اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے نامور افسانہ نگار کرشن چندر کا یوم وفات ہے ۔

کرشن چندر(پیدائش: 23 نومبر 1914ء – وفات: 8 مارچ 1977ء)
——
>کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔
اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
——
لاہور سے محبت
——
کرشن چندر نے جس قدر محبت سے لاہورکو یاد کیا ہے، شاید ہی کسی دوسرے لکھنے والے نے کیا ہو۔ اُن کے ہاں مرنے سے قبل لاہور دیکھنے کی تمنا نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی تھی۔ جس جس پاکستانی کو، ان کا آخری خط ملا، اُس میں لاہور آنے کی خواہش کا اظہار تھا۔ احمد ندیم قاسمی کو کرشن چندر نے آخری خط میں لکھا:
’’لاہور کا ذکر تو کجا، اس کافر ادا شہرکے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔‘‘
اختر جمال اپنے مضمون ’’میرے بھائی… کرشن جی‘‘ میں بیان کرتی ہیں:
’’وہ لاہور سے آنے والے کو ایسے رشک سے دیکھتے کہ ان کا بس چلتا تو آنکھوں سے لاہور کی سڑکوں، گلیوں، مکانوں اور درختوں کی تصویریں حاصل کر لیتے… بار بار لاہورکی باتیں سن کر ان کا جی نہیں بھرتا تھا… جب وہ لاہورکی اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کِھل جاتا تھا، آنکھیں چمکنے لگتی تھیں۔ لاہور کی تعریف اُن کی تعریف تھی۔ ان چند سالوں میں جب بھی اُن سے ملاقات ہوئی اُنھوں نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ’’مرنے سے پہلے ایک بار جی چاہتا ہے، پاکستان جاؤں، لاہور دیکھوں۔‘‘ انھوں نے ’’نقوش‘‘ میں میرا خاکہ ’’راکھی‘‘ بہت پسند کیا اور مجھے خط لکھا۔ یہ ان کا آخری خط ہے۔ اس میں بھی لاہور آنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر ناصر زیدی کا یوم ِ وفات
——
1977ء میں معروف تاریخ دان اشتیاق احمد نے سٹاک ہوم سے کرشن چندر کی ایک کہانی جس میں موہنی روڈ کا ذکرآیا تھا، پڑھ کر انھیں خط کے ذریعے لاہور آنے کی دعوت دی تو کرشن چندر نے جوابی خط جو انگریزی میں تھا، اس میں لاہور سے اپنی شیفتگی کو بڑے موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔
کرشن چندر لاہور میں مختلف جگہوں پر رہے، لیکن تحریروں میں سب سے زیادہ موہنی روڈ اور ہندو ہاسٹل میں ان کی رہائش کا ذکر آتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے تعلق استوار ہونے کے بعد ایک روزکرشن چندرسے پوچھا کہ وہ رہتے کہاں ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: ’’تمھارے داتا کے سائے میں۔‘‘
بقول احمد ندیم قاسمی:
’’وہ دراصل داتا دربار کے عقب میں موہنی روڈکے ایک مکان میں رہتا تھا اور جب داتا دربار کے قریب سے گزرتا تو یہ ضرور کہتا تھا کہ ’’ایک عقیدت مند ہندو کا سلام قبول فرمائیے داتا مہاراج!‘‘
موہنی روڈ پر کرشن چندر کے مکان کا ذکر میرزا ادیب نے کچھ یوں کیا ہے۔
’’میں لاہورکے اس حصے میں رہتا تھا جس کا نام موہنی روڈ ہے۔ میرا مکان اس حصے کے آخری کونے میں ہے، کم وبیش روزانہ مین روڈ سے گزرنا پڑتا ہے اور اس سڑک پر ایک چھوٹا سا مکان ایسا بھی ہے جس کے قریب پہنچ کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور ایک دم یوں احساس ہوتا ہے جیسے میرے سینے کی گہرائیوں میں ایک معطر روشنی جھلملا اٹھی ہے اور کانوں میں رس گھلنے لگا ہے۔ اس مکان میں کرشن چندر رہ چکا ہے۔ اردو کا کرشن چندر۔ لاکھوں انسانوں کا کرشن چندر۔ میرا دوست کرشن چندر۔‘‘
میرزا ادیب کی ایک اور تحریر میں ہندو ہاسٹل کا بھی ذکر آیا ہے، جہاں وہ پہلی بار کرشن چندر سے ملے تھے۔
1937ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا طبع زاد ڈراما ’’بیکاری‘‘ ہندو ہاسٹل میں بیتے دنوں کا احوال سناتا ہے۔ گوپال متل نے بھی اپنی کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ میں کرشن چندر کے ہندو ہاسٹل میں رہنے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کنھیا لال کپور، کرشن چندرکا اکثر مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ کمیونسٹ ہونے کا مدعی ہے لیکن جو کریم استعمال کرتا ہے، اس پر بورژوا لکھا ہوا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ زیادتی بھی تھی کیونکہ کرشن چندر ان دنوں بورژوا زندگی ہرگز بسر نہیں کر رہے تھے اور ان کا قیام ہندو ہوسٹل میں تھا جس میں کم استطاعت کے لوگ ہی رہتے تھے۔‘‘
ہندوہاسٹل میں قیام کے دوران ہی کرشن چندر کی کنھیا لال کپور سے دوستی ہوئی۔ کنھیا لال کپور اور کرشن چندر کا کمرہ ساتھ ساتھ تھا لیکن وہ ایک دوسرے سے شناسا نہیں تھے۔
دونوں کے متعارف ہونے کا پُرلطف قصہ کنھیا لال کپور کی زبانی سنیے۔
’’یہ اکتوبر 1936ء کا ذکر ہے، میں ان دنوں بیکار تھا اور ایک سستے بورڈنگ ہاؤس (ہندوہوسٹل، لاہور) میں رہا کرتا تھا۔ میرے کمرے کے دائیں طرف ایک اسکول ماسٹر بتراصاحب رہتے تھے اور بائیں طرف ایک نوجوان کہ جس سے میری صاحب سلامت تک نہیں تھی۔‘‘
یہ نوجوان جن کا کنھیا لال ذکر کر رہے ہیں، کوئی اور نہیں کرشن چندر تھے۔
کنھیا لال کپور کا ایک روز لائبریری جانا اور ادھر ’’ہمایوں‘‘ کے تازہ شمارے پر ان کی نظر پڑنا کرشن چندر سے اٹوٹ تعلق کی بنیاد بن گیا۔ آگے کی کہانی پھر سے کنھیا لال کپور سے سنیے۔
’’ہمایوں‘‘ کی ان دنوں ادبی دنیا میں بڑی دھوم تھی اور اس کا شمار چوٹی کے رسالوں میں ہوتا تھا۔ میں اس میں ایک شائع شدہ مضمون پڑھنے لگا۔ عنوان تھا: ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ اور مضمون نگار تھے کرشن چندر، جن کا نام میں نے پہلی بار سنا تھا۔ مضمون کا ابتدائی حصہ مجھے اتنا پسند آیا کہ میں نے اسے آخر تک پڑھنے کا فوراً فیصلہ کر لیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر، کالم نگار احمد ندیم قاسمی کا یوم وفات
——
دو چیزوں نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا۔ پختہ اور خوبصورت نثر اور طنز و مزاح کی چاشنی۔ مضمون ختم کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ایک ستارہ آسمان ادب پر طلوع ہوا ہے جو بہت جلد ماہ کامل بنا چاہتا ہے۔ میں جلد از جلد ہوسٹل پہنچنا چاہتا تھا کہ بتراصاحب سے اس نئے مضمون نگار کا ذکر کروں۔ اتفاق سے وہ اپنے کمرے میں موجود تھے۔ میں نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’بتراصاحب! آج ایک نئے مضمون نگار کا پتا چلا ہے۔ بخدا نثر لکھتا ہے کہ جادو جگاتا ہے۔ اس کا مضمون ’’ہمایوں‘‘ میں چھپا ہے۔ اگر آپ نے نہیں پڑھا تو ضرور پڑھیے۔
’’لیکن وہ ہے کون؟‘‘
’’کوئی نووارد ہے۔ نام ہے کرشن چندر۔‘‘
’’کہیں آپ اس کے مضمون ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ کا ذکر نہیں کر رہے؟‘‘
’’تو آپ نے یہ مضمون پڑھا ہے؟‘‘
’’مضمون بھی پڑھا ہے، مضمون نگار کو بھی جانتا ہوں۔‘‘
’’آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟‘‘
’’میرا تو خیال ہے آپ بھی اسے جانتے ہیں۔‘‘
’’تو گویا آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘
’’ارے بھئی نہیں۔ وہی تو کرشن چندر ہے جو آپ کے ساتھ والے کمرے میں رہتا ہے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے وہ پراسرار خوش پوشاک شخص جو کسی سے بات چیت نہیں کرتا۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ بالکل وہی۔‘‘
’’تعجب۔‘‘
’’آیئے آپ کا اس سے تعارف کرا دوں۔‘‘ قصہ مختصر یہ کہ کرشن چندرکا کنھیا لال کپور سے تعارف ہوگیا اور وہ گہرے دوست بن گئے۔
یہ نہیں کہ کرشن چندر نے پاکستان میں موجود دوستوں کے نام اپنے آخری خط میں ہی لاہور کو یاد کیا بلکہ اس سے پیشتر بھی وہ خطوں میں اس شہرِ بے مثال کو یاد کرتے رہے۔ حمید اختر نے ’’آشنائیاں کیا کیا‘‘ میں کرشن چندر کے خط کا عکس شائع کیا ہے، جس میں انھوں نے لکھا:
’’لاہور میری کمزوری ہی نہیں، میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے، کسی کونے میں، کسی کوچے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے پر۔ اب کے ماسکو میں دو تین ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی، جنھیں اس برصغیرکے سارے شہروں میں صرف لاہور پسند تھا، بس پھر کیا تھا۔
وہ باتیں ہوئی ہیں گھنٹوں، انھیں لاہور کا وہی ماحول پسند تھا جو ہمیں ہے اور جو لاہور سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘‘
اختر جمال کے مضمون سے جو حوالہ ہم نے اوپر نقل کیا ہے، اس سے، اور حمید اختر کے نام خط کا اقتباس پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرشن چندر کے خوا ب و خیال میں تو لاہور رہتا ہی تھا، اس کے بارے میں بات چیت کرکے بھی انھیں حقیقی مسرت حاصل ہوتی۔ تقسیم کے ہنگام بھی لاہور کی صورتحال کے بارے میں وہ مضطرب رہے۔ اس کڑے وقت میں یہ جاننے کے لیے کہ یاران لاہور کس حال میں ہیں، لاہور آنا چاہا لیکن حالات نے اجازت نہ دی۔ یہ تو رہیں کرشن چندر کے ہندوستان میں رہ کر لاہور شہر کو رہ رہ کر یاد کرنے سے متعلق چند باتیں۔ اب تھوڑا جائزہ اس دور کا بھی لے لیں، جس میں سانس لینے کے باعث آخری سانس تک، وہ اس شہر کی محبت میں تڑپتے رہے۔
لاہور میں کرشن چندر نے ایف سی کالج سے ایف ایس سی اور بی اے کے بعد 1935ء میں ایم اے انگریزی کیا۔ کالج میگزین کے انگریزی حصے کے ایڈیٹر رہے۔ ایم اے کرنے پر انھیں فخر کا احساس ہوگا، اسی لیے اپنے نام کے ساتھ ایم اے لکھتے رہے، جس پر منٹو ان کا خوب تمسخر اڑاتے اور طنزاً انھیں ’’کرشن چندر ایم اے‘‘ کہا کرتے۔ مشتاق احمد یوسفی کے بقول:
’’1947ء تک کرشن چندر بھی اپنے نام کے ساتھ ایم اے کا دم چھلا لگاتے تھے۔ اور اس کے بغیر ان کا نام بالکل ننگ دھڑنگ بلکہ کسی اورکا محسوس ہوتا تھا۔‘‘
کرشن چندر جوانی میں بڑے خوش لباس تھے اور کالج بڑا تیارشیار ہو کر جاتے۔ ان کے بھائی مہندرناتھ کے بقول:
’’وہ کالج میں سوٹ اور ٹائی کے بغیر نہ جاتے تھے۔ شروع میں کچھ dandy بننے کا شوق تھا، لیکن ایم اے کرنے کے بعد dandyism ختم ہو گیا۔‘‘
چند روز قبل کرشن چندر کی پیدائش کو سو سال ہونے کی مناسبت سے ایف سی کالج جو اب یونیورسٹی ہے، اسی نے سیمینار کے ذریعے اپنے قابل فخر سابق طالب علم کو خراج تحسین پیش کیا، وگرنہ تو اس ادیب کے بارے میں شاید ہی کسی اور کو تقریب کرانے کی توفیق ہوئی ہو۔ اس قدر اہم فکشن نگار کو فراموش کر دینے کا جگرہ اردو والوں کا ہی ہے۔ اور ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہو رہا، ہندوستان میں بھی کرشن چندر کو ایک طرح سے بھلا دیا گیا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، ہم نے تو بات کو کرشن چندر کے لاہور سے تعلق کی مناسبت سے آگے بڑھانا ہے۔ تعلیمی اداروں سے باہر بھی کرشن چندر خاصے سرگرم رہے۔ 1928ء میں سائمن کمیشن لاہور پہنچا تو ریلوے اسٹیشن پر لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں زبردست احتجاج ہوا۔
’’سائمن گو بیک‘‘ کے نعرے لگانے والوں میں کرشن چندر بھی شامل تھے۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج ہوا تو ایک لاٹھی کرشن چندر کو بھی سہنی پڑی، شام کو موری گیٹ پر لالہ لاجپت رائے نے جلسے سے خطاب کیا تو سامعین میں وہ بھی تھے۔ ’’کالوبھنگی‘‘ جیسے عمدہ افسانے کے خالق بھنگیوں کی انجمن کا صدر بھی رہے اور ان کے مسائل سے گہری دلچسپی بھی انھیں رہی۔ بی اے کے دوران بھگت سنگھ کی انقلابی پارٹی کا حصہ بنے۔ جیل گئے۔ سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ سرگرمیاں زیادہ لمبا عرصہ نہ کھنچ سکیں اور کرشن چندر نے خود کو صرف ادب کے لیے وقف کر دیا۔ ادب سے ہٹ کر کرشن چندر کی صحافیانہ سرگرمیاں بھی رہیں۔ ’’ٹربیون‘‘ میں وہ مضامین لکھتے رہے۔ پروفیسر سنت سنگھ کے ساتھ مل کر ’’دی نادرن ریویو‘‘ نام کا پرچہ نکالا، جو گیارہ ماہ جاری رہا۔ فیشن میگزین ’’دی ماڈرن گرل‘‘ میں ادارت کی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ایک برس لاہور ریڈیو اسٹیشن پر پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت میں کام کیا۔
کرشن چندرنے لاہورکو اگریاد کیا تواس کی ایک وجہ تو اس شہر کاوہ ماحول ہے،جس نے ان جیسے کتنے ہی ادیبوں کو اس کی یاد آفرینی پرمجبورکیا۔
شمیم حنفی کے بقول، برصغیرکے لوگوں نے لاہورجتنی محبت سے کسی دوسرے شہرکو یاد نہیں کیا۔دوسرے کرشن چندرنے برصغیرمیں ایک زمانے میں جو بے پناہ مقبولیت حاصل کی ، جس میں کسی دوسرے فکشن نگارکوان کا ہمسرقرارنہیں دیا جاسکتا ، اس کی بنا لاہورمیں پڑی،کئی شاہکارافسانے، جنھوں نے انھیں دنیائے ادب میں معتبرمقام دلایا ،وہ اس شہر میں بیٹھ کر لکھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ادیب اور شاعر ڈاکٹر وحید قریشی کا یوم پیدائش
——
ان کے افسانوںکا پہلا مجموعہ ’’طلسم خیال‘‘ 1939ء میں مکتبہ اردو لاہورنے شائع کیا۔ایک سال بعد افسانوں کی دوسری کتاب’’نظارے‘‘ بھی ’’ادبی دنیا‘‘لاہور سے چھپی۔اس مجموعے میں شامل کرشن چندرکا افسانہ ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ان کو شہرت کی بلندیوں پرلے گیا۔ اردو میں کم ہی افسانوں نے اس افسانے کے جتنے اثرات پڑھنے والوں، اوران سے بڑھ کر لکھنے والوں پرمرتب کئے۔محمد حسن عسکری کے بقول: ’’یوں توکرشن چندرمقبول ہونے سے کئی سال پہلے لکھ رہے تھے، لیکن جس چیزنے انھیںپڑھنے والوںکے ایک وسیع حلقے سے متعارف کرایا اورانھیں فوری مقبولیت بخشی وہ تھی دوفرلانگ لمبی سڑک۔‘‘آگے چل کرلکھا کہ ’’یہ افسانہ اردوادب میں ایٹم بم کی طرح آیا تھا۔‘‘ افسانے میں جس دوفرلانگ لمبی سٹرک کا ذکر ہے، وہ بھی لاہورکی ایک سڑک ہے۔
کرشن چندر کے مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ہوائی قلعے‘‘ بھی لاہورسے چھپا۔ اردوفکشن نگاروں میں جس قدرمحبت کرشن چندرکے حصے میں آئی،اس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ان کی شخصیت میں جو ایک طرح کی محبوبیت تھی،اس نے انھیں پڑھنے والے ہی نہیں، سینئر ادیبوں، ہم عصروں اورنئے لکھنے والوں کی آنکھ کا تارا بھی بنادیا تھا۔ اور تو اور پبلشروں سے بھی،جن سے عام طورپرمصنفین کا خدا واسطے کا بیر رہتا ہے، کرشن چندر کے مراسم دوستانہ نوعیت کے رہے۔ ادبی کیریئر کے آغازمیں جن سینئر نے لاہورمیں ان کا حوصلہ بڑھایا ان میں مولانا صلاح الدین احمد پیش پیش تھے۔ ’’ذرے ‘‘کا تفصیلی پیش لفظ ان کی کرشن چندر کے فن سے گہری دلچسپی کا غماز ہے۔احمد ندیم قاسمی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس سے اس محبت کا اندازہ ہوجاتا ہے جو امتیازعلی تاج کو کرشن چندرسے تھی۔
احمد ندیم قاسمی جس زمانے میں دار الاشاعت پنجاب میں کام کررہے تھے ادھر ایک روزکرشن چندرآئے اور کہنے لگے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ’’نئے زاویے‘‘کے عنوان سے جوانتھالوجی مرتب کررہے ہیں، اس میں امتیازعلی تاج کا بھی کوئی ڈراما ہو،وہ خود ان سے متعارف نہیں تھے، اس لیے احمد ندیم قاسمی کی مدد چاہتے تھے۔امتیازعلی تاج کو جب بتایا گیا کہ کرشن چندرآئے ہیں توان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں
’’میں نے جب امتیازصاحب کو بتایاکہ کرشن چندرآپ سے ملنے آئے ہیں توانھوں نے اتنی مسرت کا اظہارکیاکہ میں حیران رہ گیا۔کچھ لکھ رہے تھے مگرقلم رکھ کرکھڑے ہو گئے۔ ’’کہاں ہیں کرشن چندر!بلائیے انھیں۔ پوچھنے کی کیاضرورت تھی؟آپ انھیں ساتھ ہی کیوں نہیں لے آئے؟‘‘میں کرشن چندر کو لے آیاتوامتیازصاحب اس سے اتنی محبت اوراپنائیت سے ملے کہ کرشن کا ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا۔
میں نے امتیازصاحب سے کرشن چندر کی آمد کا مقصد بیان کیا۔انھوں نے کہاکہ ’’وہ نئے زاویے‘‘ کے لیے ڈراما ضرورلکھیں گے۔اس کے بعد وہ کرشن کے افسانوںکی تعریف کرنے بیٹھے تویوں معلوم ہوتاتھا جیسے ایک ندی ہے جو گلپوش جھاڑیوں سے لدی ہوئی ایک وادی میں حد نظرتک بہے جارہی ہے۔‘‘یہ توجانی مانی ادبی شخصیت کے کرشن چندرسے تعلق خاطرکی بات ہے اب ذرا اس زمانے میں ادبی میدان میں نووارد محمد خالد اخترکا بیان بھی سن لیں
’’ ایک دن ندیم(احمد ندیم قاسمی) نے مجھے ایک نوجوان مصنف کے بارے میں بتایا،ماسٹرآف آرٹس نوجوان جس نے ’’ادب لطیف‘‘میں اپنی پہلی ایک دو کہانیوں سے ادبی دنیا کو ایک ہی ہلے میں سرکرلیا تھا اورہرکوئی اس کی باتیں کررہا تھا۔
اس طرح ہم کرشن چندرسے اس کے داتادربارکے قریب واقع اخباری دفترمیں جاملے۔ایک ہندوبیوہ خاتون نے انگریزی میں ایک ماہوارفیشن میگزین کی اشاعت کا آغازکیا تھااوراس کی ادارت کے فرائض غالباً پچھترروپے ماہوار مشاہرے پرکرشن چندرکوسوپنے گئے۔اس بوٹے سے قد، سرمگیں مفکرانہ آنکھوں والے خوبصورت نوجوان کو میں نے پسند کیا۔اس کی گفتگودھیمی، سلجھی ہوئی اوردلچسپ تھی۔‘‘
لاہورسے کرشن چندرکو جو محبت تھی اسے جاننے کے واسطے انھوں نے محمد طفیل سے اپنا افسانہ ’’لاہورکی گلیاں ‘‘ پڑھنے کو کہا تھا۔ محمد طفیل جس زمانے میں ’’نقوش‘‘کا لاہورنمبرمرتب کررہے تھے، انھوں نے کرشن چندرسے اس شہرسے جڑی یادوں کے بارے میں تحریر کا تقاضاکیا ، توکرشن چندرنے انھیں تجویزدی کہ اس نمبرمیں لاہورسے متعلق افسانوں کو بھی شامل کریں۔ ’’لاہورکی گلیاں‘‘ کا آغازاس طرح ہوتا ہے ’’لاہورمیں لوہاری گیٹ کے اندرایک چوک ہے۔چوک متی۔اس چوک متی کے اندر،ہماری گلی تھی کوچہ پیر شیرازی۔‘‘ افسانے میں اس گلی کے ان ساکنوں کے بارے میں کرشن چندرنے بیان کیا ہے ،جوبڑے کھلے ڈلے ذہن کے لوگ تھے، اورآپس میں بغیرکسی تعصب کے زیست کررہے تھے۔اس میں دتے موچی ،چندوپان والے، غلام قادر رنگ ساز ،بچن سنگھ بڑھئی اور دھنونتری حکیم کا ذکر ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
ہاں! اس گلی میں کتابوں کی ایک دکان بھی تو ہے، جس کا احوال کرشن چندر کی زبان سے ہی سنیے’’۔۔۔۔۔۔۔ذرا آگے جا کر جے۔ ایس، سنت سنگھ کی کتابوں کی دکان تھی۔جے ایس سنت سنگھ، قرآن مجید چھاپتے تھے۔ان کے پاس اگر چھ پیسے کا اردو قاعدہ خریدنے بھی جانا پڑے توجوتے باہراتارکردکان میں داخل ہونا پڑتا تھا،وہاں بھورے بھورے کاغذوں پرمیلی میلی جلدوںکے اندرسینکڑوں کتابیں تھیں،جن سے بانس کی سوندھی سوندھی مہک آتی تھی۔وہ خیال جوتاریخ کا حصہ بن گئے، وہ خیال جوآج بھی سینے میں شرافت کی طرح کبھی کبھی کروٹ لیتے ہیں اوردکان کی دیوارسے لگاہوالکڑی کے بکسے کو سامنے رکھے ایک بڈھا منیم آنے پائیاں اس تقدس سے گنتاتھا، جیسے وہ آنے پائیاں نہیں، مالاکے منکے گن رہا ہو۔‘‘
افسانے کے اختتام پر اس گلی کے بارے میں تاثرات کو کرشن چندرنے کچھ اس اندازمیں بیان کیا ہے۔’’یہ گندی گلی،میلی گلی،اجلی گلی، کمزور گلی، بہادر گلی، بدبودارگلی،مہکتی ہوئی گلی،ان پڑھ گلی،کتابوں سے بھری ہوئی گلی،یہ گلی میرے سینے میں ہمیشہ آبادرہتی ہے۔جب کبھی انسانیت میں میرا ایمان ڈگمگانے لگتا ہے ، میں اس گلی کی خاک کو اپنی آنکھوں سے لگالیتاہوں اور پھرزندہ ہوجاتاہوں۔اس لیے میرا یہ عقیدہ ہے کہ جتنے انسان ہیں وہ اس گلی میں رہتے ہیں اورجتنے آسیب ہیں، وہ اس گلی سے باہررہتے ہیں۔‘‘
اورآخر میں ہم اپنے اس مضمون کو’’افکار‘‘کے ایڈیٹر اور کرشن چندرکے دوست صہبا لکھنوی کی اس بات سے اتفاق کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ کرشن چندر جسمانی طورپربھلے سے بمبئی میں آباد تھے لیکن ان کا دل اورروح لاہورکے گلی کوچوں میں سیر کرتی رہی۔
——
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ کافی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ