آج معروف شاعر، نقاد اور ادیب قمر جمیل کا یوم پیدائش ہے

——
نام قمر احمد فاروقی اور تخلص جمیل تھا۔۱۰؍ مئی ۱۹۲۷ء کو حیدرآباد(دکن) میں پید اہوئے ۔ان کا آبائی وطن سکندرپور، ضلع بلیا (یوپی) ہے۔الہ آباد سے انٹر اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے بی اے کیا۔ان کے دو شعری مجموعے’’خواب نما‘‘ اور ’’چہار خواب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ قمر جمیل نے نثری نظمیں لکھنے کے علاوہ اس کے جواز کی وضاحت کے لیے مضامین بھی تحریر کیے۔حالیہ چند برسوں کے درمیان قمر جمیل نے ساختیاتی تفہیم کے لیے گراں قدر مضامین لکھے جو’’ادب کی سرحدیں‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے۔۲۷؍اگست۲۰۰۰ء کی شب کراچی میں انتقال کرگئے۔
——
قمر جمیل: شاعرانہ نفی دانش، ہیت گریزی،صوفیانہ وجدان،فنا کی دہشت کا شاعر
——
قلمی نام:قمر جمیل
اصل نام:قمر احمد جمیل
آبائی وطن: سکندر پور، ضلع بلیا، یوپی، بھارت
پیدائش: 10 مئی 1931 ،غازی پور، یوپی، بھارت
تعلیم:بی۔اے، جامعہ عثمانیہ، حیدرآبار، آندھرہ پردیش، بھارت
——
یہ بھی پڑھیں : جمیل جالبی کا یومِ وفات
——
ملازمت: ریڈیو پاکستان،زیادہ تر ڈھاکہ، کراچی اور حیدرآبار (سندہ) میں متعین رھے۔
کچھ دن کاروبار کیا۔ مگر کامیاب نہ ھوسکے۔
سانس کے مرض میں مبتلا رھے۔ کثرت سگریٹ نوشی کا بھی شکار تھے ۔
وفات: 28۔اگست 2002 ، کراچی، پاکستان، ۔وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں پیوند خاک ہیں۔
تصانیف:
"خواب نما”۔۔۔۔،”چہار خواب” ( شعری مجموعے)
” جدید ادب کی سرحدیں” (سن فروری 2000 ، دو/2 جلدیں ،تنقید)
قمر جمیل نے ریڈیو کے لیے ولیم شیکسپیر کے ڈرامے "میکبتھ” اور "ہملیٹ” کو اردو میں ترجم کرکے نشر کیا۔
کچھ عرصہ روزنامہ ” نوائے وقت” کراچی میں ادبی حاشیہ نویسی بھی کی۔ قمر جمیل کو مصوری سے بھی دلچسپی تھی ۔ وہ مصوری میں تجریدیت، سوریلزم، ڈاڈا ازم، سے متاثر تھے۔ گلارج کی تکنیک بھی اپنی مصوری میں استعمال کرتے تھے۔ ان کی مصوری بنیادی طور پر "فن شکن” (ANTI-.ART) تھی۔ جس کے اثرات ان کی شاعری پر بھی بہت گہرےتھے۔
ادبی رشتے داریان : آسی غازی پوری(دادا، نعتیہ شاعر)، محب عارفی (بہنوئی، شاعر) ،احمد ہمیش ( رشتے میں داماد، افسانہ نگار، شاعر، مدیر) اقبال فریدی( برادر نسبتی، شاعر) ان کے صاحبزادے آصف جمیل مصور ہیں۔
قریبی ادبی دوست: سلیم احمد، ضمیر علی بدایونی، رئیس فروغ،رسا چختائی،عبید اللہ علیم، احمد ہمدانی، افتخار جالب ، احمد ہمش ، مشفق خواجہ۔ سارہ شگفتہ اور اسد محمد خان تھے۔
انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور1976 میں نثری نظم کو تحریک کی شکل دینے کے لیے ” پروز پوِٹیٹری سرکل” کی بنیاد رکھی۔ جس کا پہلا اجلاس ان کے عزہز آباد ولے گھر میں ہوا تھا۔ انھون نے ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیتے ہوئے ۔ جدید شعری حسیات اور اس کے اظہار اور ابلاغ کے لیے تخلیقی ہنر مندی کی ضرورت پر زور دیا۔ جس میں اسلوب وجدان ، کشف ، لسانی تشکیلات وغیرہ سب ھی شامل تھا ۔ قمر جمیل کی اردو ادب کے علاوہ انگریزی اور عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : جمیل الدین عالی کا یومِ وفات
——
وہ اردو کے نثری نظم کے اھم شاعر ہیں۔ ان کی شاعری خود کلامیہ لگتی ہیں۔ ان کی نظمون میں مخصوص قسم کی مغائریاتی جمالیات بکھری ھوئی ھے۔60 اور 70 کی دھائی میں کراچی کی نئی نسل ان کی شاعری سے بہت متاثر رھی۔ محافل میں بات کرنے کا بہت اچھا سلیقہ تھا۔ ایک زمانے میں کراچی کی ادبی محفلوں کی جان ھوا کرتے تھے۔خاص کر کراچی میں سابقہ عرشی سینما ( عائشہ منزل) پرشام ڈھلے سے رات گئے تک ان کے گھر پر ادبا اور شعرا کا جھمگٹا لگا رھتا تھا۔ لوگوں کو ان کی 1960 اور 1970 کے عشروں کی حلقہ ارباب ذوق کی ادبی اور و علمی مباحث یاد ھوں گی۔انکی نثری نظموں میں داخلی آہنگ بڑا کمال کا ھوتا تھا۔——
کراچی کے نوجوان شعرا جو جدید شعری حسیتّت کو سمجھنا چاہتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے قمر جمیل تخلیقی ادب کی جماعت میں تخلیق کاری اور جدید ادبی تنقید کا سبق دے دہے ہوں ۔نوجواں ان کے گرد جمع رہتے تھے۔ ۔قمر جمیل کیی منفرد باتوں ادبی نظریات، روایے شعری روایت اے نحراف اور مخصوص مزاج کے سبب شہر اور شہر سے باہر اس کے ادبی حلقوں میں بہت چرچے رہتے تھے۔ اور ان کے دوست ان کے متعلق بطزیہ، اور دلچسپ باتِن کیا کرتے تھے اور ان سے متعلق واقعات مرچ مسالہ لگا کر بھی بیاں کرتے تھے۔ ان کے دوست مشفق خواجہ نے اپنے ہفت روزہ ادبی حاشیے” خامہ بگوش کے قلم سے ” میں ” شعری مجموعہ یا فرس نامہ” کا موضوع باندھتے ہوئے قمر بھائی کے متعلق بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ لکھتے ہیں ۔۔۔ ” قمر جمیل ایک فرد نہیں’ دبستان کا نام ہے۔ موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اور انجمن بھی ایسی جو انجمن ترقی معکوس پسند مصّنفین سے زیادہ با اثر ہے۔ قمر جمیل کے گرد ہر وقت نوجوان لکھنے والوں کا مجح لگا رہتا ہے۔ یہ نوجوان بہت کچھ حاصل کرنے کی توقع میں آتے ہیں اور سب کچھ گنواکر اٹھتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ قمر جمیل ہر ادبی ابجد خواں کو یہ یقین دلواتے ہیں کہ وہ بہت بڑا فنکار پے، اپنے عہد کا ہومر، شیکسپیر ، دانتے ہے وہ بے چارہ اس کو سچ سمجھ لیتا ہے اور اس کے بعد وہ ہومر، شیکسپیر اور دانتے تو کیا ابجد خواں بھی نہیں رہتا۔ ہم ایسے کئی نوجوانوں کو جانتے ہیں کنھیں قمر جمیل غلاط فہمی کی سیڑھی کے زریعے ادب کے قطب مینار کی چوٹی پر چڑھا دیا۔اور بھر نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ قمر جمیل کے پاس ایک اور سیڑھی بھی ہے جس کا نام مجلسی تنقید بھی ہے” { روزنامہ جسارت، کراچی۱۰ مئی ۱۹۸۶}۔ زندگی کے آخری برسوں میں قمر جمیل نے جدید تنقیدی ادبی اور لسانی نظریات میں بھی دلچسپی لینا شروع کی۔ اور مابعد جدیدیت اور ساختیاتی موضوعات پر قلم اٹھایا تھا۔ قمرجمیل کے تنقیدی مضامیں بڑے پائے کے ہوتے تھے اور نئی فکری راہیں دکھاتے تھے ۔ رئیس فروغ کی شاعری کے متعلق اپنے مضمون ” نئی منظر” میں لکھتے ہیں۔۔” افیلیا
میں تیرے لیے آنسو
کیا بہاؤں
تیرے چاروں طرف
پانی ہے
یہ پانی ۔ نئی حقیقتوں کا التباس ہے ۔ اگر ارد گرد کے ہم عصر ادب سے آگے نکل سوچیں تب بھی سائنس اور ادب اس بین الاقوامی صورت حال سے آنکھ نہیں چراسکتے ‘ ادب اور سائنس دونوں نئی حقیقتوں کے التباس کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس حقیقت نما التباس میں انسان تصادم کا شکار ہے یہ انسان اونیل کاہیری ایپ ہو یا روبٹ دونوں اس التباس کا انجذاب کرنا چاہتے ہیں مگر ہیری ایپ اور روبٹ دونوں اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے ہیں ۔ یہ تصادم خارج میں قوانین فطرت سے ہے اور باطن میں اپنے آپ سے اگرتصادم سچ مچ ڈرامے کی روح ہے تو یہ ڈراما روح کے اندر بھی ہورہا ہے اور باہر بھی‘ ہم ہر روز اپنے آپ سے بچھڑی ہوئی ’’ میں‘‘ کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں اور ہماری طرح رئیس فروغ میں بھی اپنے آپ سے بچھڑی ہوئی ’’ میں‘‘ کاتماشا ہوتا رہتا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : قمر جلال آبادی کا یوم پیدائش
——
فروغ کی شاعری اس تصادم کو سامنے لاتی ہے ۔ اس کی شاعری پڑھتے ہوئے شاید آپ کو بھی یہ احساس ہو کہ باطن میں روحانی انسان اور حیوان انسان کی کولڈ وار کبھی ہلکی اور کبھی تیز ہوجاتی ہے ۔ زندگی کبھی زمینی ، کبھی آسمانی معلوم ہوتی ہے جی چاہتاہے بھیڑیے انسان بن جائیں ۔ انسان فرشتہ اور فرشتے بھیڑیے یعنی آسمانی اور زمینی قوتیں ایک ہوجائیں ۔ ان دونوں کا ایک دوسرے پر تسلط نہ ہو ان کا ملاپ ہوجائے یعنی انسان پر وہ حقیقت منکشف ہوجائے جو زمین کوآسمانوں سے اور آسمانوں کو زمین سے ملاتی ہے لیکن ان دونوں کا ملاپ نہیں ہونے پاتا۔”
۔ ان کی ایک نثری نظم ” امکان” کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں۔
——
ابد ھمارا گھر ھے
جس کی دیواریں خوابوں سے بنی ہیں
اور جس کی کھڑکیاں
ھماری آنکھوں کے چراغ ہیں
——
آج ستارے آنگن میں ہیں ان کو رخصت مت کرنا
ایک عجب شہزادہ میرے باغوں کا
شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
شہر کی گلیاں گھوم رہی ہیں میرے قدم کے ساتھ (ردیف .. ت)
سایہ نہیں ہے دور تک سائے میں آئیں کس طرح
اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
دست_جنوں میں دامن_گل کو لانے کی تدبیر کریں
شیخ کے گھر کے سامنے آبِ حرام ڈال دوں
جانے دو ان نغموں کو آہنگ_شکستِ ساز نہ سمجھو
آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
ایک پتھر کہ دستِ یار میں ہے
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
غمِ جاناں کی خبر لاتی ہے
میں جنہیں فریب سمجھوں تری یادِ مہرباں کے
——
حلقہء یاراں میں کنعاں رات کے پچھلے پہرے
بستیوں سے دور نہروں کے کنارے خیمہ زن
حلقہء یاران میں کتنے نازنیں نازک کمر ( نظم” چار خواب” سے اقتباس)
——
قمر جمیل کی ایک غزل دیکھیں:
——
دشتِ جنُوں میں دامن گُل کو لانے کی تدبیر کریں
نرم ہَوا کے جھونکو آؤ موسم کو زنجیر کریں
موسمِ ابروباد سے پُوچھیں لذّتِ سوزاں کا مفہُوم
موجۂ خُوں سے دامنِ گُل پر حرفِ جنُوں تحریر کریں
آمدِ گُل کا وِیرانی بھی دیکھ رہی ہے کیا کیا خواب
وِیرانی کے خواب کو آؤ وحشت سے تعبیر کریں
رات کے جاگے صُبح کی ہلکی نرم ہَوا میں سوئے ہیں
دیکھیں کب تک نیند کے ماتے اُٹھنے میں تاخیر کریں
تنہائی میں کاہشِ جاں کے ہاتھوں کِس آرام سے ہیں
کیسے اپنے ناز اُٹھائیں، کیا اپنی تحقیر کریں
بیتابی تو خیر رہے گی، بیتابی کی بات نہیں
مرنا اِتنا سہْل نہیں ہے، جینے کی تدبیر کریں
گھُوم رہے ہیں دشت جنُوں میں اُن کے کیا کیا رُوپ جمیل
کِس کو دیکھیں، کِس کو چھوڑیں، کِس کو جا کے اسیر کریں
——
خواجہ رضی حیدر نے درست لکھا ہے”قمر جمیل اپنی فکری تہذیب اور قوت ِ اظہار کے اعتبار سے بنیادی طور پر ایک اہم شاعر ہیں۔ اگرچہ اُنہوں نے نثری ادبی تنقید کی جانب بھی توجہ دی ہے لیکن شاعری اُن کی وحدت کا مرکزی نکتہ ہے۔ اسی مرکزی نکتہ کے گرد قمر جمیل کی وحدت ایک ”تکثیری عمل“ سے گزرتی ہے اور وہ مختلف خانوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مگر ان خانوں میں بٹ جانے کے باوجود نہ تو اُن کی شناخت تقسیم ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کا شاعر ہونا مشکوک نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس ”تکثیری عمل“ میں بسا اوقات از خود تشکیک کے گہرے پاتال میں اُترجاتے ہیں مگر اس کے باوصف وہ اپنی بازیافت میں مصروف دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اپنی بازیافت ایک جدید شاعر کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ قمر جمیل ”نیل کا سیلاب“ اور ”دجلہ کے خواب“ جیسی مرصّع پابند نظموں کے ساتھ ایوانِ اظہار میں داخل ہوئے اور بہت جلد غزل کے اسیر ہوگئے۔ پھر غزل کی حرارت جب ان کے احساس میں جذب ہوگئی تو اُنہوں نے ایک جھرجھری لے کر نثر کا دامن تھام لیا۔ نقد و نظر کے گلشن میں خوب چہچہے کیے اور پھر آزاد نظم کو اپنالیا، یہاں بہت ہجوم تھا۔ اس ہجوم میں قمر جمیل کو نہ صرف اپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس ہوا بلکہ اُن کو اپنی شناخت بھی مجروح ہوتی دکھائی دی، چنانچہ اُنہوں نے اس ہجوم سے باہر نکلنے کے لےے ایک زقند بھری اور انسان کے ابتدائی ذریعہ اظہار یعنی خط کشی اور رنگ آمیزی کے آنگن میں پہنچ گئے، یہاں اُنہوں نے نیرنگی حواس کو کینوس پر منتقل کرنا شروع کردیا، مگر یہاں بھی اُن کو طمانیت کی وہ فراوانی میسر نہیں آئی جس کی جستجو میں اُنہوں نے خود کو ”تکثیری عمل“ کے آتش کدے میں جھونک دیا تھا” {نیرنگیء حواس کا شاعر ۔۔۔ قمر جمیل} انکی غزلیات میں ” آئینہ” اور نثری نظموں میں ” گھوڑا” بنیادی شعری علامت ہے۔ شاید وہ آئینے سے فرد کی خو احتسابی اور تنقید ذات اور گھوڈے کی علامت سے قوت کے معنی لیتے ہیں۔ان کی نظموں سے استہزا کی کیفیت کا اظہاربہر طور ہوتا ہے اور یہ استہزا صرف رسم و رواج ، معاشرتی اور سیاسی مزاحمت نہیں اور نہ وہ اس کے خلاف ہیں وہ خود ان سے بنر آزما بھی ہے۔ یہ ان کی نظموں کو پڑھکر محسوس ہوتا ہے۔ قمر جمیل کی جدید حسیت کی نژی نظمیں کراچی کے ادبی جریدے ” سیپ” ( مدیر: نسیم درانی) میں پچھلی صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں چھپیں۔”جن میں ان کی لکھی ھوئی نظمین۔۔۔ "دو لڑکیاں اور سمندر”۔۔۔۔”کپاس کا پھول”۔۔۔۔”جسپی گرل”۔۔ ” پرندے اور رات”۔۔ اور "تذکرہ گلشن جدید”۔۔۔۔ اور "صریر” کے مئی 1993 کے شمارے میں ان کی ایک بہترین نظم ۔۔”امکان ” ادبی حلقوں میں خاصی ہنگامہ خیزی کا سبب بنی تھی تھیں
——
منتخب کلام
——
ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
——
یا الہ آباد میں رہیے جہاں سنگم بھی ہو
یا بنارس میں جہاں ہر گھاٹ پر سیلاب ہے
——
اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے
——
ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے
ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے
اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے
کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے
——
میں جنہیں فریب سمجھوں تری یاد مہرباں کے
وہ چراغ بجھ گئے ہیں مری عمر جاوداں کے
نہ یہ لالہ زار اپنے نہ یہ رہ گزار اپنی
وہی گھر زمیں کے نیچے وہی خواب آسماں کے
یہ پیالہ ہے کہ دل ہے یہ شراب ہے کہ جاں ہے
یہ درخت ہیں کہ سائے کسی دست مہرباں کے
مجھے یاد آ رہے ہیں وہ چراغ جن کے سائے
کبھی دوستوں کے چہرے کبھی داغ رفتگاں کے
——
اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں
تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں
پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اٹھا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیلؔ
اور کچھ لوگ چھپا رکھے ہیں آئینے میں
——
دست جنوں میں دامن گل کو لانے کی تدبیر کریں
نرم ہوا کے جھونکو آؤ موسم کو زنجیر کریں
موسم ابر و باد سے پوچھیں لذت سوزاں کا مفہوم
موجۂ خوں سے دامن گل پر حرف جنوں تحریر کریں
آمد گل کا ویرانی بھی دیکھ رہی ہے کیا کیا خواب
ویرانی کے خواب کو آؤ وحشت سے تعبیر کریں
رات کے جاگے صبح کی ہلکی نرم ہوا میں سوئے ہیں
دیکھیں کب تک نیند کے ماتے اٹھنے میں تاخیر کریں
تنہائی میں کاہش جاں کے ہاتھوں کس آرام سے ہیں
کیسے اپنے ناز اٹھائیں کیا اپنی تحقیر کریں
بیتابی تو خیر رہے گی بیتابی کی بات نہیں
مرنا اتنا سہل نہیں ہے جینے کی تدبیر کریں
گھوم رہے ہیں دشت جنوں میں ان کے کیا کیا روپ جمیلؔ
کس کو دیکھیں کس کو چھوڑیں کس کو جا کے اسیر کریں