آج مشہور عالم دین اور مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کا یوم پیدائش ہے

——
مولانا احمد علی لاہوری گوجرانوالہ کے ٹاؤن گکھڑ منڈی کے نزدیک قصبہ جلال میں 24 مئی 1887ء بمطابق 2 رمضان المبارک 1304 ہجری کو پیدا ہوئے۔
——
ولی کامل مولانا احمد علی لاہوریؒ از مولانا مجیب الرحمن انقلابی
——
مولانا احمد علی لاہوری کے والد شیخ حبیب اللہ گوجرانوالہ کے قریب جلال نامی قصبہ کے رہنے والے ایک نو مسلم، انتہائی متقی اور دیندار تھے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت عابدہ، زاہدہ اورصالحہ عورت تھیں انہوں نے اپنے لخت جگر کو قرآن مجید خودپڑھایا ۔ اس کے بعد اس بچے کو سکول میں داخل کرا دیا گیا، جہاں انہوں نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔
مولانا احمد علی لاہوری کے والد نے اپنے لخت جگر کو سکول سے اُٹھواکر گوجرانوالہ کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبدالحق کے سپرد کر دیا۔ اس بچہ کو گوجرانوالہ آئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ دارالعلوم دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کرکے سند ھ جاتے ہوئے اپنی والدہ سے ملنے سیالکوٹ آئے ۔
آپ کی والدہ ماجدہ نے مولانا سندھی ؒکو شیخ حبیب اللہ کے قبول اسلام اور دیانت وتقویٰ کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ مولانا سندھیؒ اپنی والدہ کے ہمراہ باہو چک آئے اور اپنے رشتہ کے بھائی سے ملے۔ اس وقت شیخ حبیب اللہ نے اپنے لختِ جگر کو حضرت سندھی ؒ کے حوالے کر دیا۔
نو برس کی عمر میں اس بچے کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ سندھ کے ولی کامل حضرت خلیفہ غلام محمد ؒ دین پوری کے حکم سے مولانا سندھی ؒ نے اس بچہ کی والدہ سے نکاح کر لیا۔ اس لحاظ سے مولانا سندھیؒ اس بچہ کے سوتیلے والد بن گئے۔ کچھ عرصے بعد یہ بچہ اپنی والدہ کی شفقتوں سے بھی محروم ہوگیا۔ چنانچہ مولانا سندھی نے خود ہی اس بچہ کو سلسلہ قادریہ میں داخل فرماکر تقویٰ و پرہیز گاری کی تلقین کے ساتھ کچھ اذکار بھی تعلیم کر دیے ۔ مولانا سندھیؒ نے ابتدائی صرف و نحو عربی و فارسی کتب اس بچہ کو خود پڑھائیں ۔
مولانا سندھی نے1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈا ضلع سکھر میں مدرسہ دارالرشاد کی بنیاد رکھی تو ان کی زیرنگرانی اس بچہ نے چھ سال بعد درس نظامی مکمل کیا۔ اس مدرسہ دار الرشاد سے فارغ ہونے والوں میں پہلا نام آپ کا ہے ۔ مولانا سندھیؒ کی ہدایت پر اسی مدرسہ میں آپ نے تعلیم و تدریس شروع کی۔ چنانچہ تین سال تک مولانا احمد علی لاہوری اسی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم دیتے رہے۔
مولانا سندھیؒ نے اپنی پہلی زوجہ سے بیٹی کا نکاح مولانا احمدعلیؒ سے کر دیا لیکن وہ ایک سال بعد ہی انتقال کر گئیں ۔اس کے بعد مولانا ابو محمد احمد کی صاحبزادی سے دسمبر1911ء میں آپکا نکاح دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے پڑھایا۔
تحریک ریشمی رومال میں انگریز حکومت نے اس تحریک کے قائدین اور اس سے وابستہ کارکنان کوگرفتار کرنا شروع کیا تو مولانا احمد علی لاہوری بھی گرفتار کر لیے گئے ۔مولانا احمد علی لاہوری ؒ کو گرفتار کر کے دہلی ،شملہ ، لاہور اور جالندھر کی مختلف حوالاتوں میں کئی ماہ گزارنے کے بعد مشروط رہائی ملی توآپ پر دہلی اور سندھ جانے پر پابندی لگا دی گئی ۔ آپ لاہور میں پابند ضمانت ہو کر یہاں مقیم ہو گئے، جس وجہ سے آپ لاہوری کہلاتے ہیں۔
مسجد لائن سبحان والی شیرانوالہ دروازہ سے باہر مسجد میں حضرت مولانا پنجگانہ نماز ادا کرتے تھے۔ فاروق گنج کی طرف جاتے ہوئے جو مسجد ہے وہاں آپ نے درس قرآن شروع کیا پھر آہستہ آہستہ تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا۔
1922ء میں حکیم فیروز الدین کی تحریک پر آپ نے انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی جس کے تحت قرآن اور سنت بنوی کی اشاعت کو انجمن کا نصب العین قرار دیاگیا ۔
1924ء میں انجمن خدام الدین کی زیر نگرانی مدرسہ قاسم العلوم کی بنیاد رکھی گئی جس کی عمارت کی رسم افتتاح علامہ شبیراحمد عثمانی ؒ کے ہاتھوں 1934ء میں ادا ہوئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن کا یوم پیدائش
——
آپ نے عمربھر قرآن مجید کی لفظاً و معناً خدمت کی 1935 میں آپ نے حفظ ناظر ہ کا اہتمام فرمایا۔آپ نے مسلمانوں کو قرآن مجید سمجھانے لیے روزانہ نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ درس قرآن رکھا ہوا تھا۔ جس میں مسلمان مردوں کے علاوہ علیحدہ باپردہ جگہ میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں ۔علوم عربیہ کے فارغ التحصیل علماء کے لیے قرآن کی تفسیر پڑھائی جاتی اور اس درس کی تکمیل کے بعد جو حضرات مزیدتعلیم حاصل کرنے کے خوہش مند ہوتے آپ انہیں چار ماہ میں فلسفہ، شریعت اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی مشہور کتاب ’’حجۃ البالغہ‘‘پڑھاتے۔ 1940ء سے شروع ہونے والا یہ درس آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔
22 اکتوبر 1956ء میں بحیثیت عالم دین انجمن حمایت اسلام کی جزل کونسل کے آپ رکن مقرر ہوئے۔ انجمن کے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی بناء پر مولانا لاہوری 17 نومبر 1956ء کو انجمن کے نائب صدرتازیست اسی عہدے پر فائز رہے ۔
1956ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو مولانا احمد علی لاہوری نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گرفتاری کے بعد آپ کو دوسرے علماء کے ساتھ ملتان جیل میں رکھا گیا۔ مگر جب ملک فیروز خان بر سرِ اقتدار آئے تو آپ کو لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں آپ کو رہا کردیا گیا۔
اکتوبر 1956ء کو پاکستان کے جید علماء کی لاہور میں مشاورت ہوئی جس میں بالاتفاق مولانا احمد علی لاہوری کو جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان کا امیر منتخب لیاگیا ۔ آپ آخری وقت تک اس عہدے پر فائز رہے ۔آپ کی رہنمائی میں صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان میں 300 شاخیں قائم ہو گئیں ۔
جون 1957ء میں جمعیت علماء اسلام کا رسالہ ترجمان اسلام لاہور سے آپ کی سر پرستی میں شائع ہونے لگا۔
1955ء میں مولانا احمد علی لاہوری کی سرپرستی میں انجمن خدام الدین کی طرف سے’’خدام الدین‘‘نام سے ایک ہفت روزہ رسالہ جاری کیاگیا اور یہ رسالہ آج بھی جاری ہے ۔
ہر ذی روح اپنے رب کو راضی کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اس ضابطہ کے تحت مولانا احمد علی لاہوریؒ 23 فروری 1962ء بمطابق 17رمضان 1381 ہجری کو 77سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
یونیورسٹی گراؤنڈ میں آپ کی نماز جنازہ کی امامت آپ کے صاحبزادہ مولانا عبید اللہ انور نے پڑھائی ۔ افطاری کے وقت مولانا عبداللہ درخواستی ؒ ، مولانا عبیداللہ انورؒ ، حافظ حمید اللہ اور دیگر اکابرین نے آپ کی میت لحدِ خاک میں اتاری۔
——
تصانیف
——
آپ نے قرآن پاک کا رواں رواں اردو ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ 34 چھوٹے چھوٹے رسالے تالیف کیے جن میں رسوم الاسلامیہ، اسلام میں نکاح بیوگان، ضرورۃ القرآن، اصلی حنفیت، رسول اللہ کے وظائف، میراث میں شریعت، توحید مقبول، فوٹو کا شرعی فیصلہ، صد احادیث کا گلدستہ اور فلسفہ روزہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔