اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور مزاح نگار اور حاشیہ نویس مجید لاہوری کا یومِ پیدائش ہے

مجید لاہوری
(پیدائش: 10 جون 1913ء – وفات: 26 جون 1957ء)
——
مزاح نگار، حاشیہ نویس مجید لاہوری 1913 میں گجرات (پنجاب) میں پیدا ھوئے۔ ان کا اصل نام عبد المجید چوہان تھا۔ 1938 میں لاہور کے روزنامہ ” انقلاب”سے اپنے صحافتی کیریئر کی شروعات کی۔، . اس کے بعد انہوں نے کئی اخبارات میں کام کیا 1947 میں مجید لاہوری کراچی منتقل اور انجم، انصاف اور خورشید کے لیے کالم لکھے۔ مجید لاہوری اپنے کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ اکتوبر 1948. میں روزنامہ جنگ کراچی میں اپنے کالم "حرف و حکایت” لکھنا شروع کیا۔ مجید لاہوری بھی ایک پندرہ روزہ رسالہ "نمک دان "جاری کیا۔ ان دنوں پورے پاکستان میں وبا کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے قارئین سے غافل نہیں رہے۔ ان کے آخری دونوں کالموں کا عنوان تھا۔’’انفلوئنزا کی نذر‘‘ آخری سے پہلے کالم میں جو صرف چند سطروں پر مشتمل تھا، انہوں نے لکھا تھا ’’میں بھی انفلوئنزا کی لپیٹ میں آگیا ہوں اس لئے نہیں چاہتا کہ اس حالت میں کالم لکھ کر جراثیم آپ تک پہنچاؤں‘‘ جبکہ آخری کالم میں جو ان کی وفات کے دن شائع ہوا، صرف اتنا تحریر تھا ’’آج دوسرا دن ہے‘‘۔
26 جون 1957ء کو اردو کے نامور مزاح نگار‘ روزنامہ ’’جنگ ‘‘کے کالم نویس اور پندرہ روزہ نمکدان کے مدیر مجید لاہوری کا انتقال ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ پیدائش
——
مجید لاہوری کی یاد میں از ڈاکٹر اختر شمار
——
ایک بھاری بھرکم پروفیسر لکشمی چوک ( نزد دیال سنگھ کالج ) پر کھڑے، اردو بازار جانے کیلئے سالم تانگہ لینا چاہتے تھے، مگر کسی بھی تانگے والے سے بھاؤ نہیں بن رہا تھا۔ تانگے والے سواریاں بھرتے اور چل پڑتے۔ ایک تانگے والا قریب ہی چائے پی رہا تھا اور کافی دیر سے بھاری بھرکم پروفیسر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ آخر تانگے والے کو ترس آ گیا ۔اس نے تانگے میں بیٹھ کر پروفیسر کی طرف دیکھا اور کہا :’’ سر جی ! آ جائیں ،بس ذرا گھوڑے سے آنکھ بچا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ جائیں‘‘ اگلے روز اردو ادب کے مشہور مزاح گو شاعر اور کالم نویس مجید لاہوری کی برسی تھی ۔ مجید لاہوری چوہان اپنے تخلیقی کام ہی نہیں، اپنے جسم و جثہ کے حوالے سے بھی بھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے۔ کراچی سے مزاحیہ جریدہ نمکدان نکالتے تھے اور ایک مقبول عوامی کالم نگار تھے۔ نئی نسل میں شاید بہت کم لوگ انہیں جانتے ہونگے۔ ان کی کتب کراچی سے شائع ہوئیں اور یہاں بہت کم دستیاب ہیں ۔ اگرچہ گجرات سے تعلق رکھتے تھے مگر چند ماہ لاہور میں رہنے کے بعد اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ لاہوری لکھنے لگے ۔ ممتاز محقق، ماہر تعلیم ،شاعر اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے سابق پرنسپل اور صدر شعبہ اردو استاد محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے بقول ، مجید لاہوری اپنے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے بھی زیادہ صاحبِ وزن تھے۔ ان کی ساری عمر کراچی میں بسر ہوئی ۔ کراچی چلے گئے اور وہیں (1957ء میں) انفلوئینزا کے مرض کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔ کراچی کے اخبار میں ان کا کالم قارئین میں بہت پاپولر تھا۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب راوی ہیں: کراچی میں ایک بار مجید لاہوری صاحب گھر جانے کیلئے سٹاپ پر کھڑے تھے ۔اُن دنوں کراچی میں سائیکل رکشہ چلتے تھے۔ بھاری بھرکم مجید لاہوری کو اپنی سائیکل پر بٹھانے کیلئے بمشکل ایک دبلا پتلا شخص مان گیا۔ سائیکل رکشے والے نے مجید لاہوری کو کچھ دیر کھینچا تو اسکا سانس پھولنے لگا، مجید لاہوری نے اس سے کہا :’’ بھائی! ذرا سانس لے لو اور وہاں سامنے دکان سے میرے لئے سگریٹ کی ڈبیہ لے آؤ۔‘‘ سائیکل رکشہ والا سخت غصے میں تھا، بولا ’’ میں نہیں جا سکتا ۔ دکان پر ، خود اتریں اور اپنے سگریٹ لے کر آئیں ‘‘ بڑی مشکل سے مجید لاہوری سائیکل سے اترے ،دھیرے دھیرے چلتے سگریٹ کے کھوکھے پر پہنچے، سگریٹ لیے اور جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو سائیکل رکشے والا سائیکل کے تیز تیز پیڈل مار رہا تھا ۔ اسے بھاگتے دیکھ کر مجید لاہوری نے آواز لگائی ’’ارے بھائی اپنا کرایہ تو لیتے جاؤ‘‘ سائیکل رکشے والے نے ذرا سا مڑ کر دیکھا ہانپتے اور سائیکل کو مزید تیز کرتے ہوئے بولا ’’زندہ رہا تو کسی اور سے کرایہ وصول کر لوں گا، مہربانی‘‘ اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا احمد علی لاہوری کا یوم وفات
——
اصل میں ہم مجید لاہوری کی کتابوں کی تلاش میں پبلشنگ ادارے سنگ میل سے ہوتے ہوئے مغربی پاکستان اردو اکیڈمی جا پہنچے جہاںاِن دنوں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہیں ۔ خواجہ صاحب کا دم غنیمت ہے کہ اب بھی( ریٹائرمنٹ کے بعد) پنجاب یونیورسٹی کیلئے وقت نکال رہے ہیں ۔ وہ اردو ادب کی تاریخِ نظم و نثر لکھنے اور شائع کرنے کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ جس کی شاید چار یا پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی صوبائی حکومت کے تعاون سے تحقیقی کتب شائع کرنے والا ادارہ ہے ۔ یہ کافی عرصہ سے نزع کی حالت میں تھا ،ڈاکٹر صاحب جب سے یہاں تشریف لائے ہیں اسکی کتابوں کی اشاعت و فروخت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ جو اس وقت سب سے سستی کتب فروخت کرتا ہے ، تحقیق کرنے والوں کیلئے یہ ادارہ سستی کتب کی فراہمی کے حوالے سے اہم خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب ایک انتھک انسان ہیں ۔ سنجیدگی سے لکھنے پڑھنے کا کام کرنے کے علاوہ دوستوں اور طالب علموں کیلئے بھی وقت نکال لیتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ آپ بڑے آدمیوں کیلئے کی گئی تعریف پر مکمل پورے اترتے ہیں کہ : ’’ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کے پاس بیٹھ کر کوئی بھی شخص خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے‘‘ بات مجید لاہوری کی ہو رہی تھی کہ مجید لاہوری اپنی وضع کے ایک ذہین تخلیق کار اوراپنے وقت کے مقبول ترین کالم نگار تھے ۔ حکمران انہیں ملنا چاہتے تو ہمیشہ اکیلے ملاقات کا وقت دیا کرتے تھے ۔ اس سے بھی ان کی اہمیت اور مقبولیت کا پتہ چلتا ہے ۔ مجید لاہوری پاکستان کا قومی ترانے لکھنے والے مقابلے میں شامل تھے ، مگر بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور حفیظ جالندھری کے ترانے کو قومی ترانے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ انہی دنوں مجید لاہوری نے حفیظ جالندھری کے ترانے کی پیروڈی بھی لکھی تھی ۔ لیکن ظاہر یہی کیا تھا کہ نظم انہوں نے اپنے ایک پان فروش دوست کی شان میں کہی ہے۔ اسکا ایک مصرعہ کچھ یوں تھا:
——
بج رہی ہے بین شاد باد
میرے لال دین شاد باد
——
لال دین پان فروش نے پوری نظم سن کر کہا مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا ، مطلب بھی سمجھا دیں تو مجید لاہوری نے برجستہ کہا:’’ یہ میرا کام نہیں ،خود سمجھتے پھرو‘‘ اس جملے میں بھی ایک طنز چھپی ہے ۔ خواجہ محمد زکریا نے مجید لاہوری کو حوالے سے بہت دلچسپ باتیں بیان کیں ۔ آپ بتاتے ہیں ’’ ان دنوں میں بھی کراچی گیا ہوا تھا ۔ وفات سے ایک روز قبل مجید لاہوری کا دو تین سطری کالم شائع ہوا تھا۔ مفہوم کچھ یہی تھا کہ ’’ قارئین! شہر میں انفلوئینزا کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، کالم نہیں لکھ رہا کہ یہ وبا مزید نہ پھیلے‘‘ اگلے روز پھر یہ لکھا: میں بھی انفلوئینزا کا شکار ہوں۔ بعد میں خبر چھپی کہ مجید لاہوری انتقال کر گئے ہیں۔ یوں ایک عوامی شاعر ہم سے جدا ہو گیا۔‘‘ مجید لاہوری کا مزاح نہایت شستہ اور شائستہ تھا۔ وہ محض لطیفے قلمبند کرنے والے شاعر نہیں تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مجید امجد کا یوم وفات
——
ان کی پیروڈیاں بہت مشہور ہوئیں۔ سیاسی اورمعاشرتی ناہمواریوں کو بے حد خوبصورتی سے موضوع بناتے ہیں۔ اگرچہ ان پر پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام ہو چکا ہے مگر ایسے مشاہیر کو یاد رکھنے کے لئے صرف مقالہ کافی نہیں۔ ان کو یاد کرنے کے لیے، ان کی ولادت اور وفات پر خصوصی تقریبات کا انعقاد سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ہونا چاہیے کہ یاد رکھنا بھی ملاقات کی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔ ان کے چند اشعار بلا ؏تبصرہ آپ کی یاد دہانی کیلئے ،پڑھیے اور سر دھنیے۔
——
منتخب کلام
——
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
——
لیڈری میں بھلا ہوا ان کا
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
——
مرغیاں کوفتے مچھلی بھنے تیتر انڈے
کس کے گھر جائے گا سیلاب غذا میرے بعد
——
کہتا ہے کون درد کا درماں الاٹ کر
ہاں جس قدر بھی غم ہوں مری جاں الاٹ کر
"پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق”
"سامان صد ہزار نمک داں الاٹ کر”​
——
عہدہ و منصب دلا جمہوریت کے نام پر
تخت پر مجھ کو بٹھا جمہوریت کے نام پر
"آیتُ الکرسی” کا کرتا ہوں وظیفہ رات دن
بخش کرسی اے خدا جمہوریت کے نام پر
فاقہ کش لٹتے رہیں، پِٹتے رہیں، مٹتے رہیں
مجھ کو ڈکٹیٹر بنا جمہوریت کے نام پر
بھولی بھالی قوم کوئی اور مل سکتی نہیں
قوم کو الّو بنا جمہوریت کے نام پر
جور و استبداد شاہی دفن زیرِ خاک ہے
جاگ کر اس کو جگا جمہوریت کے نام پر
اے کہ ہے بنگال کا جادو پٹاری میں تری
فتنہء محشر اٹھا جمہوریت کے نام پر
پہلے تو دے آتشِ صوبہ پرستی کو ہوا
تیل پھر اس پر گرا جمہوریت کے نام پر
یہ اگرچہ "شر” ہے لیکن اس میں تیری خیر ہے
پھوٹ کی پھوٹے وبا، جمہوریت کے نام پر
اتحادِ قوم ہے "ڈینجر” برائے اقتدار
قوم کو باہم لڑا جمہوریت کے نام پر
تعرہء تکبیر بھی اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ
اور اِک نعرہ لگا جمہوریت کے نام پر
دَور اب بھی دُور ہے سلطانیء جمہور کا
خوب ابھی "گھپلا” چلا جمہوریت کے نام پر
"اسپِ تازی” سر کے بل جو دو قدم چل کر گرا
بڑھ گیا آگے گدھا، جمہوریت کے نام پر
کیا ہوا جمہور کو روٹی اگر ملتی نہیں
تو "ڈنر” اور "لنچ” اڑا ، جمہوریت کے نام پر
التجا ہے تیرے رمضانی کی اے ربَّ ِمجید
اس کو بھی کرسی دلا، جمہوریت کے نام پر
——
انہیں تو نے بخشی ہیں کوٹھیاں تری شان جِلّ جلالہ
میں ہوں لالو کھیت میں لامکاں تری شان جِلّ جلالہ
وہ کہ تیرے دین سے دور کا بھی نہیں جنہیں کوئی واسطہ
وہ ہیں تیرے دین کے پاسباں تری شان جِلّ جلالہ
کوئی فاقہ کرکے بھی ہے مگن، کوئی دال بھات پہ مطمئن
ہیں کسی کے پیٹ میں مرغیاں تری شان جِلّ جلالہ
تو یہ جانتا ہے کہ تیرے بندوں نے دہر میں ترے نام پر
وہ ستم کئے ہیں کہ "الاماں” تری شان جِلّ جلالہ
کہیں دورِ جامِ شراب ہے کہیں رقصِ حسن و شباب ہے
کہیں نامرادی ہے نوحہ خواں تری شان جِلّ جلالہ
یہ ترا مجید ترے سوا کہے کس سے درد کا ماجرا
تو ہی غم کی سُنتا ہے داستاں تری شان جِلّ جلالہ
——
میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں
وہ کبھّے ہتھ سے میرے کول گذرے کار کے وچ میں
اکیلے تو نہیں ملتے جدوں بھی اب وہ ملتے ہیں
کبھی چھ سات کے وچ میں کبھی دوچار کے وچ میں
میں بولا، بادشاہو! میری اِک چھوٹی سی گَل سُن لو
وہ بولے، چھڈو جی! کیا گل سنیں بازار کے وچ میں
لبوں کے وِچ لئے پھرتا ہے تُو گُل قند او ظالم
مِلا گل قند تھوڑی شربتِ دیدار کے وچ میں
کبھی مینوں بھی لے چل ظالماں تُو وچ کلفٹن کے
کدوں تک میں رہوں گا “گولی مار“ کے وچ میں
سویرے اُٹھ کے منگھے پیر کے وچ ایہہ دعا مانگی
خدا مجھ کو بھی پہنچا دے تِرے دربار کے وچ میں
وہ میری “ہیر“ ہے اور میں ہوں “رانجھے خاں“ مجید اُس کا
ہمارا ذکر ہے ہر کوچہ و بازار کے وچ میں
——
چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہئے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہئے
از کلفٹن تابہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تابہ گولی مار آٹا چاہئے
مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہوجائے گا
ہم غریبوں تو تو اے سرکار، آٹا چاہئے
ہم نے پاؤڈر کا تقاضا سن کے بیگم سے کہا
کیا کرو گی غازۂ رخسار، آٹا چاہئے
غم تری خوراک ہے غم کی ضرورت ہے تجھے
مجھ کو لیکن اے دلِ نادار، آٹا چاہئے
بوسۂ لب پر ہمیں ٹرخا دیا سرکار نے
بوسہ، عاشق کو نہیں درکار، آٹا چاہئے
نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
کہہ رہے ہیں رو کے سب غمخوار آٹا چاہئے
——
تھا یہ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
بٹ کر رہا دردِ جگر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
آئین میں ترمیم کر، انصاف سے تقسیم کر!
جنسِ وفا، حسنِ نظر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
شاداب کِشتِ حُسن ہو، سیراب ذوقِ عشق ہو
دریا بہا اے چشمِ تر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
ابرِ کرم کھل کر برس، کھل کر برس، اب کے برس
ہر دشت پر ہر کوہ پر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
کس ٹھاٹھ سے بیٹھا ہے تو اے فتنہ گر، اے فتنہ جُو
دو کرسیوں کو جوڑ کر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
زخمی اِدھر ہے میرا دل، چھلنی ادھر میرا جگر
مرہم لگا اے چارہ گر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
ہاں اے مجیدِ بے نوا، صد شکر اب تو ہوگیا
جذبِ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ