اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو زبان کے معروف مصنف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار قیسی رامپوری کا یومِ وفات ہے۔

قیسی رامپوری (پیدائش: 20 جون 1908ء – وفات: 10 فروری 1974ء)
——
قیسی رامپوری ثم اجمیری ایک تعارف – 1908 تا 1974
——
راقم الحروف اپنی مرضی سے قیسی رامپوری کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں لکھے گا۔ جو کچھ بھی لکھا جانے گا قیسی کے الفاظ میں لکھا جائے گا۔قیسی رامپوری کے حالات زندگی کے بارے میں خود قیسی سے بہتر کون بتا سکتاہے۔ آیئے ہم ان ہی کی خودنوشت کو ہو بہو نقل کرتے ہیں۔ یہ خودنوشت "میرا پسندیدہ افسانہ "ناشر، ار دومحل لاہور۔ 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ (ص:325۔333)
"نام حامد الدین خلیل الزماں۔ والد بزرگوار کا اسم مبارک محمد زمان خان تھا۔ سلسلۂ نسب چونتیس پشت میں حضرت قیس جن کا اسلامی نام عبد الرشید تھا، سے جا کر ملتا ہے۔ ان بزرگ کا مزار کابل میں ہے۔ پردادا صاحب کابل سے نوشہرہ میں آ کر آباد ہوگئے تھے۔ وہیں سکونت اختیار کر لی تھی لیکن والد صاحب جوانی کے عالم میں وہاں سے چل دیئے اور ریاست کوٹہ میں آ کر پولیس کی ملازمت میں داخل ہوئے۔ تمام آباو اجداد کی عمرفوجی ملازمت میں بسر ہوئی مگر نانا صاحب تجارت پیشہ تھے اور غدر کے بعد کے متمول ترین تاجروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ بڑے جامع کمالات انسان تھے۔ عربی فارسی کے دریا،حافظ قران، عابد شب بیدار اعلی درجہ کے انجینئر ،حاذق طبیب ، موسیقی کے ماہر اور جانوروں کو تربیت دینے میں ان کو خاص ملکہ تھا۔ چھ فٹ سے اونچا قد کسرتی جسم، بینائی کا یہ عالم کہ ستر سال کی عمر میں بغیر عینک کے ابتدائی چاند کی راتوں میں بار یک خط پڑھ لیا کر تے تھے۔ ایسے ہی دانت مضبوط تھے۔ بڑے نفیس خطاط بھی تھے۔ میر پنجہ کش کے شاگردوں میں تھے۔ افسوس طاعون کے زمانہ میں دوسروں کا علاج کرتے کرتے خود بھی اس کا لقمہ بن گئے۔”
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
میری پیدائش 20 جون 1908ء کی ہے۔ فارسی و اردو نانا صاحب سے پڑھیں۔ اور پندرہ پارے تک ان سے ہی قران حفظ کیا۔ لیکن بعد کوطبیعت اچاٹ ہوگئی۔ اور اس نعمت سے محروم رہ گیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد طبیعت کا رنحان ملازمت کی جانب مطلق نہ تھا۔ اسی زمانہ میں ماموں صاحب لا ولدمر گئے۔ وہ بھی تجارت کرتے تھے۔ اور نا نا مرحوم کی تمام دولت کو ختم کر کے صرف ایک دوکان پر قناعت کئے بیٹھے تھے۔ مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کا تمام نقد سرمایہ اور دکان وغیرہ میرے قبضہ میں آگئی۔ میری فطرت اور صلاحیتوں کو سوائے والد صاحب کے اور کوئی نہیں سمجھتا تھا۔ میں خودبھی نہیں جانتا تھا۔ کشمکش حیات میں میری صحیح جگہ کیا ہے۔ اپنے تخیلات میں گم ، خاموش اور ناکارہ سا انسان تھا۔ بہرنوع بیس ہزار کی مالیت میرے قبضہ میں تھی۔ اور قبلہ والد کی نیم رضامندی کے بعد میں نے تجارت کے سلسلے کو آگے دھکا دینا چاہا مگر ڈھائی سال کے اندر اندر صرف دکان ہی ختم ہوگئی بلکہ تمام سرمایابھی لٹادیا۔
یہ تباہی عیاشی یا بے اعتدالی کا نتیجہ تھی۔ ان دونوں نعمتوں سے میں شروع سے محروم رہا۔ جس کا ذکر اپنے کیریکٹر کے ساتھ کرونگا۔ اس بربادی کی تنہا باعث بے پروائی تھی۔ میری دکان بیشتر رفاہ عام کی سو سائٹی یا خوش وقتی کا ایک کلب بنی ہوئی تھی۔ جتنامال بکتا نہ تھا اس سے زیادہ مفت تقسیم ہو جاتا تھا۔ مگر وہ تھا اس قدر زیادہ کہ مجھے اس کو اس طرح ختم کرنے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ لگ گیا۔ آخری جھٹکایہ تھا کہ ایک دن دکان بند کرنے کے بعد تمام چابؤں کا گچھاقفل ہی کے اندر لگا چھوڑ گیا۔ جس کا ہوش بارہ گھنٹے تک نہ آیا صبح اس کو بڑے قفل میں لٹکا دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ یہ یہاں کیسے آ گیا۔ اب بھی دل میں کوئی خطرہ نہ آیا۔ اطمینان سے قفل کھولاتو عجب تماشہ نظر آیا۔ تمام چیزیں تتر بتر (اول تو چیز یں ہی کیا رہ گئی تھیں) پڑی ہوئی تھیں اور تجوری (جس کے اندر سات ہزار کے نوٹ ، کچھ سونے کی انگوٹھیاں اور نانا مرحوم کے زمانہ کے کچھ قیمتی پتھر پڑے ہوئے تھے )بالکل صاف تھی۔”
"نقصان برداشت کرنے میں مجھے قدرت نے بڑا سنگ دل بنایا ہے۔ صدمہ کا ایک سسکتا ہوا سا حملہ ہوتا ہے اس کے بعد کسی قدر بدمزہی راحت محسوس ہونے لگتی ہے۔ غرض ہماری تجارت ختم ہوئی۔ اس کے بعد سال بھر تک بیکار بیٹھے رہے۔ اس وقت میری عمر سترہ سال کی ہوگی۔ ریفارم اور اصلاح کے خیالات شروع ہی سے طبیعت میں تھے۔ چنانچہ بہت سی انجمنیں بنائیں کسی کے سیکریٹری رہے۔ کسی کے صدر مگر کوٹہ کی سر زمین ایسی سنگلاخ ہے کہ وہاں ہماری مساعی کچھ بروئے کار نہ آئیں۔ آخر مزید خدمات کے لئے بلا معاوضہ انجمن حمایت اسلام، دہلی میں (اس کا دفتر بلیماران میں تھا) آ گیا۔ اور کام کرنے لگا۔
"یہ شدھی کا زمانہ تھا۔ نواح دہلی میں مجھے جاٹوں کے ایک گاؤں میں روانہ کیا گیا۔ میرے ساتھ ایک والنٹیر بھی تھا۔ گاؤں میں پہنچتے ہی ہماری معمولی مرمت ہوئی۔ اور ہم پٹ پٹا کر بھوکے پیاسے گاؤں کے باہر ایک کھیت میں آ پڑے۔ رات ہو چکی تھی۔ کھلا ہوا آسمان ، ہوا کے تند جھونکے، کانٹے اور کھیت کے موٹے موٹے ڈھیلے ہماری تواضع کررہے تھے۔ اور ہم مزہ سے ان پر دراز تھے۔ یہاں تک کہ ہم کو نیند آ گئی۔ یہ شب میری زندگی کی مبارک ترین شب تھی۔ اس رات کو مجھے رسول اللہ صلعم کی زیارت کا عالم رویا میں شرف حاصل ہواتھا۔”
” دلی سے سیدھ ها اجمیر چلا آیا۔یہ 1925 ءکا ذکر ہے۔ یہاں آ کر میں نے ایک یتیم خان کی سفارت بلا معاوضہ اپنے ذمہ لے لی۔ اور اس کے لئے کئی شہروں میں جا کر چندہ کی معقول رقم جمع کی۔ مگر یتیم خانہ کے مہتم صاحب رقم کے باب میں مجھے دیانت دار نظر نہیں آئے۔ اس لئے اس خدمت سے بھی مجھے سبکدوش ہونا پڑا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیبہ ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ کا یومِ پیدائش
——
بستر باندھ کر میں یتیم خانہ کے پھاٹک پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب کہاں جاؤں کہ اتفاق سے ادھر سے رامپور کے ایک صاحب نکلے۔ جن کو میں نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ خدا جانے کس طرح مجھے جانتے تھے۔ وہ مجھے ایک قومی ادارہ کے دفتر میں لے گئے۔ جہاں آفس سپر ٹینڈینٹ کی جگہ خالی تھی۔ چنانچہ میں پینتیس روپے ماہوار پر وہاں چپک گیا۔ اس طرح میرے قدم اجمیر میں جم گئے۔”
"اس کے بعد میں کوشش کر کے ریلوے آڈٹ میں آ گیا۔ جہاں اب تک پھنسا ہوا ہوں۔ فکر معاش سے آزاد ہو کر میں نے ادیب فاضل کا امتحان دیا۔ اس کے بعدمنشی فاضل کا اور آخر میں انٹر کا۔ یہ ہے میری آج تک کی سوانح جس کی دھجؤں میں بہت سے آلام بھی لپٹے ہوئے ہیں اور مسرتیں بھی ”
"میں بچپن ہی سے اپنی علیحدہ دنیا رکھتا تھا۔ سونی سونی سی اور تنگ و تاریک سی۔ مگر میں اس میں ہمیشہ مگن رہا اول تو والدین کی تادیب و شد ید نگرانی ہی دوسرے بچوں میں کھیلنے کا موقع کم دیتی تھی۔ اگر بھی اورلڑکوں میں کھیلنے نکل جاتا تو وہ سب بہت جلد مجھ سے بیزار ہو جاتے تھے۔ خدا جانے میں ان سے کیا چاہتا تھا اور اپنے آپ کو کیا بنا کر ان کیساتھ پیش آتا تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں بددماغ مغرور اور لڑاکا نہ تھا۔ میری طبیعت میں شروع سے مشفق و مبارک بزرگ کا ہاتھ رہا ہے۔ جوذراسی لغزش پر سیدھا کر دیا کرتا تھا۔ ابا کے ہاتھوں میں بمشکل ایک یا دو بار پٹا ہونگا مگر ان کے رعب کا یہ عالم تھا کہ جوان ہو کر بھی میری ہمت ان سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی نہ ہوتی تھی۔ میں کانٹے ، سانپ اور بچھو وغیرہ کے وجود پرغور کرتا تو یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ میں آزادی سے باغوں اور کھیتوں کا چکر نہ لگا سکوں۔ معمولی واقعہ جو میری آنکھوں کے سامنے سے گزرتا تھا مجھے متاثر کئے بغیر نہ رہتا تھا۔
"گیارہ سال کی جب عمر ہوگئی تو میں مردم بیزار بن گیا۔ ہمیشہ تنہائی میں پڑا ہوا اپنے خیالات کا لطف لیتا تھا۔ والدہ پریشان تھی۔ عزیز واقارب حیران تھے مگر میں اپنے حال میں خوش تھا۔”
"تین سال تک میرے اوپر یہ عالم طاری رہا۔ یا تو میں دؤانہ بن جانے والا تھایا قدرت میرے تخیل کی نشو و نما کر رہی تھی۔ اس دوران مجھے بیکار سے شعر موزوں کر نا آ گئے تھے۔ اور نثر بھی لکھےنے لگاتھا۔ چودہ سال کی عمر ہو چکی تھی۔ طبیعت نشاط گناہ کے لئے پھیلنا چاہتی تھی۔ مگر کچھ بزرگوں کا تصرف۔ کچھ والد کے پیر صاحب کی باطنی عنایات کچھ گھر کی تربیت اور سب سے زیادہ خوف خدا۔ اس نے بھی شباب کی رنگینی محسوس کرنے نہیں دی۔ دل حسین لڑکؤں کے تصور سے لذت گیر ہو نے سے کانپ اٹھتا۔ میرے طفلانہ تقوی کا یہ عالم تھا کہ آنکھ کا فرحسن سے مجبور ہو کر اگر کسی حسین لڑکی کو ایک دفعہ دیکھ لیتی تو میں کفارہ کے طور پر ایک دن روزہ رکھتا۔ دن بھر درود پڑھتا اور رات بھر استغفار۔ ایک ہی سال میں اس قدر اثر ہو گیا کہ پلنگ پر سوتا چھوڑ دیا تکیہ سرہانے سے ہٹا دیا ننگی زمین پر سوتا تھا۔ سر کے نیچے ایک بڑا سا پتھر رکھتا۔ مبالغہ نہ سمجھئے میرا تمام بیان حقیقت پرمبنی ہے۔”
"میں پندرہ سال کا ہو گیا۔ جیسے جیسے جوانی امنڈ امنڈ کر آتی گئی تقوی جھنجھلا تا گیا۔ بڑی کشمکش کا زمانہ تھا، خدا کی پناہ۔”
اسی زمانہ میں میں نے ایک ناول لکھا۔ اور اب میری شاعری زیادہ بےتکی نہ رہی تھی۔ میری حقیر ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے ہوئی تھی اور میں اب تک شاعر بن سکا ہوں نہ ادیب”
"میں نے اس لڑکی کو آج تک نہیں دیکھا ہے مگر میری دؤانگی کا یہ عالم تھا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ میرا تمام کا تمام تخیل میرے جذبات کی قلعی میرے اندر جس افسانہ کی بیداری ، میری شاعری سب کچھ اسی نادیدہ لڑکی کی رہین منت ہے۔ اگر میں اسے دیکھ لیا یا وہ مجھے مل جاتی تو شاید میں وہی اپنے سنگ زیر سراور کھردری زمین پر پڑے پڑے عمر گزار دیتا۔ اس لڑکی سے ملا قات حاصل کرنے کی حسرت وتوقع میں میرا کیریکٹر بننے لگا۔ میرا زاویہ نگاہ وسیع ہوا، میرے اندر ایثار وقربانی کا مادہ پیدا ہونے لگا۔ وہ جہاں کہیں ہو خدا اسے خوش رکھے۔ وہ مجھے انسان بنا گئی۔ اور میرے تقوے میںبے نفسی و قربانی کا اضافہ کرگئی۔ دلوںکے معاملات مجھے بہت کم راس آئے ہیں۔ میں ان سے بچتا رہا ہوں۔ میرے کیریکٹر کی ابتدائی بنیاد مجھے بچاتی رہی حسن کے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہیں کر سکا۔ جن گنی چنی لڑکؤں سے محبت کی خدا کو حاضر ناظر جان کر محبت کی۔ ڈر ڈر کر اور خوف کھاتے کھاتے اس کو ختم کر دیا۔ یہ میری بے کیف جوانی کی دھلی ہوئی داستان ہے۔ جس میں آئندہ اب کسی سطر کے اضافہ کی توقع نہیں ہوگی۔”
——
یہ بھی پڑھیں : نامور افسانہ نگار، مترجم اور عالمی پروفیسر عزیز احمد کا یوم وفات
——
"ابھی صرف کتابی لیاقت تھی۔ استنباط کا مادہ کم تھا۔ والد انتقال فرما چکے تھے۔ معشیت جم چکی تھی۔ بے فکری حاصل ہو چکی تھی۔ چنانچہ اپنے زعم فکر پروازی اور نبوت مفکری میں خداو مذہب سےمنحرف ہو گیا۔ وہ شخص منحرف ہو گیا جس کی چشم ظاہر باطن بچپن سے خدائی کرشمے اور بزرگوں کی کرامتیں دیکھتی آئی تھی۔ 1930ء سے 1933 ء تک میں ملحد ر ہا لیکن الحادبھی میری عقل کے تربیت یافتہ اخلاق کو بگاڑنے میں کامیاب نہ ہوا۔ آخر ایک شب کو میں نے ایسا عجیب و غریب اتنا طویل اور مربوط خواب دیکھا کہ میں اب بھی اس کے تصور سے کانپ اٹھتا ہوں۔ صبح اٹھتے ہی تو بہ کی تجدید ایمان کی اور جو شے مجھے کسی قیمت پر بھی راس نہ آ سکتی تھی اس سے ہٹ کر پھرصحیح فضا میں آ گیا۔ میں خدا سے منحرف نہیں ہوسکتا تھا۔”
"1924ء ،1925ء میں ، میں نے ایک ناول طلسمی فوارہ لکھا۔ جس کو میں باقاعدہ ناول کہہ سکتا ہوں۔ یہ تمام تر میری صحرانوردی اور بچپن سے لیکر جوانی کے خیالات کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد 1926ء میں جب اجمیر سے رسالہ کیف نکلنے لگا۔ تو اس کے لئے پہلا افسانہ’ایثار مجسم” لکھا۔ اس کے بعد اور لکھتا رہا۔ 1929ء میری قلم کاری کا سب سے بڑا دور ہے۔تنہا اس سال میں، میں نے شاید پچاس سے زیادہ افسانے لکھے ہوں گے۔ جومختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں۔ اسی سال میں دو انگریزی ناولوں کا بھی ترجمہ کیا۔”
"میری تصانیف، ہر چند ملازمت نے میرے بہترین اوقات پر قبضہ کر رکھا ہے مگر میں نے کسب معاش سے آگے اس کو بھی بڑھنے نہیں دیا۔ ملازمت میرے رجحان طبع اور ذوق فطری پرمطلق اثر انداز نہ ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمت کے باوجود میں کیفتان’ آخری فیصلہ’ دل کی آواز’ نکہت۔۔ ‘دو شئے’۔ ‘آفتاب’ اور چوراہا’، گھسیٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان کے علاوہ تراجم میں، ہارڈی کی دو کتا ہیں، ولیم کی کؤ کا ایک ناول ، شیریڈن رابنسن کے کے دو ڈرامے اور ہالکن کے دو ناول ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی زندہ ہے۔ اتناہی کافی ہے۔”
(میرا پسندیدہ افسانہ ص۔325۔ 333)
قیسی اپنے اجمیر کے قیام کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
"1924ء سے 45-1944 ء تک میں اجمیر میں رہا۔ اگر میں اجمیر کو اپنا وطن کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ کؤنکہ اپنی عمرگریز پا کے بہترین دن اس شہر میں گزارے ہیں۔ میرا مکان کافی بڑا تھا اور درگاہ بازار میں واقع تھا۔ اس میں اوپر چار بڑے بڑے کمرے اور نیچے فراخ صحن کے بعد دو کمرے تھے۔ اتنے بڑے مکان کا کرایہ صرف گیارہ روپے تھا۔ آج کی تمام باتیں مبالغہ میں معلوم ہوتی ہیں کؤنکہ یہاں مکانات نہیں بلکہ مکان نما آرزو کدے نظر آتے ہیں جو خانمہ ا بر بادلوگوں کے حسرت زدہ خواب ہیں۔ میں بھی آٹھ نو سالوںسے ان ہی خوابوں سے دل بہلا رہا ہوں۔
(قیسی اجمیری کا مضمون مولانا سیماب مرحوم شاعر بھی۔ سالنامہ 1964ء ص 39)
آگے لکھتے ہیں :
"میں اجمیر میں ملازمت بھی کر رہا تھا اور دو احباب کی شرکت سے کیف نام کا رسالہ بھی نکال رہا تھا۔ ہر چند یہ رسالہ 1931ء سے 1934ء تک زندہ رہا لیکن اس نے اپنا ایک معیار قائم کر لیا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مولانا سیماب کی خاص توجہ اس کو حاصل تھی۔ کیف کے علاوہ میں رسالہ سروش (لاہور) کے ادارہ میں بھی شامل تھا۔”
"میں اس زمانہ میں ٹامس ہارڈی کے مشہور ناول ”جؤڈی او بسکؤر’ کا ترجمہ کر رہا تھا۔ یہ ناول شاید دنیا کی سب سے زیادہ ہولناک ٹریجڈی کا حامل ہے۔ کؤنکہ اس کو لکھنے کے بعد پبلک کے خوف سے اس کا مصنف کئی سال تک روپوش ہو گیا تھا۔ اردو میں نہ تو پہلے اور نہ آج کوئی اس قسم کی ٹرینڈی موجودہے۔ رہی مثنوی زہرعشق تو وہ صرف ایک المیہ محبت کی کہانی پیش کرتی ہے۔ مگر ہارڈی کا یہ شاہکارانسان کی پوری زندگی کی ٹریجڈی ہے۔ مولانا سیماب نے فر مایا کہ اس کا عنوان ‘اے بسا آرزو کہ خاک شدہ’ رکھ دو۔ میں پھڑک اٹھا۔”
(قیسی کا مضمون مولانا سیماب مرحوم۔ شاعر بھی۔ سالنام1964ء ص41)
قیسی رامپوری کے فن اور شخصیت کے بارے میں پروفیسر فیروز احمد صاحب فرماتے ہیں۔
"قیسی رامپوری اور قیسی اجمیری بظاہر دو شخصیتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اصلاً یہ ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ اکثر ان ناموں میں جائے وطن کو لے کر مغالطہ پیدا ہوا ہے۔ لیکن جیسا کہ خود قیسی رامپوری نے وضاحت کر دی ہے کہ وہ پیدا تو ہوئے رامپور میں لیکن ان کا بچپن تعلیم و تربیت اور ادبی زندگی کا آغاز چونکہ اجمیر میں ہوا، اس لئے وہ رامپوری سے زیادہ خود کو اجمیری ہی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ اجمیر کے طالب علمی کے زمانہ میں انہیں پہلے شاعری پر افسانہ نگاری اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کا شوق پیدا ہوا۔ اکثر یہ تینوں شوق انھوں نے ایک ساتھ پورے کئے۔ یعنی جس ادبی رسالہ میں ان کی کوئی غزل شائع ہوئی اسی میں ان کا افسانہ بھی چھپا۔ ناول چونکہ طویل ہوتا ہے اس لئے ایسا بھی ہوا کہ جس سال ان کی شاعری اور افسانے شائع ہوئے اسی سال ان کا کوئی ناول بھی منظر عام پرآگیا۔ ؤں نثر اور نظم دونوں سے عرصہ دراز تک ان کی وابستگی رہی۔ یہ صحیح ہے کہ قیسی رامپوری کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوالیکن افسانوی مجموعے کے علاوہ ان کے متعدد تناول بھی شائع ہو کر قارئین کی دلچسپی کا موضوع بنے۔”
( راجستھان میں اردو۔ پروفیسر فیروز احمد میں۔460)
——
یہ بھی پڑھیں : نامور افسانہ نگار ، مترجم اور عالمی پروفیسر عزیز احمد کا یوم پیدائش
——
قیسی رامپوری کا شمار راجستھان کے معدود چند بڑے ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنے زمانہ کے مقبول ترین ناول نگار اور افسانہ نگار تھے۔ جب ترقی پسند تحریک کا دور شروع ہوا تو قیسی نے اس تحریک سے خود کو صرف علیحدہ رکھا بلکہ اختلاف نظریات کا اظہار اپنے مضامین میں بھی کیا۔ یہ اظہار خیال قیسی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ترقی پسند تحریک کے حامیان نے قیسی سے ادبی تعصب کا برتاؤ کیا۔ جس کی وجہ سے قیسی کی تخلیقات کو پس پشت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کتاب میں شامل قیسی کا مضمون ترقی پسند ادب ان کے مخالف خیالات کا مظہر ہے۔
اجمیر کے پس منظر میں پروفیسر فیروز احمد مزید لکھتے ہیں۔ قیسی اجمیری نے اجمیر کی جس شعری و ادبی فضا میں پرورش پائی تھی ، وہاں رفیعی اجمیری ، حبیب اللہ فضائی ، اختر شیرانی ، سلطان حیدر معینی زلفی اور بعض دوسرے رومان پسندوں کا ہجوم تھا۔ 1925ء کے بعد کا زمانہ ہے، جبکہ مذکورہ سبھی شعرا و ادبا ءاپنے شباب کی سرحدوں میں قدم رکھ چکے تھے۔”
(راجستھان میں اردو۔ ص460)
فیروز صاحب نے قیسی کے معلوم ناولوں کے نام بھی درج کئے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔
” چوراہا۔ آخری فیصلہ۔ دل کی آواز۔ ڈھوپ۔ سزا۔ تسلیم ، شیطان۔ دوشیشے۔ خیانت۔ کلیم۔نکہت۔ گرد پوش۔ بر ہنہ۔ اپاہج – شیریں۔پھندہ – رونق۔ حور۔ رضوان۔ گھرانہ وغیرہ۔ اس طرح قیسی اجمیری ، جہاں تک راجستھان میں فن ناول سے وابستگی کا سوال ہے سب سے زیادہ ناول لکھنے والوں میں سر فہرست ہیں۔”
(راجستھان میں اردو۔ص۔ 462)
تقسیم ملک کے بعد قیسی ترک وطن کر گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان کی کچھ تخلیقات ہندوستان میں چھپی ہیں۔ جیسے: ناول فرزانہ اور جیت۔ یہ دونوں ہی ناول ضیائے ادب ، مرادآباد سے 1958ء میں شائع ہوئےتھے۔ ایک اور ناول "فرصت کے دن” 1959ء میں نیا ادارہ دہلی سے شائع ہوا۔ قیسی کی تخلیقات میں ابھی تک صرف ایک ڈرامہ ہی سامنے آتا ہے۔ جس کا نام”سماج کے ستون”ہے اور اس کوقیسی نے 1943ء میں اجمیر میں ہی لکھا تھا۔
اس کے علا و قیسی نے دوسری جنگ عظیم پربھی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔ جس کا نام” دوسری جنگ عظیم کے ہولناک واقعات”ہے۔ یہ فیروز سنس، لاہور نے 71 19ء میں شائع کی تھی۔
قیسی اپنے افسانوی مجموعہ” کیفستان” میں لکھتے ہیں۔ "لوگوں کو اب تک قیسی رامپوری اور قیسی اجمیری میں اشتباہ باقی ہے۔ اس قسم کے خطوط اب تک آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ میں واضح کرتا ہوں کہ یہ ایک ہی ذات ہے۔ جو دو جگہ منقسم ہے۔ رامپور سےوطنی مناسبت ہے اور اجمیر میرا مستقر ہے۔”
(کیفستان۔ 1933ء)
اپنی مضمون نگاری کے بارے میں قیسی لکھتے ہیں۔” میری مضمون نگاری کی ابتداء مجھے صحیح طور پر یاد نہیں۔ اتنا جانتا ہوں کہ یہ بلائے بے درماں بہت عرصہ سے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر میں صرف احباب کی ضیافت طبع کے لئے ایک ناول لکھ ڈالا۔ اس کے ایک سال بعد معاشرتی زندگی پر ایک کتاب "حجاب النساء "لکھی۔ جس کو جائز طور پر کتاب کہہ سکتا ہوں لیکن افسوس کوئی صاحب اس کو چرا کر لے گئے۔ ذہن میں مدتوں سے چند واقعات کی تحریک سے ایک ناول کا مواد پک رہا تھا جس کوطلسمی فوارے کے نام سے آخر میں صفحات قرطاس پر لے آیا۔ لیکن چونکہ اس وقت تک مجھے قلم پر پوری قدرت حاصل نہ تھی اس لئے میں اس کو ادبی چیز نہیں کہہ سکتا۔ اس کے بعد ولیم لی کؤ کے مشہور ناول’ دی ماسک ‘کا ترجمہ کر ڈالا۔ اس کے فوراًبعد دیمنڈ کیری کی حیرت انگیز کتاب نمبر ا10 کو اردو کا جامہ پہنا دیا۔یہ دونوں مسودات احباب کے قبضہ میں ہیں۔ یہ تو ہے میری ناول نویسی کی تاریخ سنہ 1926 ء میں رسالہ کیف ( اجمیر) وجود میں آیا تو مضمون نگاری کی جانب توجہ ہوئی۔ چنانچہ میرا پہلا افسانہ” ایثار مجسم” اسی میں شائع ہوا۔ تخیل میں دوررسی اور بیان میں زور پیدا ہو چکا تھا۔ چنانچہ افسانہ بہت کامیاب رہا۔ غرض اسباب پیدا ہوتے گئے اور میری مضمون نگاری پروان چڑھتی گئی۔”
(کیفستان – عرض حال 1933ء)
اپنے قیس ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں۔” قیسی نہ تو میرا تخلص ہے اور نہ جناب قیس عامری کی لیلا پرست ذات سے میرا کوئی تعلق ہے۔ میں تو حضرت قیسؒ ( عبدالرشید )کے نام گرامی کا بد نام کندہ ہوں۔قیسی میر انسبی لفظ ہے۔” ( کیفستان)
آگے لکھتے ہیں۔” ہاں میں اپنے مضامین کے بارے میں یہ بلند آہنگ دعوی کرتا ہوں کہ وہ سب طبع زاد ہیں۔ ان کا نہ توتخیل مستعار ہے نہ پلاٹ ماخوذ۔ صرف پہلا افسانہ شیکسپیر کے ڈرامہ کا ترجمہ ہے جو نگار میں چھپا تھا۔
(9/ جولائی 1933، قیسی رامپوری۔ از۔ اجمیر کیفستان)
جہاں تک قیسی رامپوری کے ناولوں پر تبصرہ کا سوال ہے تو خو دقیسی نے ہی اپنے ناولوں پر اس طرح تبصرہ کیا ہے۔
"میرے ناول تین شعبوں میں منقسم ہیں۔ پہلا شعبہ قدامت شریفہ ، ہمارے گھرانوں کی تہذیب (برے اور بھلے دونوں ) غلو کر دار ،دماغی تفریح، جس کے تانے بانے میں کچھ سودمند با تیں بھی آگئی ہیں۔ اور طہارت نفس پرمشتمل ہے۔ ان ناولوں میں، آخری فیصلہ ، دل کی آواز، نکہت ، زینت، اپاہج اورتسنیم ہیں۔ اس سلسلے کو میں نے چھ ناولوں میں ختم کر دیا ہے۔ خدا جانے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہوں یا آ پکو مغالطہ دیکر چپ ہو بیٹھا ہوں۔ دوسرا شعبہ پہلے سے سخت تر ہے۔ اس میں بلا تخصیص قوم وملت ، عام انسانوں کے رات دن کے دیکھے ہوئے ، درد ز دہ اور ہر اس خوردہ جذبات کی عکاسی ہے۔ زندگی کی اندھی آنکھوں کے آنسو جوندامت گناہ کی راکھ پر ٹپک کر جذب نہیں ہو جاتے ہیں بلکہ چنگاری ہی بن کر فطرت انسانی کے گناہ کے دامن کو جلاتے جاتے ہیں، پیش کئے ہیں۔ اس شعبہ کے تمام کردار عام زندگی کا چلتا پھرتا فرد ہے۔ جو آپ کوگلی کوچوں میں مارا مارا پھر تاملیگا۔ اؤانوں میں قہقہے لگاتا ہوا پایا جائیگا۔ منافقت سے ہنس رہا ہو گا۔ دورنگی سے ہمدردی کر رہا ہو گا۔ دنیا دکھاوے کومنہ بسور رہا ہو گا۔ گناہ کر رہا ہوگا۔ گناہ پی رہا ہوگا۔ اور عقوبت گناہ برداشت کر رہا ہوگا۔ ان ناولوں میں "چوراہا” کو دھوپ کی آخری کڑی بنادینا چاہتا ہوں۔ بشرطیکہ اس شعبہ کے کسی پلاٹ کی بپتا مجھ پر نہ پڑگئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ پیدائش
——
تیسرا شعبہ میری زندگی کا حاصل ہو گا لیکن بہت مختصر۔ اس میں تحریکات حاضرات ، رجحانات جدید ، جنگ سے قبل کی آہیں ، لڑائی کے بعد کے شرارے اور بننے یا بن چکنے والے نظام جدید وغیرہ کو میں سامنے رکھ کر اس کے مقابلہ میں تیرہ سو سال قبل کے نظام کو پیش کرونگا۔ بہت دشوار کام ہے۔ جس کی ذمہ داری سے میری بے بضاعتی لرزتی ہے۔ مگر میں کھویا قلم ضرور اٹھاؤنگا۔
ان تینوں شعبوں کے بعد میں کیا کرونگا۔؟ کہہ نہیں سکتا۔ یاتو توبہ یا اپنی انسانی کمزوری کا سہارالیکر دنیا کی آنکھوں میں تھوڑی سی اور خاک جھونکنے کی کوشش کرونگا۔”
(پیش لفظ – ناول، خیانت قیسی رامپوری عبدالحق اکیڈمی، حیدر آباد )
قیسی رامپوری کے حالات زندگی ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں، ان کو جمع کرنا واقعی ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ ان کی شادیاں بھی دو ہوئی تھی۔ پہلی بؤی کا جلد ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی دوسری شادی اچھی خاصی بڑی عمر میں ، اردو کے مشہور ادیب ملا واحدی کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ ایک زمانے میں خسر اور داماد ایک ساتھ کئی رسالوں میں عرصے تک ساتھ ساتھ چھپتے رہے تھے۔
قیسی رامپوری نے مضامین بھی لکھے ہیں۔ مثال کے طور پر:
ا۔ اٹھارویں صدی کے افسانہ نگار۔ (1928ء)
2۔ سرزمین عجائبات ( جغرافیائی۔ 1929ء)
3۔ عجائبات قدرت پر انسانی تصرف (1930ء)
4۔ مولانا سیماب مرحوم۔
5۔ رفیعی اجمیری (1941ء)
6۔ ترقی پسند ادب پر چند سطور (1943ء)
اجمیر میں ہی رہتے ہوئے انھوں نے ایک ڈرامہ "سماج کے ستون” کے نام سے 1943ء میں لکھا تھا۔ اجمیر میں قیسی کے ہم عصر۔
قیسی رامپوری نےبیس سال کا ایک طویل زمانہ اجمیر میں گزارا ہے۔ اس دور میں اجمیر میں بہت سے ادبا ء اور شعرا ہندوستان کے ادبی افق پر چھائے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ خاص شخصیات کے نام یہاں درج کئے جاتے ہیں۔
مولا تا معنی اجمیری۔ میر احدی اجمیری۔ زمین الکاملین کامل اجمیری۔ عرشی اجمیری۔ مولانا سید اثر الياس رضوی۔حکیم محمد ابراہیم لکھنوی (مدیر ، آستانہ)۔ عبید اللہ قدسی۔ حید راجمیری۔ ابو العرفان فضائی۔سید اختر نقش بندی الوری، بہار کوٹی ،رفیعی اجمیری۔ وغیرہ۔
اسی دور میں حیدر اجمیری کا نام بھی افسانوی ادب میں اہمیت رکھتا ہے۔ جن کو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کیسی کے اجمیر آنے سے بہت پہلے سے حیدر اجمیری افسانے لکھ رہے تھے۔ اور ملک کے مقتدر رسائل میں شائع ہورہے تھے۔ راقم کے پاس بھی حیدر اجمیری کے دو افسانے موجود ہیں۔ ایک "روزا” اور دوسرا "شمعدان”۔ یہ افسانے 1922 ء میں ماہنامہ ہزار داستان لاہور میں شائع ہوئے تھے۔ حیدراجمیری بیسویں صدی میں راجستھان کے اولین افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔
——
ماخوذ از کتاب: قیسی رامپوری (ثم اجمیری) ایک تعارف
مرتبہ: ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔ ناشر: راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی، جےپور (سن اشاعت: 2019ء تیسرا ایڈیشن)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ