جب تک نہ بڑھ کے خود ہی مشیت ہو دستگیر

عاجز ثنائے پاک سے ہے بندۂ حقیر

صورت حضورِ پاک کی رشکِ مہِ منیر

سیرت شہِ ہدیٰ کی ہے قرآن کی نظیر

رتبہ ترا بلند ہے شاہِ فلک سریر

شاہانِ زی حشم بھی ترے در کے ہیں فقیر

تخصیص کچھ نہیں کوئی مفلس ہو یا امیر

اس زلفِ تابدار کا سارا جہاں اسیر

دانتوں کی آب و تاب پہ دُرِّ عدن نثار

ابرو کماں کی طرح تو مژگاں ہیں مثلِ تیر

وہ آب و رنگِ عارضِ تابانِ مصطفیٰ

گلگونۂ شفق کہ ہے جیسے یہیں اسیر

واللہ مصطفیٰ کی یہ معجز بیانیاں

دلکش ہر ایک قول ہے تقریر دل پذیر

احسان مند کیوں نہ ہو دنیا حضور کی

بخشا بشر کو پرچمِ آزادی ضمیر

تا کشمکش کوئی رہے باقی نہ درمیاں

آجر سے استوار کیا رشتۂ اجیر

وہ مسئلے تمام کئے چٹکیوں میں حل

جن کو سمجھ چکا تھا یہ انسان ٹیڑھی کھیر

لاکھوں سلام پڑھئے گا بر آں گلیم پوش

جس نے کہ زیب تن نہ کیا اطلس و حریر

اس بارگاہِ قدس کی اللہ رے کشش

ہر گوشۂ جہاں سے چلے ہیں جوان و پیر

پرسانِ حال حشر میں کوئی نہ ہو گا جب

اس روز امتی کا وہی ہو گا دستگیر

وہ نور بھی بشر بھی بایں طور اے نظرؔ

روشن چراغ، خاک سے جس کا اٹھا خمیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]