی غزلوں میں رومان پرور فضا نمایاں تھی۔ ان کی ایک غزل کا خوبصورت شعر بہت سوں کو یاد ہوتا تھا۔
——
چہروں کے اژدھام سے فرصت اگر ملی
لکھوں گا ایک نظم تیرے خدوخال پر
——
ہمارے ادب دوست نعیم طارق کا کہنا ہے کہ اس دور میں ان کا یہ شعر بھی خاصا مشہور تھا کہ
——
کل شام اک سراپا مہکتی ہوئی غزل
دیوانِ میر پوچھتی تھی بکسٹال پر
——
پروفیسر حسین سحر 15 ستمبر کو خالق حقیقی سے جا ملے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ 14 ستمبر کو ان کی اہلیہ کی پہلی برسی تھی اور ان کی تدفین بھی 15 ستمبر کو ہوئی تھی یقیناً یہ بھی ایک اتفاق اور ان کی اپنی اہلیہ سے محبت کا ثبوت کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور زاہدی نے ان کی یاد میں ایک غزل کہی ہے جس کا ایک شعر ہے کہ
——
صبح کا اسم حسین تھے حسین سحر تم
ڈھلی دوپہر ہوئی شام سو گئے مٹی
——
حسین سحر کی زندگی میں ان پر ایک خاکہ حسین سحر راقم نے تحریر کیا تھا جسے انہوں نے بہت پسند کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم وفات
——
آج یہ حسین شاعر منوں مٹی تلے جا سویا ہے لیکن اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کے خوبصورت شعری حوالے دبستان ملتان میں ان کی یادوں کے چراغ جلاتے رہیں گے۔
——
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتہ گرا تو درس فنا دے گیا مجھے
میرے لئے تو سانس بھی لینا محال ہے
یہ کون زندگی کی دعا دے گیا مجھے
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
نبی کی نعت کہنے کا ارادہ کر رہا ہوں میں
حرا کی روشنی سے استفادہ کر رہا ہوں میں
مئے عشقِ نبی کے کیف سے سرشار ہوں اتنا
کہ خود کو بے نیازِ جام و بادہ کر رہا ہوں میں
مجھے خواہش نہیں اطلس و کمخواب و ریشم کی
لباسِ فقر کو اپنا لبادہ کر رہا ہوں میں
جمالِ گنبدِ خضرا کا منظر آنکھ میں رکھ کر
مدینے کے سفر کو پا پیادہ کر رہا ہوں میں
رکھا ہے رحمتِ عالم کا اسوہ سامنے اپنے
دماغ و قلب کا دامن کشادہ کر رہا ہوں میں
کسی بھی اور منزل کی نہیں حاجت رہی مجھ کو
کہ طیبہ ہی کی رہ کو اپنا جادہ کر رہا ہوں میں
میں اس سے پہلے کتنا کمتر و کوتاہ قامت تھا
درِ اقدس پہ جھک کے قد زیادہ کر رہا ہوں میں
دبستانِ وفا میں اور اک نعتِ نبی کہہ کر
جو تھا آموختہ اس کا اعادہ کر رہا ہوں میں
سحرؔ یہ فیض ہے سرکارِ دو عالم کی مدحت کا
کہ نستعلیق اپنا حرفِ سادہ کر رہا ہوں میں
——
یزیدیت کے مقابل جو آئے یوں ڈٹ کر
بھرے جہاں میں فقط ایک دم حسینؓ کا ہے
جہاں ہو کوئی صداقت کا قافلہ جاری
تو جانیے کہ یہ لشکر بہم حسینؓ کا ہے
سحرؔ زباں ہے مری وقفِ مدحِ آلِ نبی
یہ سارا فیض یہ سارا کرم حسینؓ کا ہے
——
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتہ گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
——
میں نے کبھی چھوا تھا کسی رشکِ ماہ کو
ہاتھوں میں اب تلک ہے مرے چاندنی کا لمس
——
اُس کے ہونٹوں پر تبسم اس طرح ہے جلوہ ریز
برگِ گُل جیسے ستاروں کی کرن اوڑھے ہوئے
——
خوشبو کسی کی یاد کی چھو کر گزر گئی
اور مجھ کو دے گئی ہے نئی زندگی کا لمس
——
سن کر جسے شاخوں پہ چٹک اٹھتی ہیں کلیاں
بچوں کے لبوں پر وہ ہنسی کیوں نہیں آتی
——
حد سے گزر چکی ہے شبِ غم کی تِیرگی
سورج کو اب سروں پہ چمک جانا چاہیے
——
اک دیا بجھنے کو ہے طاقِ شفق کی گود میں
اک دیا جلنے لگا ہے شام کی دہلیز پر
——
حالات کو اک رنگ میں رہنا نہیں آتا
اس زلفِ پریشاں کو سنورنا ہے کسی دن
——
عکس ہے مجھ میں یہ سب آئینۂ حالات کا
اک ردائے کرب ہے جو میرا فن اوڑھے ہوئے
——
لکھا نہیں قصیدہ کسی بادشاہ کا
ہم نے قلم کی روح کو مرنے نہیں دیا
——
چاروں طرف سلگتے بگولے ہیں رقص میں
محسوس ہو رہا ہے کہ صحرا سفر میں ہے
——
ذہن جب تاریک ہو جائیں مشینوں کے طفیل
جذبِ دل کی روشنی کو عام کرنا چاہیے
——
روح کے زخموں کی شادابی کہاں ہے مستقل
ایک دن یہ لہلہاتی فصل بھی کٹ جائے گی
——
میں تو گردابِ بلا میں ڈوب ہی جاتا مگر
اس قدر دریا میں یہ بازو کہاں سے آ گئے
——
بُجھتا ہوا دیا یہ سزا دے گیا مجھے
میں شعلہ جنون تھا ، ہوا دے گیا مجھے
رنگوں میں ایک چاند سا پیکر بکھر گیا
پانی میں اُس کا عکس مزا دے گیا مجھے
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پَتّا گرا تو درس فنا دے گیا مجھے
سورج کی چند جاگتی کرنوں کا قافلہ
خوابیدہ منزلوں کا پتہ دے گیا مجھے
خوشبو کا ایک نرم سا جھونکا بہار میں
گزرے ہوئے دنوں کی صدا دے گیا مجھے
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
یہ کون زندگی کی دعا دے گیا مجھے
میں خاموشی کا پیکر بے رنگ تھا ” سحر ”
اک شخص بولنے کی ادا دے گیا مجھے
——
کرن کرن کے درخشندہ باب میرے ہیں
تمام روشنیوں کے نصاب میرے ہیں
شبوں کے سبز جزیرے ہیں سب مری اقلیم
تمام جاگتی آنکھوں کے خواب میرے ہیں
میں ہوں تمام دھڑکتے دلوں کا شیدائی
یہ آبگینے یہ نازک حباب میرے ہیں
تمام عمر تخاطب مرا مجھی سے رہا
سوال میں نے کئے ہیں جواب میرے ہیں
خدائے دشت کی تقسیم پر میں راضی ہوں
کہ آب پارے ترے ہیں سراب میرے ہیں
نصیب آج ہیں کانٹے اگر تو کیا غم ہے
نئی رتوں کے شگفتہ گلاب میرے ہیں
میں آفتاب کے مانند ہوں نقیب سحرؔ
سیاہیوں پہ سبھی احتساب میرے ہیں
——
اتنی سی اس جہاں کی حقیقت ہے اور بس
گفتار زیر لب ہے سماعت ہے اور بس
کیوں آشنائے چشم ہو دیدار حسن کا
یہ گریہ آزمائی تو عادت ہے اور بس
اتنے سے جرم پر تو نہ مجھ کو تباہ رکھ
تھوڑی سی مجھ میں تیری شباہت ہے اور بس
اس کو جزا سزا کے مراحل میں دے دیا
جس پاس ایک عمر کی مہلت ہے اور بس
آیا جو دور دشت اچانک ہی سامنے
ایسا لگا کہ تیری اجازت ہے اور بس
ہم نے کہا کہ ختم ہوئے سب معاملات
دل نے کہا کہ کیا ہے؟ قیامت ہے! اور بس
آئینہ دار ہوں کہ ترا پردہ دار ہوں
پیش نگاہ تیری محبت ہے اور بس
——
تیری چاہت تیری اُلفت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی عہدِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگانی کو کسی بھی مول واپس لائیں تو
جو سمجھتے ہیں کہ دولت کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی مرضی سے کہاں اک سانس بھی لیتے ہیں ہم
زندگی جبرِ مشیت کے سوا کچھ بھی نہیں
زییست کیا ہے جیسے اک افسانۂ رنگین ہے
موت کی سنگیں حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
بے مزا سے اب گزرتے ہیں مرے شام و سحرؔ
تیری یادوں کی حلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں
——
پروفیسر حسین سحر کی ویب اور مکمل کتابوں کے لیے لنک نیچے دیا گیا ہے ۔
حسین سحر ڈاٹ کام
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ