اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر حکیم سید ضامن علی جلال لکھنوی کا یوم وفات ہے

جلال لکھنوی(پیدائش: 1834ء – وفات: 20 اکتوبر 1909ء)
——
ضامن علی نام- جلال تخلص۔ حکیم اصغر علی داستان گو کے بیٹے اور لکھنؤ کے رہنے والے تھے ۔ 1250ہجری کو محلہ پار لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے نواب آصف الدولہ کے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے ہی تھے کہ شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اوّل امیر علی خان ہلالی کو اپنا کلام دکھاتے رہے۔ چونکہ طبیعت کو شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ چند ہی روز میں کیا سے کیا ہوگئے۔ جب ہلالی نے ان کے کلام اور اپنی اصلاح کا اندازہ کر لیا تو خود انہیں لے جا کر میر علی اوسط رشک کا شاگرد کرادیا۔ کچھ عرصہ تک ان سے اصلاح لیتے رہے۔ جب وہ کربلائے معلّیٰ چلے گئے تو یہ مرزا محمدرضا برق سے اصلاح لینےلگے۔
غدر 1857ء کے بعد جلال لکھنوی رام پور چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر بائیس برس کی تھی۔ ان کے باپ یوسف علی خاں کی سرکار میں داستانگوئی پر مقرر تھے۔ یہ بھی وہیں نوکر ہوگئے۔ ان کے بعد نواب کلب علی خاں نے بھی ان کی قدردانی فرمائی۔ عرصہ تک سو روپے ماہوار وظیفہ ملتا رہا۔ کئی دفعہ استعفادے دے کر چلے آئے۔ نواب نے ہر دفعہ بلوایا اور کام نہ کرنے کے زمانہ کی تنخواہ بھی عنایت فرمائی۔
منگرولی کے نواب حسین میاں بھی ان کو پچیس روپے ماہوار دیتے تھے۔ اور ہر قصیدہ پر سو روپے دیا کرتے تھے یہ مفت کسی کو بھی اصلاح نہ دیتے تھے۔
ان کو اپنی زباندانی کا بڑا دعویٰ تھا اور اس بات پر ناز تھا۔ کہ وہ محاورہ غلط نہیں بولتے ۔ اگرچہ وہ مغرور تھے لیکن پھر بھی اہلِ کمال سے جھک کر ملتے تھے۔
نواب کلب علی خاں کے مرنے کے بعد یہ پھر لکھنؤ چلے آئے اور منصور نگر میں ایک مکان خرید کر رہنے لگے۔
——
یہ بھی پڑھیں : قمر جلال آبادی کا یوم پیدائش
——
چھہتر برس کی عمر پائی۔ 20 اکتوبر 1909ء میں انتقال کیا۔
"سرمایہ زبان اردو” کے نام سے ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔ جس میں محاورے اور کنایے اور اصطلاحیں اردو زبان کی بیان کی ہیں۔ ایک رسالہ مفید الشعرا بھی ان کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں اسموں کی تذکیر و تانیث کی بحث ہے۔ ایک اور رسالہ قواعد المنتخب بھی ہے۔ جس میں بعض مفرد اور مرکب لفظوں کی تحقیق کی گئی ہے۔ علاوہ ان کے چار دیوان بھی ہیں۔
جلال ناسخ کے خاندان کی شاعری کے یاد گارتھے۔
ان کےیہاں خاص لکھنؤ کی ٹکسالی زبان پائی جاتی ہے۔
——
ناقدین کی رائے
——
پروفیسر احمد محفوظ
جلال لکھنوی کی تصانیف پر ایک نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ شعر گوئی کے علاوہ انھیں جن میدانوں سے خصوصی دلچسپی تھی،ان میں زبان کے اصول وقواعد، بالخصوص فن شعر میں زبان کے استعمال کی صورتیں شامل ہیں۔ جلال کا خاص وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے شعرگوئی کے ساتھ ساتھ زبان کی خدمت کا ایسا فریضہ انجام دیاجس سے انھیں اپنے عہد کے دیگر شعرا میں ممتاز حیثیت حاصل ہوئی ۔
جلال لکھنوی ہماری کلاسیکی ادبی تہذیب کے ایسے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے مطالعے کے بغیر ہم اپنی شعری روایت کی تفہیم کا پورا حق ادا نہیں کر سکتے دیگر بہت سے شعرا کے مقابلے میں جلال کا ادبی مرتبہ اس لئے بھی امتیازی قرار پاتا ہے کہ انھوں نے شعرگوئی کے علاوہ اردو زبان اور فن شعر سے متعلق نثری تصانیف کی صورت میں بھی گراں بہا کارنامے انجام دیے۔
جلال کے رنگ سخن کو ایک مخصوص طرز شعرگوئی سے منسوب سمجھنا چاہیے، جسے مضمون آفرینی کہا گیا ہے۔ کلاسیکی شاعری خواہ دہلی کی ہو یا لکھنؤ کی، اگر اسے مجموعی صورت میں دیکھا جائے اور خاص کر کلاسیکی شعری تہذیب اور تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں ان فرضی خانہ بندی کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوگی۔
——
پروفیسر احسن الظفر
ہماری شعری روایت اور تہذیب کے ایک اہم شاعر کے طور پر جلال کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات خوش آیند ہے کہ نئی نسل بھی اس طرح کے اہم موضوعات پر نہ صرف لکھ رہی ہے بلکہ اپنا ایک واضح نظریہ بھی رکھتی ہے۔
——
ڈاکٹر عمیر منظر
جلال محض شاعر نہیں تھے بلکہ شاعرکے ساتھ ساتھ لغت اور زبان پر غیر معمولی دسترس رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار میں زبان و بیان کا ایک خاص لطف پایا جاتا ہے۔ جلال نے امیر اور داغ کے ساتھ اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا تھا ان تینوں شعرا کی بہت سی ہم طرح غزلوں میں جلال کی انفرادیت دیکھی جاسکتی ہے۔
——
ڈاکٹر نور فاطمہ
ان کی شاعری کے مطالعے کا ایک پس منظر یہ بھی بنتا ہے کہ نئی نسل کو جلال کی شاعری پڑھ کر زبان کا سلیقہ،رعایت لفظی،مناسبات لفظی، صوتی آہنگ،محاوروں کی صحیح ادائیگی اور روز مرہ کی زبان کا غیر معمولی استعمال سیکھنا چاہیے۔ کیونکہ جلال نے اپنے معمولی اشعار میں بھی زبان کی صفائی،مترنم الفاظ، بندش کی چستی اور محاوروں کے برجستہ استعمال پر خاص توجہ صرف کی ہے جلال کی شاعری پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ زبان کے تمام داؤ پیچ اور اس کے فنکارانہ استعمال پر دسترس رکھتے ہیں۔یہ جلال کی ایسی خوبی ہے جو انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے۔ میں نے مختلف اشعار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جلال کی شاعری میں زبان کا رچا ہوا ذوق اور شاعرانہ وسائل کا ہنر مندانہ طریق کار ان کی نکتہ رسی اور بالغ نظری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ان تمام خوبیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا اس بات کا اعتراف کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ جلال کی شاعری میں استفادے کی بھر پور صلاحیت ہے اور موجودہ عہد میں ان کی شاعری کا مطالعہ بے حد مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتاہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : انور جلال پوری کا یوم وفات
——
ڈاکٹر شاہ نواز فیاض
تذکیر وتانیث کا اختلافی مسئلہ اردو زبان میں بہت پہلے سے ہے، اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جلال لکھنوی نے ’مفید الشعرا‘ میں اس سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس میں ترجیح دبستان لکھنؤ کو دی۔ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے کہاکہ جلال لکھنوی نے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ جن لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں متفق ہیں، اس کو محض بیان کردیا ہے، اس کی مثال نہیں دی ہے، جب کہ جن لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں متفق نہیں ہیں، اس کو مع مثال پیش کیا گیاہے۔
جلال لفظ املا کی تذکیر کے قائل ہیں، لیکن اسے مختلف فیہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لکھنؤ کے استاد شاعر میر رشک نے املا کو مونث استعمال کیا ہے۔ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے اس بات پر زور دیا کہ جلال لکھنوی کے اس رسالے کے بعض مندرجات سے اختلاف کیا گیا، لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا۔جلال نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اس لیے قابل غور ہیں کہ انھوں نے تذکیر وتانیث میں لفظ کے استعمال اور معنی پر زور دیا۔اختلاف کے باوجود جلال کی اس کاوش کی ہمیشہ پذیرائی ہوئی۔
——
ڈاکٹر محضر رضا
جلال سے ہمیں زبان وادب کا ایک شعور ملتا ہے۔انھوں نے زبان اور لغت کے سلسلے میں جو کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔
——
ڈاکٹر گلزار حسن
دبستان لکھنؤ کے جن شعرا نے نثر اور شاعری دونوں حوالوں سے قابل قدر خدمات انجام دی اور یادگار سرمایہ چھوڑا ان میں جلال کا شمار ہوتا ہے۔گلزار حسن نے کہا کہ لغت اور زبان و بیان کے باب میں جلال کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
——
محمد سعید اختر
جلال لکھنوی کی غزلیں عشق و محبت، رندی و سرمستی کے علاوہ صوفیانہ مضامین سے بھی عبارت ہیں۔ جلال کے یہاں جو دہلوی رنگ ہے وہ آتشؔ ہی کی دین ہے۔
——
مجتبی حسن صدیقی
جلالؔ نے کل ۷۱ رباعیاں کہیں ہیں۔جو مختلف روایتی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، ان رباعیوں میں جلال کے استادانہ رنگ کا اظہار ہوا ہے۔ جلال کی ان رباعیوں میں دل کی عظمت،محبوب کے حسن کی تعریف،شوخی و اداکا بیان،ہجر کی کلفتوں کا ذکر اور ناصح کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ حمد و منقبت کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔
——
منتخب کلام
——
کٹ گئی پاؤں کی بیڑی جو پہن لی زنجیر
ہوشیاری کوئی سیکھے ترے دیوانے سے
——
گیا قرار دلِ بے قرار باقی ہے
اُمید مٹ گئی ، امیدوار باقی ہے
——
میں نے پوچھا کہ ہے کیا شغل تو ہنس کر بولے
آج کل ہم تیرے مرنے کی دعا کرتے ہیں
——
اک رات دل جلوں کو یہ عیش وصال دے
پھر چاہے آسمان جہنم میں ڈال دے
——
جلالؔ عہد جوانی ہے دو گے دل سو بار
ابھی کی توبہ نہیں اعتبار کے قابل
——
پہنچے نہ وہاں تک یہ دعا مانگ رہا ہوں
قاصد کو ادھر بھیج کے دھیان آئے ہے کیا کیا
——
کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی
وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی
کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی
سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی
کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل
اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی
دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر
یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی
کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے
مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی
وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر
کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی
ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں
باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی
خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے
یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی
چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار
سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی
——
تصور ہم نے جب تیرا کیا پیش نظر پایا
تجھے دیکھا جدھر دیکھا تجھے پایا جدھر پایا
کہاں ہم نے نہ اس درد نہانی کا اثر پایا
یہاں اٹھا وہاں چمکا ادھر آیا ادھر پایا
پتا اس نے دیا تیرا ملا جو عشق میں خود گم
خبر تیری اسی سے پائی جس کو بے خبر پایا
دل بے تاب کے پہلو سے جاتے ہی گیا سب کچھ
نہ پائیں سینے میں آہیں نہ آہوں میں اثر پایا
وہ چشم منتظر تھی جس کو دیکھا آ کے وا تم نے
وہ نالہ تھا ہمارا جس کو سوتے رات بھر پایا
میں ہوں وہ ناتواں پنہاں رہا خود آنکھ سے اپنی
ہمیشہ آپ کو گم صورت تار نظر پایا
حبیب اپنا اگر دیکھا تو داغ عشق کو دیکھا
طبیب اپنا اگر پایا تو اک درد جگر پایا
کیا گم ہم نے دل کو جستجو میں داغ حسرت کی
کسی کو پا کے کھو بیٹھے کسی کو ڈھونڈھ کر پایا
بہت سے اشک رنگیں اے جلالؔ اس آنکھ سے ٹپکے
مگر بے رنگ ہی دیکھا نہ کچھ رنگ اثر پایا
——
یہ بھی پڑھیں : مصنف حکیم محمد سعید کا یومِ پیدائش
——
اے مصور جو مری تصویر کھینچ
حسرت آگیں غمزدہ دلگیر کھینچ
جذب بھی کچھ اے تصور چاہئے
خود کھنچے جس شوخ کی تصویر کھینچ
اے محبت داغ دل مرجھا نہ جائیں
عطر ان پھولوں کا بے تاخیر کھینچ
آ بتوں میں دیکھ زاہد شان حق
دیر میں چل نعرۂ تکبیر کھینچ
ایک ساغر پی کے بوڑھا ہو جوان
وہ شراب اے مے کدہ کے پیر کھینچ
دل نہ اس بت کا دکھے کہتا ہے عشق
کھینچ جو نالہ وہ بے تاثیر کھینچ
دل ادھر بیتاب ہے ترکش ادھر
کھینچتا ہوں آہ میں تو تیر کھینچ
کچھ تو کام آ ہجر میں او اضطراب
شوخیٔ محبوب کی تصویر کھینچ
قیس سے دشت جنوں میں کہہ جلالؔ
آگے آگے چل مرے زنجیر کھینچ
——
مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی
ہو چکا حشر بھی لیکن یہ قیامت نہ گئی
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
بوسہ لے کر جو مکرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
شاعری کا اثر اور جھوٹ کی عادت نہ گئی
داغ مٹتے نہ سنا دل سے تری حسرت کا
آئی جس گھر میں پھر اوس گھر سے یہ دولت نہ گئی
پاس بیٹھے بھی تو کیا جلد اٹھے گھبرا کر
میرا سودا تو گیا آپ کی وحشت نہ گئی
نہ ہوا صاف دل یار کسی طرح جلالؔ
خاک میں مل گئے ہم اس کی کدورت نہ گئی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ