میں ہوں نغمہ سنجِ ثنائے نبی

مرے دل میں ہے موجزن سرخوشی

کسی بھی سخنور سے کب ہو سکی

ثنائے محمد کما ینبغی

زِ سر تا قدم عالمِ دلکشی

حسیں ہے وہ اپنی مثال آپ ہی

نہ پوچھیں کہ سیرت ہے کیا آپ کی

خوشا ہو بہو ہے وہ قرآن ہی

وہ آنکھیں ہیں مخمور من موہنی

جو دیکھے تو سرمست ہو آدمی

وہ مردِ مجاہد ، دلاور ، سخی

وہ مرتاض ، وہ پارسا ، متقی

وہ ہے نسلِ آدم سے ، ہے آدمی

پہ ہے اپنے رب کا وہ پیارا نبی

بلا شک ہیں آئے ہزاروں نبی

محمد کی ہے شان پر اور ہی

مٹی اس کی آمد سے تیرہ شبی

اسی کی بدولت ہے سب روشنی

بتائے ہیں جتنے بھی امر و نہی

بجا لائے انساں اگر با خوشی

بدل جائے پھر نقشۂ زندگی

سنور جائے بگڑا ہوا آدمی

خوشا ان کے مصحف سے ہم کو ملی

خدا آگہی اور خود آگہی

شجاعت میں ان سے ہے نامِ علیؓ

انہیں کی بدولت ہے عثماںؓ غنی

تھے صدیقؓ و فاروقؓ ان کے ولی

ہیں تربت میں تینوں اکٹھا یونہی

نبوت کے منسب کا وہ مختتم

رسالت ہوئی آپ پر منتہی

تمام اہلِ محفل کا ساقی ہے وہ

پلائی خمستانِ توحید کی

اسی کی شریعت سکھائے ہمیں

عبادت ، ادب ، طہر ، پاکیزگی

سرِ عرش پہنچے بہ نفسِ نفیس

شرف آپ کا سوچئے تو سہی

یہ فضلِ خدا ہے وہ جس پر بھی ہو

ہے سب انبیاء پر اسے برتری

حدیثوں پہ کر لے عمل استوار

اگر چاہئے زندگی سکھ بھری

نگاہِ کرم ہو مرے ساقیا

نظرؔ کا بھی بھر جائے جامِ تہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]