اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے نامور افسانہ و ڈرامہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے ادب لطیف کے سابق مدیر مرزا ادیب کا یوم پیدائش ہے

 

مرزا ادیب
——
(پیدائش: 4 اپریل 1914ء— وفات: 31 جولائی 1999ء)
——
اردو کے نامور افسانہ و ڈرامہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے ادب لطیف کے سابق مدیر مرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا اور وہ 4 اپریل 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجویشن کیا، ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنالیا اور پھر اردو ادب کی خدمت پر کمربستہ ہو گئے۔ اور اسی کو مقصد حیات سمجھ لیا۔ ان کا خاص میدان افسانہ نگاری اور ڈراما نگاری ہے۔ بزرگ افسانہ نگار محترم مرزا ادیب نے اپنی 82 سالہ زندگی میں اردو کو بہت کچھ دیا ہے۔ نثری ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس میں ان کی قد آور شخصیت کی چھاپ نہ ہو، افسانہ، ڈراما، سفرنامہ، تنقید، تراجم، تالیفات بچوں کے لیے کہانیاں، غرض ہر صنف میں مرزا ادیب کی گراں قدر تخلیقات اردو کی توقیر میں اضافہ کا باعث ہیں۔
مرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط، صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، حسرت تعمیر، متاع دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، فصیل شب، شیشے کے دیوار، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض اور ان کی خودنوشت سوانح ’’مٹی کا دیا‘‘ شامل ہیں۔
انہوں نے کئی رسالوں کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے جن میں سے (ادب لطیف) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔مرزا ادیب کا ڈراما شہید پاکستان کی نصابی کتب میں بھی شامل ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : یاس یگانہ کا یومِ پیدائش
——
حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعزاز میں انہیں 1981ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے 6 مرتبہ رائٹرز گلڈ کے انعامات اور 3 مرتبہ گریجویٹ فلم ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے۔
مرزا ادیب ایک وضعدار اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔
1935ءمیں بی اے کرنے کے بعد انہوں نے ادبی خدمات کو ہی ذریعہ روز گار بنایا۔
ان کے کالج کے ساتھیوں میں حمید نظامی، یردانی جالندھری اور ضمیر جعفری (مرحومین) اور ہم عصروں میں کرشن چندر، منٹو راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور صاحب جیسی شخصیات تھیں۔
31جولائی 1999ء کو مرزا ادیب لاہور میں وفات پاگئے۔
——
مرزا ادیب کے حالاتِ زندگی اور شخصیت از شمائلہ حسین
——
مرزا ادیب نے ۴ اپریل ۱۹۱۴ء کو لاہور میں جنم لیا۔ان کے والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ مرزا ادیب کا اصل نام مرزا دلاور علی تھا جبکہ والدہ پیار سے ’’دلور‘‘ کہتی تھی۔ انہوں نے اپنا یہ تخلص اس وقت وضع کیا تھا جب وہ نویں کلاس کے طالب علم تھے اور پھر تاحیات یہی تخلص اپنائے رکھا اور اسی تخلص سے شہرت پائی۔
’’ادبِ لطیف‘‘ کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں مرزا ادیب نے اپنے نام سے تخلص تک کے سفر کو بیان کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:۔
’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ مرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو مَیں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں مرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘
مرزا ادیب کا تعلق ایسے مغل گھرانے سے تھا جہاں غربت اور مسلسل جد و جہد کا راج تھا۔ اُن سمیت وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ مُغل خاندان سے ہونے کے باوجود ان کے والد اور تایا میں وہ خصوصیات موجود نہ تھیں جو مغل خاندان کا طرئہ امتیاز کہلائی جاتی ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں مرزا ادیب کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ ان کے بعد اس خاندان میں علم و فضل کے دروازے گویا بند ہوچکے تھے۔ ان کی والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی تعلیم کے زیور سے جیسے تیسے آراستہ ہوگئے لیکن ان کی تین بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:۔
’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘
’’مٹی کا دیا‘‘ میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:۔
——
یہ بھی پڑھیں : کرار نوری کا یوم پیدائش
——
’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘
’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھاسکی تھی۔۔۔۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر محبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘
یہ احساس محرومی اذیت بن کر تمام عمر ان کی تحریروں میں بھی جلوہ افروز ہوتا رہا۔ انہیں اپنی والدہ سے شدید محبت تھی۔ ان کی والدہ ایک سادہ سی اَن پڑھ خاتون تھیں جس کی زندگی محنت کرتے گزری اور ان کے بارے میں مرزا ادیب مٹی کا دیا میں لکھتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہتیں۔ سب کی خدمت کرتیں اور بدلے میں کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتیں۔ اس کے برعکس مرزا ادیب اپنے والد سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے جس کی وجہ ان کے مزاج کی سختی اور اکھڑ پن تھا اپنی آپ بیتی میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی محرومیوں اور معذوری کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں مرزا ادیب کی تعلیم سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دو مرتبہ غصے کی حالت میں انہوں نے مرزا ادیب کا بستہ اٹھا کر سراج دین دھوبی کی بھٹی میں ڈال دیا تھا۔ اس کی وجہ مرزا ادیب ان میں محرومیوں کا شدید احساس ہونا بتاتے ہیں۔
بہر حال ان تمام تر حالات کے باوجود مرزا ادیب کی علم حاصل کرنے کی لگن میں کوئی کمی نہ ہوئی بلکہ یہ شوق اس وقت اور بھی بڑھ گیا۔ جب انہوں نے تجسس کے مارے اپنے دادا کا وہ صندوق کھول لیا جس میں ان کا علمی ورثہ بند تھا۔ اور یہی ورثہ انہیں ادب کی ان منزلوں تک لے جانے میں سنگِ میل ثابت ہوا جس پر پہنچتے پہنچتے مرزا ادیب افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، سوانح نویسی اور ڈراما نویسی کے راستوں سے گزر کر ادب کی معراج کو پہنچے۔
مرزا ادیب نے تمام رسمی اور غیر رسمی تعلیم لاہور میں پائی۔ ۱۹۳۱ء میں میٹرک اور ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج سے بی اے آنرز کیا اور حصولِ معاش کے لیے پہلی ملازمت ’’ادبِ لطیف‘‘ میں کی۔ مجموعی طور پر ادب لطیف میں تقریباً ۱۷ سال ملازمت کی تھی۔ ادبِ لطیف کے بعد ایک فلمی و ادبی پرچہ مصور میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد ریڈیو سے منسلک ہوئے اور یہاں بھی تقریباً ۱۶ سے ۱۷ سال کا عرصہ گزارا۔ حسن پرست کی ادارت بھی کی۔
مرزا ادیب کی شادی ۱۹۴۰ء میں ہوئی۔ اُن کی شریکِ حیات کا نام نجمہ تھا۔ مرزا ادیب کو خدا نے دو بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
——
یہ بھی پڑھیں : منور مرزا کا یوم وفات
——
انہوں نے ۳۱؍جولائی ۱۹۹۹ء میں وفات پائی۔مرزا ادیب نے رومانوی اسلوب کا شاہکار ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ لکھ کر ادب میں اپنی ممتاز حیثیت قائم کی۔ افسانہ نگاری میں جگہ بنائی۔ خاکہ نگاری بھی کی۔ کتابوں کے تراجم بھی کئے۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے، اور آخر میں ڈرامے کو اپنے قلم سے زینت بخشی نہ صرف سنجیدہ سٹیج ڈراما ان کی قلم سے تخلیق ہوا بلکہ بچوں کے ڈراموں میں بھی اچھا خاصا ذخیرہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
——
منتخب کلام
——
ننھی عذرا کی امی سے شکایت
——
اے امی جان آئی ہوں تیرے حضور آج
اک بات ہے جسے میں کہوں گی ضرور آج
یہ بات سوچ سوچ کے روتی رہی ہوں میں
اور ہار آنسوؤں کے پروتی رہی ہوں میں
باجی مجھے شریر کہے بار بار کیوں
ابا سے اور آپ سے پڑتی ہے مار کیوں
اک بات پوچھنی ہے اگر کہیے پوچھ لوں
امی مجھے شریر سمجھتی ہیں آپ کیوں
ننھی کا لڈو میں نے چرایا تو کیا ہوا
کھانے ہی کے لیے تھا جو کھایا تو کیا ہوا
اس بات پر بتائیے بگڑی ہیں آپ کیوں
اور کر کے لال آنکھیں جھڑکتی ہیں آپ کیوں
——
دل بہلتا نہیں کسی صورت
——
حال اپنا سنا کے دیکھ لیا
اور آنسو بہا کے دیکھ لیا
کون سنتا ہے ہم غریبوں کی
سب کو تو آزما کے دیکھ لیا
ایک چھٹی بھی ہم کو مل نہ سکی
نت بہانے بنا کے دیکھ لیا
منہ جو کڑوا تھا وہ رہا کڑوا
ہم نے لڈو بھی کھا کے دیکھ لیا
کھا رہے ہیں چرا کے ہم بسکٹ
اور جو امی نے آ کے دیکھ لیا
ننھی دیتی نہیں ہے کھیر اپنی
رو کے دیکھا رلا کے دیکھ لیا
دل بہلتا نہیں کسی صورت
گیت بھی آج گا کے دیکھ لیا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ