اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر جگن ناتھ آزاد کا یومِ وفات ہے ۔

جگن ناتھ آزاد(پیدائش: 5 دسمبر 1918ء – وفات: 24 جولائی 2004ء)
——
جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر، 1918ء کو عیسی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔
جگن ناتھ آزاد نے 1933ء میں میانوالی سے میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1935ء میں انہوں نے ڈی․اے․بی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی․اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے لاہور میں 1942ء میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944ء میں جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی میں ایم․اے․ کیا تھا۔ یہاں انہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبد اللہ، صوفی غلام مصطفٰی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسے اساتذہ سے ملنے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔
جگن ناتھ آزاد کی ایک شادی 11 دسمبر، 1940ء کو ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام شکنتلا تھا۔ اس بیاہ سے پرمیلا اور مُکتا نام کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ شکنتلا 1946ء میں بیمار ہو گئیں اور ہر ممکن علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں۔ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آزاد نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں اپنی رفیقہ حیات کی یاد میں لکھیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : اوپندر ناتھ اشک کا یومِ وفات
——
کچھ گوشوں سے یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے جگن ناتھ آزاد کا لکھا یہ قومی ترانہ نشر کیا گیا ؂
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمین پاک
جگن ناتھ آزاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 14 اگست کی رات کو ریڈیو پاکستان لاہور سے اُن کا ترانہ نشر ہوا تھا۔ تاہم محققین نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق اول‘ قائد اعظمؒ مکمل طور پر قانونی اور جمہوری مزاج رکھتے تھے۔ یہ نا ممکن تھا کہ وہ ماہرین، کابینہ اور حکومت کی رائے لیے بغیر خود ہی کسی کو یہ کام سونپ دیتے اور پھر خود ہی چپ چاپ اس کی منظوری بھی دے دیتے۔ یہ ان کے مزاج ہی میں نہ تھا۔ شاعری اور اردو فارسی سے ان کا تعلق بھی زیادہ نہ تھا۔ دوم‘ ان کی عمر کا زیادہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزرا۔ 1947 میں وہ 71 سال کے تھے۔ جگن ناتھ آزاد اُس وقت 29 سال کے غیر معروف نوجوان تھے۔ لاہور میں رہتے تھے اور ایک اینٹی پاکستان ہندو اخبار جے ہند میں نوکری کر رہے تھے۔ قائد اعظمؒ سے تو ان کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی کجا یہ کہ وہ انہیں بلا کر قومی ترانہ لکھنے کا حکم دیتے۔ سوم‘ قائد اعظمؒ کوئی عام شہری نہ تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ پروفیسر سعید کی کتاب Visitors of Quaid-e-Azam میں 25 اپریل 1948 تک کی ملاقاتوں کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں نام نہیں۔ چہارم‘ سید انصار ناصری کی تصنیف ‘پاکستان زندہ باد‘ میں7 اگست سے پندرہ اگست تک کی مصروفیات کوَر کی گئی ہیں۔ اس میں بھی جگن ناتھ کا ذکر نہیں۔ پنجم‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے اُس اے ڈی سی کی تلاش شروع کی جو قائد اعظمؒ کے ساتھ تعینات تھے۔ یہ عطا ربانی تھے۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما رضا ربانی کے والدِ محترم! ان سے ملاقات مشکل تھی۔ مجید نظامی کی مدد سے ڈاکٹر صاحب ان سے ملے۔ ان کا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نام کا کوئی شخص قائد سے ملا نہ ان کی زبان سے کبھی اس کا نام سنا گیا۔ ششم‘ پھر ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز چھانے گئے کہ ان میں کہیں جگن ناتھ آزاد کے کسی ترانے کا کوئی ذکر مل جائے‘ لیکن ایسا کوئی ثبوت ان آرکائیوز میں کہیں نہیں۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات، اعلانِ آزادی کے فوراً بعد احمد ندیم قاسمی کا گیت نشر ہوا تھا:
——
یہ بھی پڑھیں : رابندر ناتھ ٹیگور کا یوم پیدائش
——
پاکستان بنانے والے! پاکستان مبارک ہو اس کے بعد مولانا ظفر علی خان کا نغمہ گایا گیا: توحید کے ترانے کی تان اڑانے والے ہفتم‘ اُس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اگست 1947 کے اخبارات چھان مارے‘ ان میں انہیں جگن ناتھ آزاد کا نام کہیں نہ تھا۔ ہشتم‘ ریڈیو پاکستان کے رسالے ‘آہنگ‘ میں بھی، جس میں ریڈیو پاکستان کے ایک ایک پروگرام کا ریکارڈ ہوتا ہے‘ آزاد کا نام کہیں نہیں۔ نہم‘ خالد شیرازی نے 14 اگست سے لے کر 21 اگست 1947 تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے بھی اس دعوے کو ماننے سے صریحاً انکار کیا۔ دہم‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ جگن ناتھ آزاد نے وفات تک خود کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ قائد اعظمؒ سے ان کی ملاقات ہوئی یا انہوں نے ترانہ لکھنے کا کہا۔ اپنی تصنیف ‘آنکھیں ترستیاں ہیں‘ میں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور سے انہوں نے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ قومی ترانے اور ملی نغمے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قائد اعظمؒ سے ملاقات اور ان کے حکم سے ترانہ لکھنا کوئی ایسا معمولی کام نہیں تھا کہ آزاد اس کا ذکر نہ کرتے۔ ایسا ہوا ہوتا تو وہ اس اعزاز کا کئی بار ذکر کرتے۔
تقسیم ہند کے بعد آزاد دیگر ارکانِ خانہ کے ساتھ بھارت چلے آئے اور دہلی میں بس گئے۔ انہیں اولاً ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی ملازمت ملی تھی۔ پھر ’’ایمپلائمنٹ نیوز’’ میں روزگار پایا اسی سے منسلک ’’پبلی کیشنز ڈویژن’’ میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی سے ہوئییں جو رسالہ ’’آج کل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی، بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب رہے۔ ان کی مصاحبت سے آزاد نے بہت کچھ جانا تھا۔
جولائی 1948ء میں آزاد کی دوسری شادی وملا نامی خاتون سے ہوئی۔ اس بیاہ سے تین بچے مولود ہوئے۔ سب سے بڑا بیٹا آدرش، چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : اوپندر ناتھ اشک کا یومِ پیدائش
——
تصانیف
——
جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طبل و علم‘‘ 1948ء میں چھپا۔ 1949ء میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں‘‘ چھپا۔ دیگر شعری مجموعے یہ ہیں،
ستاروں سے ذروں تک
وطن میں اجنبی
نواے پریشاں
کہکشاں
بوئے رمیدہ
جستجو
گہوارہ علم وہنر
آئینہ در آئینہ‘
باقی تصانیف یہ ہیں،
روبرو (خطوط کا مجموعہ)
نشان منزل‘ (تنقیدی مضامین)
اقبال اور اس کا عہد
اقبال اور مغربی مفکرین
اقبال اور کشمیر
دہلی کی جامع مسجد
کولمبس کے دیس میں(سفرنامۂ امریکا وکینیڈا)۔
اقبالؒ کی کہانی
مرقع اقبال (البم)
اقبالؒ ایک ادبی سوانح حیات
اقبال ؒ کی زندگی شخصیت اور شاعری،
اقبال ؒ مائنڈ اینڈ آرٹ ( انگریزی )
اقبالؒ ہزپوئٹری اینڈ فلاسفی( انگریزی )
——
1968ء میں آزاد نے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر، کشمیر میں ملازمت اختیار کی۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔ 1977ء میں ہی آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش ہوئی جسے آزاد نے منظور کیا تھا۔ 1977ء سے 1983ء تک وہ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرنینگ جموں یونیورسی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984ء سے 1989ء تک پروفیسر ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989ء سے اپنی زندگی کے اخیر تک وہیں رہے۔
——
جگن ناتھ آزاد 24 جولائی، 2004ء کوانتقال کر گئے تھے۔
——
منتخب کلام
——
سلام بحضور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
سلام اس ذات اقدس پر، سلام اس فخر دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر
سلام پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بیکسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا
مددگار و معاون بےبسوں کا، زیردستوں کا
ضعیفوں کاسہارا اور محسن حق پرستوں کا
سلام اس پر جو آیا رحمتہ للعالمیں بن کر
پیام دوست لے کر، صادق الوعد و امیں بن کر
سلام اس پر کہ جس کے نور سے پرنور ہے دنیا
سلام اس پر کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا
بڑے چھوٹے میں جس نے اک اخوت کی بنا ڈالی
زمانے سے تمیزِ بندہ و آقا مٹا ڈالی
سلام اس پر جو ہے آسودہ زیر گنبد خضری
زمانہ آج بھی ہے جس کے در پر ناصیہ فرسا
سلام اس پر کہ جس نے ظلم سہہ سہہ کر دعائیں دیں
وہ جس نے کھائے پتھر، گالیاں، اس پر دعائیں دیں
سلام اس ذات اقدس پر حیات جاودانی کا
سلام آزاد کا، آزاد کی شیریں بیانی کا
——
ہاں حریفِ قہقہہ آہِ سرد ہی سہی
لب تو خندہ ریز ہیں دل میں درد ہی سہی
پاؤں تھک گئے ہیں تو کیا آرزو میں دم تو ہے
آنکھ میں چمک تو ہے رُخ پہ گرد ہی سہی
——
بڑی مدت رہا مصروفِ سعیِ لب کشائی میں
بڑی مشکل سے میرے لب پہ حرفِ ناتمام آیا
——
ترے وصل میں کہاں تھا یہ سرورِ تشنہ کامی
مرے کام آئی آخر مری آرزو کی خامی
——
خدا کرے کہ مسلسل اک اضطراب رہے
خدا کرے کہ میسر نہ ہو وصال ترا
——
بس اتنا جانتا ہوں کوئی ہمسفر نہیں
یہ کیا مقام ہے مجھے اتنی خبر نہیں
——
کچھ دید کے قابل ہے جہاں میں تو یہی ہے
اے دیدۂ دل بے رخیٔ اہلِ جہاں دیکھ
——
نظر میں کیفیتِ درد و یاس رہتی ہے
ترے بغیر طبیعت اداس رہتی ہے
خبر نہیں تمنا کا یہ مقام ہے کیا
کہ تجھ سے ملنے کی ہر لحظہ آس رہتی ہے
——
کارواں سے اس طرح بچھڑے کہ تاحدِ نظر
اب کہیں ہم کو نشانِ کارواں ملتا نہیں
——
بس ایک نور جھلکتا ہوا نظر آیا
پھر اس کے بعد نہ جانے چمن پہ کیا گذری
میں کاش تم کو بھی اہلِ وطن بتا سکتا
وطن سے دور کسی بے وطن پہ کیا گذری
جدا جب اس سے ہوئے اہلِ کوثر و تسنیم
نہ پوچھ عالمِ گنگ و جمن پہ کیا گذری
مرے چمن میں بھی آئی تو تھی بہار مگر
میں کیا بتاؤں کہ اہلِ چمن پہ کیا گذری
یہ راز فاش تو کر مجھ پہ اے نسیمِ سحر
یہ بات کیا ہے سرو و سمن پہ کیا گذری
وہ انجمن کہ جو کی تھی خلوص نے تعمیر
نہ پوچھ مجھ سے کہ اُس انجمن پہ کیا گذری
خموش کیوں ہیں قتیل و ندیم کچھ تو کہیں
ہمارے بعد ہمارے وطن پہ کیا گذری
——
مری حدِ نظر ہے اور میں ہوں
فریبِ رہگذر ہے اور میں ہوں
اُدھر دنیا ہے اور دنیا کی نظریں
اِدھر میرا ہُنر ہے اور میں ہوں
نگاہوں میں نہیں جچتی بہاریں
مرا ذوقِ نظر ہے اور میں ہوں
ہنر میرا وہی افکارِ بے ربط
زمانے کی نظر ہے اور میں ہوں
وہی بجلی ، وہی عالم ، وہی رُت
خیالِ بال و پر ہے اور میں ہوں
وہی دنیا ، وہی دنیا کے انداز
وہی میرا ہنر ہے اور میں ہوں
مجھے کیا واسطہ منزل سے آزادؔ
مرا ذوقِ سفر ہے اور میں ہوں
——
شعری انتخاب از بیکراں ، مصنف جگن ناتھ آزاد
شائع شدہ : 1956 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ