اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر اقبال اشہر کا یومِ پیدائش ہے ۔

اقبال اشہر(پیدائش: 26 اکتوبر 1965ء )
——
ہم نے یہ جاننے کے لئے کہ آیا آج کی نسل رتجگے جیسے لفظ سے واقف بھی ہے کہ نہیں کچھ بچوں سے پوچھ لیا کہ رتجگے کا مطلب جانتے ہو؟ اس پرچند ایک نے تو شک کی نگاہ سے دیکھا ،کچھ چُپ چاپ نکل لئے ۔ایک نے کہا جی انکل جاگرن کو کہتے ہیں ، لیکن ایک سمجھدار بچہ جو کچھ زیادہ ہی قابل نظر آرہا تھا اس نے کہا کہ شب بیداری جو ہم لوگ کرتے ہیں اس کو رتجگے کہتے ہیں۔ ایک کے سر پر مختلف کالجوں میں داخلے کو لے کر فکر لاحق تھی ،اس نے کہا کہ جو امتحان کی تیاری کے لئے رات بھر جاگ جاگ کر پڑھا جاتا ہے اسے رتجگا کہتے ہیں۔ تبھی قریب کے ریڈیو سے نغمہ بجنے لگا کہ ساقیہ آج مجھے نیند نہیں آئے گی سنا ہے تیری محفل میں رتجگا ہے۔ہم اسی الجھن میں مبتلا تھے کہ آخر اقبال اشہر ؔ کے رتجگے کس نوعیت کے ہیں۔ اقبال اشہرؔ کے ساتھ ایک آدھ بار ہمیں بھی راتوں کو جاگنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن یہ مشاعروں کی شب بیداری ہوتی ہے جس میں اپنی باری کے انتظار میں چائے پر چائے پیتے ہوئے شاعر بار بار سامعین کے پل پل بدلتے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی یہ کلام کبھی وہ کلام پڑھنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن اقبال اشہرؔ جس رتجگے کی بات کر رہے ہیں وہ تو بیدار ذہنوں کا مقدر ازل سے ہی رہا ہے۔جو ایک بار اپنی ذات کے شہر میں داخل ہو گیا پھر وہاں سے واپسی کا راستہ اسے کہاں ملنے والا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اقبال اشہر کا شاہکار کلام بسلسلۂ جشن ظہور حضرت امام حسینؑ
——
اندر جانے کے ہزار در مگر باہر آنے کی کوئی راہ نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ہرلمحے کی بیداری ہی شب بیداری ہے ،جاگرن ہے یا یوں کہیں کہ اقبال اشہر ؔ کا’رتجگے ‘ہے۔ دہلی کی پرانی شاعری کی تہذیب کے دامن میں پلے بڑھے اقبال اشہرؔ کی شاعری کا مجموعہ 2010 ء میں رتجگے کے نام سے آیا اور ان کی راتوں کو بے نقاب کر گیا۔
——
تاریک سمندر میں گزارے ہیں کئی سال
تب جاکے مجھے نور کی اک بوند ملی ہے
——
اقبال اشہر نے مشاعروں میں شاعری کو زندہ کرنے کا کام کیا ۔ انہوں نے جو راستہ منتخب کیا تھا وہ مشکل ضرور تھا لیکن رتجگے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا راتوں کوجاگنا غارت نہیں گیا ہے بلکہ ان کے وجدان کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ رتجگے میں وہ کہتے ہیں کہ نئے اور پرانے پن کی دھوپ چھاؤں اور ہونے نہ ہونے کی کشمکش نے انہیں لفظوں کی وہ مصوری سکھائی جسے عام زبان میں شاعری کہتے ہیں۔ بس یہی تڑپ رتجگے میں جابجادکھائی دے جاتی ہے۔ رتجگے کا سر ورق شاندار ہے جس میں اوپر’رتجگے ‘ کے ساتھ بادلوں سے گھرے چودھویں کے چاند کو دکھایا گیا ہے اور نیچے ایک جلتی ہوئی شمع بھی رات کی تاریکی سے نبرد آزما ہے ۔ کتاب کی پشت پر شاعر کی خوبصورت تصویر کے ساتھ منور ؔ رانا اور معراجؔ فیض آبادی کے ان کے بارے میں تاثرات موجود ہیں۔جس میں اقبال اشہرؔ کو کھرا سونا اور ایوانِ غزل کا معتبر نام کہا گیا ہے۔ یہاں حروف اگر سنہرے ہوتے یا سیاہ سے الگ کوئی اور رنگ لئے ہوتے تو پڑھنے میں سہولت ہوجاتی ۔اقبال اشہر کی شاعری کا یہ مجموعہ کتابی دنیا ،دہلی کی جانب سے آیا تھا۔اس کی قیمت صرف دو سو پچاس روپئے ہے۔اس کی اشاعت میں کسی اکیڈمی یا میموریل کمیٹی یا کونسل کا مالی تعاون دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن انتساب سیّد یحییٰ بخاری کی ادب دوستی اور اردو نواز ی کے نام ہے۔ دہلی کے نئے لعل و گوہر کے عنوان سے گُلزار دہلوی ، سنجیدہ عوامی مقبولیت کا شاعر کے عنوان سے پروفیسر علی احمد فاطمی ،تیرا خیال ہے یا دن نکلنے والا ہے کے عنوان سے منصورؔ ؔ عثمانی ،عوامی شاعری کے ادبی سروکار اور اقبال اشہر ؔ کے عنوان سے نعمان شوق ؔ اور نئے افق کا نیا ستارہ کے عنوان سے معین شاداب ؔ کے تاثرات بھی رتجگے کا حصّہ ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ سب لوگ کسی نے کسی موقع پر ان کے ساتھ رات سے ضرور جوجھے ہوں گے مگر یہ رتجگے مشاعروں والے ہو سکتے ہیں تنہائیوں والے نہیں کیونکہ وہ کالی اندھیری راتیں جن میں فکر و آگہی کے چراغ جلتے ہیں وہ تو ان ہی کا مقدر ہیں جو اکیلے میں میلے لگانے کا ہنر جانتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : اب کے برس بھی کیفیت میں ڈوبا رہے قلم
——
اقبال اشہر جانتے ہیں کہ یہ رتجگے اتنی آسانی سے پکڑ میں نہیں آتے ؂
——
اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی
——
ان کی اس غزل میں آٹھ بار ‘مدتوں ‘ کا استعمال ہوا ہے ۔ کُل ملا کر چار اشعار’ مدتوں ‘کو ہر مصرعے میں جگہ دیتے ہیں۔ یہ غزل مشاعروں میں بہت پسند کی جاتی ہے ؂
——
مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدتوں بعد ہمیں پیاس بجھانی آئی
——
اسی طرح رتجگے میں ان کی ایک اور مشہور غزل ہے جس میں انہوں نے’ پھِر’ کا سہارا نو بار لیا ہے
؂
——
پھر میرے کاسہء خالی کا مقدر جاگا
پھر میرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے
پھر تیرا ذکر کیا بادِ صبا نے مجھ سے
پھر میرے دل کو دھڑکنے کے بہانے آئے
——
وہ اس طرح کسی لفظ کو بار بار دہرا کر ایک قسم کا آہنگ سا پیدا کردیتے ہیں جس سے غزل میں اپنے آپ ایک کشش پیدا ہوجاتی ہے۔
اقبال اشہرؔ مشاعروں کے کامیاب شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ ان شاعروں میں سے ہیں جو ترنم سے پڑھنے کے باوجود اچھے اشعار کہتے ہیں۔ان کا ترنم اس قدر شاندار ہے کہ ہم نے جب جب انہیں مشاعروں میں سنا تب تب کئی روز تک ان کے اشعار کو ترنم کے ساتھ دہراتے رہے ہیں۔ویسے ترنم ہماری بیگم کا پیار کا نام بھی ہے ۔رتجگے کی ان کی شاعری میں جا بجا خوشبو سے مہکتی روشنی کا گزر ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ روشنی ،اندھیرے ،اجالے،چاند ،تارے ،چراغ ،ہوا،پھول ،خوشبو،موسم،رُت،مہک،تصویر،رنگ،کینوس،خواب ،آنکھیں،نیند،صحرا،دھوپ ، چھاؤں، پیاس ، چاندنی ، دریا، قطرہ، سمندر، گھر، پرندے اور پرواز جیسے استعارے ان کی غزلوں کو وسعت عطا کرتے محسوس ہوتے ہیں ؂
——
مدتوں بعد کھلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدتوں بعد ہمیں خاک اُڑانی آئی
——
کیا لوگ ہیں چراغ بجھانے پہ ہیں بضد
اور یہ بھی چاہتے ہیں یہاں روشنی رہے
——
اگر اپنے بکھرنے کا نظارہ کر نہیں سکتے
تو یہ کیجئے کہ وہ روشن ستارہ دیکھتے رہیے
——
یہ ہے شہرِجسم وہ شہرِ جاں نہ یہاں سکوں نہ وہاں سکوں
یہاں خوشبوؤں کی تلاش ہے،وہاں روشنی کا سوال ہے
——
دھوپ کے ہم سفر کو کیا معلوم
راہ میں کوئی سائبان بھی تھا
——
ہم تو اس وقت بھی روشن تھے کسی گوشے میں
جب زمانے کو چراغوں کی ضرورت کم تھی
——
غزل کے بوسیدہ کینوس پر نئی نئی سی دھنک سجادے
اُس ایک رُت کی تلاش میں ہوں جو روشنی کا پتہ بتادے
——
اک دوسرے کا درد جہاں بانٹتے تھے لوگ
اکثر میں سوچتا ہوں وہ دنیا کدھر گئی
——
رتجگے میں اقبال اشہرؔ جس کھوئی دنیا کی تلاش کرتے ہیں اس کے مل نہ پانے کا افسوس نہیں بلکہ اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔وہ جب رتجگے میں پیاس اور صحرا کاذکر کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری نے کربلا کا سفر طے کیا ہوا ہے۔اقبال اشہرؔ نے رتجگے میں ان لوگوں کا خیال رکھا ہے جو رات کے بیتنے کے بعد بھی جاگنا چاہتے ہوں ۔اس لئے اس میں غزلوں کے ساتھ آزاد، معّریٰ،پابند نظمیں اور گیت بونَس میں رکھ دیے ہیں۔ا س حصّے میں مختلف موضوعات پر کلام موجود ہے۔ ‘اردو’ کے عنوان سے ان کا ایک گیت کافی مقبولیت رکھتا ہے ؂
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
——
یہ بھی پڑھیں : شبِ تمنا کے رتجگے میں نئی سحر کا نصاب لکھا
——
اگر آپ راتوں کو جاگنے کا ہنر جانتے ہیں۔دن میں بھی اندھیرے سے ہو کرگزرتے ہیں۔خوشبوؤں کو کینوس پر رنگوں سے اتارنا جانتے ہیں۔تہذیب کے چراغوں کو روشن رکھنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اپنے پروں سے بلند پروازی کی خواہش ہے تو کبھی اقبال اشہرؔ کی ان راتوں سے ضرور ملاقات کیجئے گا جو ‘رتجگے ‘ کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ شائد آپ کو بھی فیس بُک،چینل سرفنگ،انٹر نیٹ ،ٹوئٹر یا کال سینٹر میں برباد ہورہی راتوں سے الگ چند فکر انگیز راتوں کا پتہ چل جائے اور آپ کی راتوں کے مقدر میں بھی روشنی کا گزر ہوجائے۔کیونکہ ان تمام جدید رتجگوں کے بعد جب بھی کبھی تنہائی کی یلغار ہوگی تو یہ رتجگے ذہن و دل پر دستک تو ضرور دے اٹھیں گے۔
——
بیٹھوگے پَر سمیٹ کے جب شام کے قریب
یہ "رتجگے” یہ لوگ بہت یاد آئیں گے
——
منتخب کلام
——
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
——
لے گئیں دور بہت دور ہوائیں جس کو
وہی بادل تھا مری پیاس بجھانے والا
——
سنو سمندر کی شوخ لہرو ہوائیں ٹھہری ہیں تم بھی ٹھہرو
وہ دور ساحل پہ ایک بچہ ابھی گھروندے بنا رہا ہے
——
سوچتا ہوں تری تصویر دکھا دوں اس کو
روشنی نے کبھی سایہ نہیں دیکھا اپنا
——
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
——
کسی کو کھو کے پا لیا کسی کو پا کے کھو دیا
نہ انتہا خوشی کی ہے نہ انتہا ملال کی
——
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو مرے لہجے میں بسا رکھی ہے
——
پھر ترا ذکر کیا باد صبا نے مجھ سے
پھر مرے دل کو دھڑکنے کے بہانے آئے
——
رات کا پچھلا پہر کیسی نشانی دے گیا
منجمد آنکھوں کے دریا کو روانی دے گیا
میں صداقت کا علمبردار سمجھا تھا جسے
وہ بھی جب رخصت ہوا تو اک کہانی دے گیا
پہلے اپنا تجزیہ کرنے پہ اکسایا مجھے
پھر نتیجہ خیزیوں کو بے زبانی دے گیا
کیوں اجالوں کی نوازش ہو رہی ہے ہر طرف
کیا کوئی بجھتے چراغوں کو جوانی دے گیا
کیوں نہ اس آوارہ بادل کو دعائیں دیجئے
جو سمندر کو خلش صحرا کو پانی دے گیا
——
خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی
بجھا چراغ تو جگنو نے رہنمائی کی
ترے خیال نے تسخیر کر لیا ہے مجھے
یہ قید بھی ہے بشارت بھی ہے رہائی کی
قریب آ نہ سکی کوئی بے وضو خواہش
بدن سرائے میں خوشبو تھی پارسائی کی
متاع درد ہے دل میں تو آنکھ میں آنسو
نہ روشنی کی کمی ہے نہ روشنائی کی
اب اپنے آپ کو قطرہ بھی کہہ نہیں سکتا
برا کیا جو سمندر سے آشنائی کی
اسے بھی شہ نے مصاحب بنا لیا اپنا
جس آدمی سے توقع تھی لب کشائی کی
وہی تو مرکزی کردار ہے کہانی کا
اسی پہ ختم ہے تاثیر بے وفائی کی
——
دیار دل میں نیا نیا سا چراغ کوئی جلا رہا ہے
میں جس کی دستک کا منتظر تھا مجھے وہ لمحہ بلا رہا ہے
پھر ادھ کھلا سا کوئی دریچہ مرے تصور پہ چھا رہا ہے
یہ کھویا کھویا سا چاند جیسے تری کہانی سنا رہا ہے
وہ روشنی کی طلب میں گم ہے میں خوشبوؤں کی تلاش میں ہوں
میں دائروں سے نکل رہا ہوں وہ دائروں میں سما رہا ہے
وہ کم سنی کی شفیق یادیں گلاب بن کر مہک اٹھی ہیں
اداس شب کی خموشیوں میں یہ کون لوری سنا رہا ہے
سنو سمندر کی شوخ لہرو ہوائیں ٹھہری ہیں تم بھی ٹھہرو
وہ دور ساحل پہ ایک بچہ ابھی گھروندے بنا رہا ہے
——
حوالہ جات
——
کتاب : رتجگے ، مصنف : اقبال اشہر ، مبصر : تحسین منور
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ