مکالمہ مابین مسلمان اور سوشلسٹ

مسلمان

اپنا یہ چمن دیں کی نواؤں کے لئے ہے

اسلام کی جاں بخش فضاؤں کے لئے ہے

ہم فلسفۂ دینِ محمد کے فدائی

دستورِ شریعت کے ہیں اس ملک میں داعی

ہم امن و مساوات و محبت کے پیامی

آپس میں رواداری و نصرت کے ہیں حامی

دنیا ہمیں درکار ہے بس دین کی خاطر

ہر دائرۂ زیست میں معروف کے آمر

روٹی کی طلب ہم کو پئے رشتۂ جاں ہے

تسکین مرے دل میں ہے دامن میں اماں ہے

اللہ کی تکبیر تگ و تاز کا مقصد

اخلاق کی سرحد مرے اعمال کی سرحد

رکھنی ہے ہمیں شمعِ توحید فروزاں

اس مقصدِ پاکیزہ پہ جاں بھی مری قرباں

سوشلسٹ

یہ صحنِ چمن تازہ نواؤں کے لئے ہے

الحاد کی مد مست گھٹاؤں کے لئے ہے

ہم فلسفۂ لینن و ماؤ کے فدائی

بے دینی و الحاد کے اس ملک میں داعی

ہم صرف مساواتِ شکم کے ہیں پیامی

ہم بورژوا طبقے کے ہرگز نہیں حامی

دنیا ہمیں درکار ہے بس نفس کی خاطر

انسان بھی اک طرح کا حیوان ہے آخر

روٹی کی طلب ہی تو مرا مقصدِ جاں ہے

بے چین ہوں طوفان مرے دل میں نہاں ہے

الحاد کی تشہیر تگ و تاز کا مقصد

ہے نانِ شبینہ مرے اعمال کی سرحد

کرنا ہے ہمیں شمعِ لینن کو فروزاں

اس آرزوئے دل پہ ہے ہر شے مری قرباں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]