آج جدید اردو غزل و نظم کے معروف شاعر رئیس فروغ کی برسی ہے ۔

——
(پیدائش: 15 فروری، 1926ء – وفات: 5 اگست، 1982ء)
——
15 فروری 1926 کو مرادآباد کی بستی کے ایک دینی گھرانے میں سید محمد یوسف کے ہاں جس سانولے بیٹے نے جنم لیا اس کو شعر و ادب کی دنیا میں رئیس فروغ کے نام سے جانا، پہچانا اور مانا گیا۔ اُن کا اصل نام سید محمد یونس حسن تھا۔ رئیس فروغ نے شاعری کی ابتدا مرادآباد میں ہی کر دی تھی. مرادآباد میں جگرمرادآبادی کے ہم عصر اُستاد شاعر قمرمرادآبادی کے بے شمار شاگرد تھے جنہوں نے گلی کوچوں اور محلوں کے اطراف میں شعروادب کی شمعیں روشن کررکھی تھیں دوران تعلیم یونس میاں میں بھی ان محفلوں میں شریک ہو کر اساتذہ و نوجوانوں کے ادبی مشاغل سے دل چسپی پیداہوئی اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو مہمیز ملی اور خاندان میں کسی شاعر کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قابلیت لگن سے خود کو اہلِ سخن میں شامل کرلیا۔
1950 میں پاکستان آنے بعد معاشی بندھنوں اور اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے شاعری کو زیادہ وقت نہ دے سکے .
قیام ِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھہ میں پناہ لی تاہم وہاں دل نہیں لگا اور یہ عازم ِ کراچی ہوگئے۔ تھوڑی بہت جدوجہد کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ان کو ملازمت مل گئی جہاں اسد محمد خاں بھی ملازم تھے۔ دفتری فرائض کی ادائی کے ساتھ انہوں نے کے پی ٹی کی بزمِ ادب بھی سرگرمی سے چلائی اور ادارے کے مجلے ’صدف‘ کو سہ ماہی بنیاد پر ایڈٹ کرکے شائع کرواتے رہے۔
1965 میں جنگ کے زمانے میں بیشمار قومی اور ملّی نغمے لکھے جن میں
‘شاہین صفت یہ تیرے جوان اے فضائے پاک، ان غازیوں پہ سایہ فگن ہے خدائے پاک’ وغیرہ شامل ہیں.
رئیس فروغ نے ابتدا میں کے پی ٹی میں ملازمت کی، اس کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے.
ریڈیو پر انہوں نے بیشمار گیت ، ڈرامے اور فیچر لکھے . جن میں اسٹوڈیو نمبر 9 اور حامد میاں کے ہاں بہت مشہور ہیں.
ریڈیو پر ان کے بےشمار گیت مشور ہوئےجن میں
——
اے وادی مہران اے وادی مہران
میں تجھ پر قربان ہو ،
دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے
ماں جو بچھڑ گئی تھی بچوں سے آ ملی ہے، وغیرہ
——
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پی ٹی وی پر بھی اپنے قلمی جوہر دکھاے. بزم لیلیٰ جس میں رونا لیلیٰ پرفارم کرتی تھیں ، اسکے تمام گیت رئیس فروغ نے لکھے1970 کی دہائی میں ٹی وی پر نغمے اور مزاحیہ خاکے تحریر کئے.
شعیب منصور کی ہدایات میں جھرنے پروگرام کے تمام گیت لکھے ، جسے عالمگیر، محمّد علی شہکی اور دیگر فنکاروں نے اپنی آواز سے سجایا۔۔۔۔
فہمیدہ نسرین کی ہدایات میں بچوں کے گیتوں کے پروگرام ہم سورج چاند ستارے کے تمام گیت رئیس فروغ نے لکھے . بعد میں اسے طاہر سنز نے کتابی شکل میں پیش کیا. اس کتاب پر رئیس فروغ کو رائٹرز گلڈ ایوارڈ سے نوازا گیا. بچوں کے یہ گیت بہت پسند کئے گئے چند مثالیں یہ ہیں :
ابّو کے ابّو دادا میاں اتنے بڑے جی ہاں جی ہاں، آباد ہے یادوں میں اسکول کا پہلا دن رہتا ہے خیالوں میں اسکول کا پہلا دن، گڑیا کی شادی، کلفٹن کی سیر ، وغیرہ شامل ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور مزاح نگار کرنل محمد خان کا یوم پیدائش
——
جب اسد محمد خاں کو ریڈیو پر انگریزی نیوزریڈر کی جزوقتی ملازمت ملی تو رئیس فروغ بھی ریڈیو اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے چلے آئے اور تادم ِ آخر قمر جمیل، سلیم احمد، رضی اخترشوق کی طرح ریڈیو کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ غزل کے ساتھ ہی بچوں کی نظمیں بھی لکھیں جن کا مجموعہ ’ہم سورج چاند ستارے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کو مضمون نگاری اور تراجم پر بھی عبورحاصل رہا۔ اپنا شعری مجموعہ ’رات بہت ہوا چلی‘ مرتب کررہے تھے تاہم دست ِ قصا نے مہلت نہ دی اور 5 اگست 1982 کو علالت کے بعد وفات پاگئے۔
——
فصل تمہاری اچھی ہوگی جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لادینا
——
دھوپ مسافر،چھاؤں مسافر، آئے کوئی جائے کوئی
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستا ہے
——
اپنے حالات سے میں صلح تو کرلوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
——
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
——
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
——
رئیس فروغ کی نظموں میں انگریزی الفاظ بھی بروئے کار لائے گئے ہیں، قطعات و گیت اور غزلوں کا مجموعہ رات بہت ہوا چلی کا عنوان ان کی غزل سے لیا گیا
ہے-
فوک گلوکارہ ریشماں کا گیا ہوا گیت تو رئیس فروغ کی پی پہچان بن گیا
” میری ہم جولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں ” . اسے آج کے پوپ گلوکار عاطف اسلم نے بھی گایا ہے
رئیس فروغ کی شاعری کی کتاب ” رات بہت ہوا چلی ” طباعت کے آخری مراحل میں تھی کہ 5 اگست 1982 کو ان کا انتقال ہوگیا
——
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی
دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
——
منتخب کلام
——
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
——
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
——
میں نے کتنے رستے بدلے لیکن ہر رستے میں فروغؔ
ایک اندھیرا ساتھ رہا ہے روشنیوں کے ہجوم لیے
——
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں، ہم سے نہ ملا کر
شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر
باتوں کے لیے شکوہ موسم ہی بہت ہے
کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سُنا کر
سونے دے انھیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر
تو صبح بہاراں کا حسین خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر
——
اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
شہر میں ایک ذرا سے گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
——
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہُوا ہوں بہت انتقام سے
دشمن ہے ایک شخص بہت، ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے
میرے تمام عکس مرے کرّ و فر کے ساتھ
میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے
مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر، تو گئے تم بھی کام سے
ڈر تو یہ ہے ہوئی جو کبھی دن کی روشنی
اُس روشنی میں تم بھی لگو گے عوام سے
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
——
سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا
جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو
وہ شاخین کاٹ لانا پھر انہیں زیبِ گلو کرنا
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے ، کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
غمِ نا آگہی، جب رقصِ وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لاکر وضو کرنا
رفوگر، چاند نکلا ہے، نہ تارے ہیں، نہ جگنو ہیں
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا، یا لہو کرنا
——
اوپر بادل، نیچے پربت، بیچ میں خواب غزالاں کا
دیکھو میں نے حرف جما کے نگر بنایا جاناں کا
پاگل پنچھی بعد میں چہکے پہلے میں نے دیکھا تھا
اُس جمپر کی شکنوں میں ہلکا سا رنگ بہاراں کا
بستی یوں ہی بیچ میں آئی اصل میں جنگ تو مجھ سے تھی
جب تک میرے باغ نہ ڈوبے، زور نہ ٹوٹا طوفاں کا
ہم املاک پرست نہیں ہیں پر یوں ہے تو یوں ہی سہی
اک ترے دل میں گھر ہے اپنا باقی ملک سلیماں کا
رنج کا اپنا ایک جہاں ہے اور تو جس میں کچھ بھی نہیں
یا گہراؤ سمندر کا ہے یا پھیلاؤ بیاباں کا
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لُوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
——
راتوں کو دن سپنے دیکھوں، دن کو بِتاوں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے، ہونے اور نہ ہونے میں
برسوں بعد اُسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی چُھپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صرف ہُوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے، ویسے آو تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو، اِدھر اُدھر کسی کونے میں
سائے میں سایہ اُلجھ رہا تھا، چاہت ہو کہ عداوت ہو
دور سے دیکھو تو لگتے تھے، سورج چاند بچھونے میں
——
پھول زمین پر گرا، پھر مجھے نیند آگئی
دُور کسی نے کچھ کہا، پھر مجھے نیند آگئی
ابر کی اوٹ سے کہیں، نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کُھلا، پھر مجھے نیند آگئی
رات بہت ہوا چلی، اور شجر بہت ڈرے
میں بھِی ذرا ذرا ڈرا، پھر مجھے نیند آگئی
اور ہی ایک سمت سے، اور ہی اک مقام پر
گرد نے شہر کو چُھوا، پھر مجھے نیند آ گئی
اپنے ہی ایک رُوپ سے، تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا، پھر مجھے نیند آگئی
تُو کہیں آس پاس تھا، وہ ترا التباس تھا
میں اُسے دیکھتا رہا، پھر مجھے نیند آگئی
ایک عجب فراق سے، ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا، پھر مجھے نیند آگئی
——
نظم : بچپن کے دن
——
یہ بچپن کے دن
یہ بچپن کے دن
گلوں کی طرح مسکرانے کے دن ہیں
دیوں کی طرح مسکرانے کے دن ہیں
یہ بچپن کے دن
یہ بچپن کے دن
ڈبیٹوں میں انعام پانا ہے ہم کو
کوئز میں بھی کپ جیت لانا ہے ہم کو
پڑھائی میں بھی فرسٹ آنے کے دن ہیں
ہنر سیکھتے ہیں ادب سیکھتے ہیں
ذہانت بڑھانے کے ڈھب سیکھتے ہیں
یہی زندگی کو بنانے کے دن ہیں
بہت ہیں ہمیں علم ہی کے خزانے
جو دنیا کی باتیں وہ دنیا ہی جانے
ہمارے تو پڑھنے پڑھانے کے دن ہیں