اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف نقاد، محقق اور افسانہ نگار پروفیسر شفقت رضوی کا یوم وفات ہے

پروفیسر شفقت رضوی(پیدائش: 15 مارچ 1927ء – وفات: 27 دسمبر 2009ء)
——
پروفیسر شفقت رضوی پاکستان سے تعلق رکھنے و الے نامور محقق، نقاد،افسانہ نگار اور اردو کے پروفیسر تھے۔ وہ مولاناحسرت موہانی پر تحقیقی کام کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔
——
حالات زندگی
——
شفقت رضوی 15 مارچ، 1927ء کو حیدرآباد دکن، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد دکن سے ایم اے (اردو) اور ایم اے (سیاسیات) کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ بھارت میں کچھ عرصے تدریسی ملازمت کے بعد وہ 1961ء میں پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں واقع نیشنل کالج کے شعبۂ اردو میں استاد مقرر ہو گئے جہاں سے 14 مارچ، 1987ء میں پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شیریں کا یومِ وفات
——
ادبی خدمات
——
شفقت رضوی کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا تاہم ان کی اصل شناخت تحقیق و تنقید بنی۔ انہیں حسرت موہانی پر سند کا تصور کیا جاتا تھا ، انہوں نے حسرت کی شخصیت پر متعددد کتابیں تالیف کیں جن میں مطالعہ حسرت موہانی، مضامین حسرت موہانی، بیگم حسرت موہانی: حیات و سیرت اور حسرت موہانی کے جریدے اردوئے معلیٰ میں اردو کے کلاسیکی شاعروں پر شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ تذکرۃ الشعرا سرفہرست ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں اودھ پنچ اور پنچ نگار، دیوانِ مہ لقا بائی چندا، سراج اورنگ آبادی: حیات اور فکر و فن، نقیبِ انقلاب: برکت اللہ بھاپالی، فیضان دکن، مخدوم محی الدین: حیات و ادبی خدمات، تحقیقی نقوش، یورپین شعرائے اردو اور جوش ملیح آبادی: تحقیق اور اور تنقید کی زد میں کے نام قابلِ ذکر ہیں جبکہ دو مزید کتابیں اردو کے یورپین نثر نگار اور حسرت کی صحافت زیرِ طبع ہیں۔
——
تصانیف
——
مطالعہ حسرت موہانی
مضامین حسرت موہانی
بیگم حسرت موہانی: حیات و سیرت
تذکرۃ الشعرا
اودھ پنچ اور پنچ نگار
دیوانِ مہ لقا بائی چندا
سراج اورنگ آبادی: حیات اور فکر و فن
نقیبِ انقلاب: برکت اللہ بھوپالی
فیضان دکن
مخدوم محی الدین: حیات و ادبی خدمات
تحقیقی نقوش
یورپین شعرائے اردو
جوش ملیح آبادی: تحقیق اور اور تنقید کی زد میں
——
وفات
——
شفقت رضوی 27 دسمبر، 2009ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
کتاب مولانا حسرت موہانی از شفقت رضوی سے ایک اقتباس
——
مولانا ابتدا سے ہی ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی رہے اور سیاست میں مذہبی بنیادوں پر کسی تفریق کے قائل نہیں رہے ۔ ان کی جدوجہد کا ایک طویل دور نیشنلسٹ رہنما کے طور پر نظر آتا ہے لیکن ہندووں کے مجموعی رویہ اور کانگریس کی مسلم دشمنی کی پالیسی نے بالآخر انہیں اس مؤقف سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا ۔
بھارت کے دانشور اور اہلِ قلم اپنا سارا زور بیان اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ مولانا ہمیشہ نیشنلسٹ ہی رہے اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے کبھی نہیں سوچا ۔
مشہور کانگریسی اخبار پیام حیدر آباد دکن کے ایڈیٹر اور اس منصب پر قاضی عبد الغفار کے جانشین اختر حسن نے لکھا ہے کہ :
” حسرت ہندوستان کے پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا ضروری سمجھا ۔ حسرت کی یہ سیاسی بصیرت ان کے معاصر رہنماؤں میں کسی رہنما کے ہاں نہیں پائی جاتی ”
( اختر حسن نقد و نظر ۔ حیدر آباد دکن ، دسمبر ۱۹۸۴۔ )
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ