اردوئے معلیٰ

آج معروف مرثیہ نگار قیصر بارہوی کا یوم وفات ہے

قیصر عباس زیدی المعروف قیصر بارہوی(پیدائش: 16 جنوری 1928ء- وفات: 26 دسمبر 1996ء)
——
نام سید قیصر عباس زیدی المعروف قیصر بارہوی 16 جنوری 1928 کو بارہہ کی ایک بستی کیتھوڑا میں پیدا ہوئے۔ والد سید وزارت حسین زیدی کے زیرِ تربیت ابتدائی تعلیم پائی۔
گیارہ برس کی عمر میں لکھنؤ آئے اور 1950 تک وہاں مقیم رہ کر مغربی تعلیم کے ساتھ علومِ مشرقی کی تحصیل بھی کی۔ علم عروض کو بھی سیکھا۔ 1938 میں شاعری کی ابتدا کی۔ شاعری میں نجم آفندی سے متاثر تھے اور انیس کے بھی معتقد تھے۔
1950 میں وہ 22 برس کہ عمر میں جب پاکستان آئے تو ادارہِ ترقیاتِ تھل میں انہوں نے گورنمنٹ کی ملازمت اختیار کی۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں رہے۔ پنجاب کے مختلف حصوں میں رہے تاہم 1969 میں ادارہ ترقیاتِ تھل ختم ہو جانے کے بعد انہیں ریونیو بورڈ کی تھل برانچ میں ملازمت مل گئی لہذا مستقل طور پر لاہور میں سکونت اختیار کی ۔
قیصر بارہوی نے لکھنؤ کے زمانے سے ہی غزل، سلام، قصیدے اور رباعیات کہیں۔ البتہ اس قادرالکلام شاعر نے 1952 میں پہلا مرثیہ کہا۔ ابتدائی سات مرثیوں کا مجموعہ شبابِ فطرت شائع ہوا۔ اور جلد ہی اس زود گو شاعر نے مرثیہ گوئی کے حوالے سے ملک گیر شہرت پا لی۔ جناب قیصر بارہوی نے نہ صرف مرثیہ خوانی اور اس کی ترویج میں کارہائے نمایاں انجام دیے بلکہ انہوں نے مرثیہ میں ایک ایسا لحن اختیار کیا جو انکی شخصیت کے ساتھ ہی مخصوص ہو کر رہ گیا۔
تخلیقات
جناب قیصر بارہوی نے تقریباً 85 /86 مرثیے کہے
جو مختلف مجموعوں میں بھی شائع ہوئے ۔
شبابِ فطرت( سات مرثیئے )سب سے پہلا مجموعہ
موج شہر
عظیم مرثیے ( 12 مرثیئے ) 1978
منتخب مرثیئے
منفرد مرثیئے
معتبر مرثیئے
بارگاہ ( قصائد کا مجموعہ )
امتزاج ( غزلوں کا دیوان )
ممتاز مرثیہ گو ڈاکٹر مسعود رضا خاکی نے قیصر بارہوی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
” قیصر بارہوی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اردو مرثیئے کی ان حدود کا احترام کرتے ہیں جو انیس و دبیر نے قائم کی ہیں۔ “
——
یہ بھی پڑھیں : عظیم مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر کا یوم پیدائش
——
تاہم عاشور کاظمی کے نزدیک ان کی شاعری میں جدت بہر طور قائم رہی، وہ کہتے ہیں۔
” انیس و دبیر کی قائم کردہ حدود میں رہ کر بھی منفرد لب و لہجہ میں انہوں نے جدید مرثیہ کے فن اور مقصد دونوں کو نہایت سلیقہ مندی اور ذہانت سے برتا ہے ۔
جدید مرثیہ مصائبِ سید الشہدا کے بیان میں بہت پیچھے ہے ۔ لیکن قیصر بارہوی مصائب اور فضائل دونوں میں ایک متوازن رشتہ قائم رکھتے ہیں ۔
جناب قیصر بارہوی نے 26 دسمبر 1996 میں کراچی میں وفات پائی
——
منتخب کلام
——
مسکرائے گا سرِ دار وہی اے قیصرؔ
جو محمد کے نواسے کی ادا پائے گا
——
ظرفِ نظر سے بحر بھی قطرہ دکھائی دے
ہو سامنے پہاڑ تو ذرہ دکھائی دے
——
لبِ خنداں سے شرافت کا لہو چاٹتے ہیں
کیا ادائیں ہیں گلے مل کے گلا کاٹتے ہیں
——
فکر کو تابعِ ایماں نہیں رہنے دیتے
لوگ ظالم کو بھی ظالم نہیں کہنے دیتے
——
کس طرح دامنِ اُلفت کی ہوا دیتے ہیں
شہد دیتے ہیں مگر زہر ملا دیتے ہیں
——
خوف رکھتے نہیں تسلیم و رضا کے بندے
بخدا موت پہ غالب ہیں خدا کے بندے
——
روحِ احساس فقط درد کا گلدستہ ہے
آدمی وہ ہے جو مظلوم سے وابستہ ہے
——
سیراب کر کے دشتِ بلا خونِ پاک سے
مظلومیت نے چاند اُگائے ہیں خاک سے
——
ظلمتیں پھلتی پھولتی ہیں خدا خیر کرے
بجلیاں رنگ بدلتی ہیں خدا خیر کرے
گردشں اور مچلتی ہیں خدا خیر کرے
بستیاں آگ اُگلتی ہیں خدا خیر کرے
محوِ حیرت ہوں کہاں بول رہی ہے دنیا
خونِ انساں سے دھواں تول رہی ہے دنیا

عقل شعلوں میں مسلسل ہے خدا خیر کرے
ہر قدم خوف کی دلدل ہے خدا خیر کرے
کہیں زنداں کہیں مقتل ہے خدا خیر کرے
صبح میں شام کی ہلچل ہے خدا خیر کرے
مرگِ مخلوق تماشا ہے تماشائی ہیں
خون سورج کا پیئیں اب بھی وہ سودائی ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر امید فاضلی کا یوم وفات
——
سُرخیاں چہرۂ اخبار سے دیتی ہیں خبر
کھیل ہے آتش و بارود کا اب شام و سحر
چشمِ احساس ہے اور وقت کا خونی منظر
پھول بکھرے ہیں کہ ٹکڑے ہوا آدم کا جگر
کوئی دیکھے ستم و جور کے نظاروں میں
ننھی لاشیں بھی نظر آتی ہیں انگاروں میں

اُف یہ آباد اجالوں میں قیامت کا دھواں
خونِ انساں سے بنائی ہوئی تصویرِ فغاں
جانے کس چیز کا دل رکھتے ہیں ظالم انساں
وہ گریں خاک پہ بہنیں ، وہ تڑپنے لگی ماں
لاش اٹھائے جو کہیں درد کے مارے نکلے
بولیں آنکھیں وہ یتیمی کے ستارے نکلے

یہ خریدے ہوئے ہاتھوں میں چکتے خنجر
جسم گلیوں میں نظر آتے ہیں چوراہوں پہ سر
کوئی اوڑھے ہوئے سوتا ہے لہو کی چادر
بال کھولے کہیں روتی ہے کسی کی دختر
پاسِ مذہب نہیں ، غیرت نہیں ، ایمان نہیں
ایسا لگتا ہے بھرے شہر میں انسان نہیں

فکر کے تیز قدم عینِ ستائش ہیں مگر
کس لیے خونِ تمدن سے بھری راہگذر
جنگ اور اسلحہ سازی پہ تو ہر وقت نظر
کوئی سنتا نہیں کیا کہتے ہیں اُجڑے ہوئے گھر
شہر کیوں ہو گئے صحرا کبھی سوچا ہی نہیں
کتنی لاشوں سے گذر آئے یہ دیکھا ہی نہیں

اِک طرف حُرمتِ انساں پہ ہزاروں مضموں
اِک طرف زہرِ سیاست سے ہر انسان کا خوں
اِک طرف چاند ستاروں پہ حکومت کا جنوں
اِک طرف مقتلِ کردار کی تدبیرِ زبوں
لبِ خنداں سے شرافت کا لہو چاٹتے ہیں
کیا ادائیں ہیں گلے مل کے گلا کاٹتے ہیں

کتنے وابستۂ دنیا ہیں یہ برگشتۂ دیں
صرف ہستی پہ یقیں ، خالقِ ہستی پہ نہیں
اپنی چوکھٹ پہ جھکاتے ہیں زمانے کی جبیں
اِن کی جاگیر ہو جیسے یہ فلک اور زمیں
کیا سمجھنا تھا انہیں اور یہ کیا سمجھے ہیں
آدمی اپنی فراست کو خدا سمجھے ہیں

امن کے نام پہ دنیا میں ادارے ہیں بہت
بے سہاروں کو جو لوٹیں وہ سہارے ہیں بہت
ربط دریا سے نہیں اور کنارے ہیں بہت
جو سُلاتے ہیں مقدر وہ ستارے ہیں بہت
کیا کہے روشنی اس شیوۂ خدمت کے لیے
آندھیاں لائے چراغوں کی حفاظت کے لیے

کیا کہوں عالمِ احساس کی رسوائی پر
جھوٹ کا رنگ چڑھایا گیا سچائی پر
کیوں نہ حیرت ہو اس اندازِ مسیحائی پر
جان دیتے ہیں اندھیروں کی توانائی پر
شوقِ ایجاد ہے انساں کی ہلاکت کے لیے
دولتِ علم لُٹاتے ہیں جہالت کے لیے

بحرِ ایجاد میں اس درجہ بڑھی طغیانی
جس کی ہیبت سے سمندر ہوئے پانی پانی
موج در موج یہ نقشِ قدمِ انسانی
ایسی دانائی سے کیوں پھوٹ پڑی نادانی
خوب ایوانِ خیالات کو آباد کیا
ساری دنیا کو ڈبونے کا سبق یاد کیا
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز مرثیہ گو شاعر ساحر لکھنوی کا یومِ وفات
——
قلزمِ حال سے کہتے ہیں یہ ماضی کے نشاں
زندگی بھول گئی قہرِ خدا کا ظوفاں
اُف یہ تفریطِ یقیں ، ہائے یہ افراطِ گُماں
شہرِ پیکار جو اس وقت ہیں پانی پہ رواں
لوٹنے بحرِ نبوت کے خزینے جاتے
کشتیِٔ نوح ڈبونے پہ سفینے جاتے

اب کہاں جلتے ہیں انصاف و عدالت کے چراغ
اب تو فاسد کی حمایت میں ہے دنیا کا دماغ
دیکھ لیں اہلِ نظر چہرۂ ماحول کے داغ
کس طرح جلتا ہے تقدیسِ خیالات کا باغ
فکر کو تابعِ ایماں نہیں رہنے دیتے
لوگ ظالم کو بھی ظالم نہیں کہنے دیتے

شعری انتخاب از قیصر بارہوی کے منفرد مرثیے ، آشوبِ عصر ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ