اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر صفی اورنگ آبادی کا یوم وفات ہے۔

صفی اورنگ آبادی(پیدائش: 12 فروری، 1893ء- وفات: 21 مارچ، 1954ء)
——
صفی اورنگ آبادی از ڈاکٹر سید بشیر احمد
——
صفی اورنگ آبادی کا شمار ان کے عہد کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اردو شاعری میں وقیع اضافہ کیا ہے ۔ وہ 14 فروری 1893 کو جونابازار اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد حکیم منیر الدین اورنگ آبادی نے ان کا نام بہاء الدین رکھا تھا لیکن صفی نے اپنا نام بہبود علی پسند کیا اور اس نام سے شہرت پائی ۔ ان کا یوم پیدائش پیر تھا ۔انہوں نے اسی مناسبت سے استفادہ کرتے اپنے مسلک کا اظہار اس طرح کیا ؏
کون بے پیرا کہے گا اے صفیؔ
روز پیدائش میرا پیر ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات
——
صفی اورنگ آبادی کے والد حکیم منیر الدین اورنگ آبادی آصف سادس کے دور حکومت میں بیوی اور دو چھوٹے بچوں پر مشتمل مختصر خاندان کے ساتھ اورنگ آباد سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد تشریف لائے ۔ ان کو حیدرآباد کچھ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے حیدرآباد ہی کو وطن مالوف بنالیا ۔ اپنے والدین کے ساتھ جب صفی حیدرآباد پہنچے تو ان کی عمر سات برس تھی ۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ میں ہوئی جہاں قیام و طعام کا مفت انتظام تھا۔ افسوس کہ ان کی تعلیم ادھوری رہی ۔ والدہ کے بے وقت انتقال اور والد کے عقد ثانی کی وجہ سے صفی شاعری کے علاوہ کسی اور میدان میں جوہر نہیں دکھاسکے ۔ انہوں نے مدرسہ طبیہ میں داخلہ لیا اور طبی نصاب کی تکمیل کی لیکن شریک امتحان نہ ہوسکے ۔ اس طرح زندگی کے مختلف مراحل میں ادھورے پن کا شکار رہے
صفیؔ اورنگ آبادی اپنے آپ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
——
صفیؔ بھی اب گنا جانے لگا نازک مزاجوں میں
نہیں معلوم کیا کرتا اگر ظالم حسین ہوتا
——
صفیؔ اپنے ایک شعر میں اپنی نازک مزاجی کا اعتراف کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ زمانے کی ناقدری کا شکوہ بھی۔
——
صفیؔ کے کام میں خوبی کہاں سے آئیگی
بُرا مزاج تھا پھر برا زمانہ ملا
——
صفیؔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا پسند کرتے تھے۔
——
شکر ہے دل اس نے دیا اے صفیؔ
اور نہایت خوش و خرم دیا
——
صفی اورنگ آبادی کی زندگی میں شاعری اور مئے نوشی دو اہم مشاغل تھے ۔ غروب آفتاب کے ساتھ مئے نوشی کا سلسلہ شروع ہوتا ۔ شراب کے تعلق سے صفی کہتے ہیں ؏
——
اتنی شوخی صفیؔ کسی میں کہاں
رنگ میں رنگ تو شراب کا رنگ
——
شیخ صاحب زندگی پانی سے ہے
آدمی کو چاہئے پینا بہت
——
شام آئی میرے ساقی جامِ شراب نکلا
اک آفتاب ڈوبا اک آفتاب نکلا
——
لیکن بادہ نوشی کے بعد وہ شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ صفیؔ کو موسیقی سے بھی لگاؤ تھا اور وہ ستارے سے بھی شوق کیا کرتے تھے ۔ صفی غیر متاہل تھے اس طرح ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد تھے لیکن ان کو تہائی کا شدید احساس رہتا تھا ۔
——
تنہا ہوں گھر میں اور شب انتظار ہے
مجھ کو چراغ خانہ چراغ مزار ہے
——
صفی اورنگ آبادی نے بچپن ہی سے شعر گوئی شروع کردی تھی چنانچہ صفی کے والد حکیم منیر الدین جو اردو فارسی دو زبان میں شعر گوئی کرتے تھے ۔ ان ہی کو وہ اپنا کلام دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے تھے ۔ بعد میں انہوں نے ضیاءؔ گورگانی اور ظہور دہلوی سے استفادہ کیا ۔ داغ دہلوی سے بھی ان کو شرف تلمذ حاصل تھا ۔ داغ دہلوی کے انتقال کے بعد وہ کیفیؔ سے مشورہ سخن کیا کرتے تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز کلاسیکل شاعر صفی لکھنوی کا یوم پیدائش
——
اپنے شعری مجموعہ ’’پراگندہ‘‘ کے تعلق سے وہ کہتے ہیں
——
یہ ’’پراگندہ‘‘ ہے جو کچھ بھی غنیمت ہے صفیؔ
میں غریب آدمی دیواں کہاں سے لاؤں
——
ان کا حلقہ تلامذہ بے حد وسیع تھا ، شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ شمس الدین تاباںؔ جو صفیؔ کے حلقہ تلامذہ میں نمایاںمقام رکھتے تھے ، ان کے کلام کی اشاعت کی کوششوں میں سرگرم رہے ۔ ان کی ناتمام کوششوں کو ان کے فرزند رؤف رحیم نے پورا کیا اور 1987 ء میں صفیؔ کے کلام کے مجموعہ کو ’’گلزار صفیؔ‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ اس طرح ایک پُرگو شاعر کے کلام کا ایک مختصر مجموعہ کلام منظرعام پر آسکا ۔ اس سے قبل ان کا شعرہ مجموعی ’’پراگندہ‘‘ اور ’’انتخاب صفیؔ‘‘ منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔
صفی اورنگ آبادی راسخ العقیدہ انسان تھے ۔ فکر معاش میں پریشاں و سرگرداں رہتے تھے لیکن اپنے معبود حقیقی کی رزاقیت پر ایمان رکھتے تھے ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں ؏
——
کسی کا رزق رک سکتا نہیں خلاق اکبر سے
صفیؔ پتھر کے کیڑے کو غذا ملتی ہے پتھر سے
——
اگر حصول رزق میں ناکامی ہوتی تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ قناعت پسندی اور توکل کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا ۔
——
ہم کو یہ توکل نے پڑھایا ہے سبق
مل جائے تو روزی ہے نہیں تو روزہ
——
صفیؔ کو اس بات کا احساس تھا کہ زمانہ ان کی اہمیت اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں کرسکا ۔ اپنے اس احساس ناقدری کا ان کو شدت سے احساس تھا ؏
——
صفیؔ بھی کیوں قدر کا طالب ہوا ہے اس زمانے میں
اسے لوگوں سے جیتے جی امید قدر دانی ہے
——
بنیادی طور پر صفیؔ رجائیت پسند اور قانع مزاج کے آدمی تھے ۔ رات کی تاریکی سے وہ مایوس نہیں ہوتے بلکہ سحر ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ زمانے سے شاکی بھی ہیں ؏
——
قدر کرتا ہوں اپنی آپ صفیؔ
ہائے تجھ کر بھی کیا زمانہ ملا
——
انہوں نے کبھی بھی ہار نہیں مانی ۔ وہ ہر شکست کے بعد ایک اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے ۔ ذات باری کی قوت کاملہ پر ان کو کامل بھروسہ تھا ؏
——
ہے زندگی تو پائیں گے اک دن گل مراد
اب کے بہار گر نہیں اب کی بہار پر
——
وقت اور زمانے کی شکایت اردو کے ہر شاعر نے مختلف انداز سے کی ہے لیکن وقت کو برا نہ کہنے کا صفی کا انداز ہی جداگانہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں
——
وقت کو اے صفیؔ برا نہ کہو
وقت پیغمبروں پہ آیا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز کلاسیکل شاعر صفی لکھنوی کا یوم وفات
——
صفیؔ نے 61 برس کی عمر میں رحلت کی ۔ اس طویل عرصہ حیات میں مختلف تحریکیں وجود میں آئیں۔ روایتی غزل گوئی پر اعتراضات ہوئے اور شعر گوئی اور نثر نویسی کے انداز بدلے لیکن صفیؔ نے غزل کی روایات کی تازیست پاسداری کی انھوں نے کسی تحریک کی مخالفت نہیں کی ۔ وہ مختلف الطبع لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے رہے پھر بھی انہوں نے کسی تحریک کے اثر کو قبول نہیں کیا ؏
——
ہے تقاضائے احتیاط یہی
سو میں بیٹھو نہ چھوڑو اپنا رنگ
——
ذیل میں صفیؔ کے چند منتخب اشعار درج کئے جاتے ہیں ؏
——
کس قیامت کی تیری انجمن آرائی ہے
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے
آپ جو مل لیں صفیؔ تو عنایت ہوگی
رحم فرمایئے ، اک شخص تمنائی ہے
——
سب کی عنایتیں ہیں صفیؔ اس کے فضل سے
وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں
——
صفی اورنگ آبادی کاکمال یہی ہے کہ وہ باتوں باتوں میں ’’پتہ کی بات‘‘ کہہ دیتے ہیں ۔ وہ جس رویے کے علمبردار ہیں ، دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے ہیں ۔
——
اللہ کو پکار اگر کوئی کام ہے
غافل ہزار نام کا یہ ایک نام ہے
اب دوست سے غرض ہے نہ دشمن سے کام ہے
دونوں کو دونوں ہاتھوں سے اپنا سلام ہے
ہم کیا ہیں تہمتوں سے پیمبر نہیں بچے
نادان کیا زمانے کے منہ کو لگام ہے
——
تسلسل ، روانی ، ایمائیت اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر صفیؔ کو خوب آتا ہے ۔ وہ لفظوں سے کیفیت کو نمایاں کرنے پر بڑی قدرت رکھتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؏
——
جب کبھی تیری دید ہوتی ہے
ہم غریبوں کی عید ہوتی ہے
جھک کے ملنا بڑی کرامت ہے
اس سے دنیا مرید ہوتی ہے
اچھے گن دیکھ ، اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے
——
یہ بھی پڑھیں :عظیم ناول نگار محی الدین نواب کا یوم پیدائش
——
غزل مسلسل کی روایت کے فروغ میں صفیؔ کو کمال حاصل ہے ۔ قافیہ کوگرمانا اور ردیف کو قافیہ سے پیوست کرکے خیال کو نمایاں کرنے کا فن ، صفیؔ کی شاعری میں اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ۔
——
گھٹا گھنگھور چھائے ، خوب گرجے ، ٹوٹ کر برسے
مرے اللہ وہ جانے نہ پائیں مرے گھر سے
ملے عقبیٰ عبادت سے تو دنیا زور سے زر سے
یہ سب سچ ہے مگر معشوق ملتا ہے مقدر سے
اگر منظور خاطر سختیاں ہی جھیلنی ہوتیں
تمہارے بدلے کرتے دوستی ہم ایک پتھر سے
ارے ناداں سچا چاہنے والا نہیں ملتا
وہ لیلیٰ تھی کہ جس کو مل گیا مجنوں مقدر سے
ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنالیتے ہیں پتھر سے
صفیؔ کو مسکراکر دیکھ لو غصے سے کیا حاصل
اسے تم زہر کیوں دیتے ہو جو مرتا ہے شکر سے
——
آدمی کی حیثیت اور دنیا میں اس کے موقف کو ظاہر کرنے کے لئے بھی صفیؔ کے اپنے کلام کا استعمال کیا ہے ۔ یہ دو اشعار اس حقیقت کی دلالت کرتے ہیں ؏
——
صفیؔ تم نے سنا تھا حشر میں اعمال کا تلنا
قیامت ہے جہاں انسان تلتے ہیں ترازو میں
——
بڑی تعریف سنتے تھے نمائش گاہ عالم کی
یہاں تو کوئی چیز ایسی نہیں ہاں آدمی کچھ ہے
——
صفی اورنگ آبادی احباب پرور طبیعت کے آدمی تھے ۔ ہمیشہ دوست و احباب میں گھرے ہوئے رہتے اور ان کی قدر کیا کرتے تھے ؏
——
جو دوست کی خوشی ہو وہ اپنی خوشی رہے
ہے تو یہی ہے ایک طریقہ نباہ کا
——
صفیؔ اپنے احباب سے اپنا آخری مدعا یوں بیان کرتے ہیں ؏
——
دوستوں سے یہ التجا ہے مری
مغفرت کے لئے دعا کرنا
——
یہ منفرد مزاج کا پرگو ، قلندر صفت شاعر 21 مارچ 1954ء کو دارفانی سے کوچ کرگیا ۔ احاطہ درگاہ حضرت سردار بیگ صاحب واقع بھوئی گوڑہ حیدرآباد میں سپرد خاک ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
——
منتخب کلام
——
ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنا لیتے ہیں پتھر سے
——
مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی
کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی
——
سو سو جواب ہیں تری اک ایک بات کے
انجام پر نظر ہے، جو بنتا ہوں لاجواب
——
میری ہر اک بات قانونِ محبت ہے، مگر
اے صفی! میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہوگیا!
——
سرکار غریبوں میں بھی ہوتے ہیں بڑے لوگ
ایسے نہ کیا کیجیے تحقیر کسی کی
——
صفیؔ ہماری جگہ بھی ہے ان کی محفل میں
ہزار آتے ہیں ایسے ہزار جاتے ہیں
——
چُھٹی امید تو میں حالِ دل کہنے میں کیوں ڈرتا
مثل مشہور ہے سرکار مرتا کیا نہیں کرتا
——
چوٹیں جو کھائیں دل پہ محبت میں کیا کہوں
پتھر پڑے ہیں کیا میری قسمت میں کیا کہوں
——
بڑی تعریف سنتے تھے نمائش گاہِ عالم کی
یہاں تو کوئی چیز ایسی نہیں ، ہاں آدمی کچھ ہے
——
وقت کو اے صفیؔ برا نہ کہو
وقت پیغمبروں پہ آیا ہے
——
یہی آنکھیں ، یہی دل ہے تو بس اللہ ہی حافظ ہے
نہیں معلوم کیا ترکیب ہے دنیا میں جینے کی
——
پیوند زمیں کا نہ بنا دے کہیں مجھ کو
ہر نقش پہ دھوکا ترے نقشِ کفِ پا کا
——
عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
یہ برا کام بھی تو ہوتا ہے
دوستی کچھ مجھی کو تم سے نہیں
یہ مرض عام بھی تو ہوتا ہے
نہیں تکلیف ہی محبت میں
اس میں آرام بھی تو ہوتا ہے
وعدہ کرنے میں پھر تأمل کیا
ہاں تمہیں کام بھی تو ہوتا ہے
رات دن درد ہی نہیں رہتا
دل کو آرام بھی تو ہوتا ہے
نشۂ حسن اور پھر کب تک
بادۂ خام بھی تو ہوتا ہے
نام پر تیرے کیوں نہ آتا پیار
پیار کا نام بھی تو ہوتا ہے
کیا تعجب جو ہو وصال میں وصل
کام میں کام بھی تو ہوتا ہے
اے صفیؔ عاشقی کی یہ تعریف
اور انجام بھی تو ہوتا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سکندر علی وجد کا یومِ وفات
——
دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا
اک ناگوار چیز ہے اب دل نہیں رہا
وہ میں نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا
اب ان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا
کیا التجائے دید کروں دیکھتا ہوں میں
آئینہ بھی ہمیشہ مقابل نہیں رہا
اب وہ خفا ہوئے ہیں تو یوں بھی ہے اک خوشی
مرنا ہمارے واسطے مشکل نہیں رہا
دنیا غرض کی رہ گئی اب اس سے کیا غرض
چلئے کہ لطف شرکت محفل نہیں رہا
سن سن کے اہل عشق و محبت کے واقعات
دنیا کا کوئی کام بھی مشکل نہیں رہا
دنیا کے نیک و بد پہ مری رائے کچھ نہیں
اب تک ادھر خیال ہی مائل نہیں رہا
مجھ سے نہ پوچھو حسرت آرائش جمال
آئینہ بن کے ان کے مقابل نہیں رہا
اک ناامید کے لئے اتنا نہ سوچئے
آزردہ دل رہا بھی تو بے دل نہیں رہا
وہ جان لے چکیں تو کوئی ان سے پوچھ لے
اب تو کچھ اس غریب پہ فاضل نہیں رہا
آیا نہ خواب میں بھی کبھی غیر کا خیال
غفلت میں بھی میں آپ سے غافل نہیں رہا
بے بندگی بھی اس کی رہی بندہ پروری
ملتا رہا اگرچہ میں سائل نہیں رہا
وہ ہاتھ ہیں صفیؔ مجھے اک آستیں کا سانپ
گردن میں دوست کے جو حمائل نہیں رہا
——
کسی دن تو ہمارا درد دل سوز جگر دیکھو
کبھی تو بھول کر آؤ کبھی تو پوچھ کر دیکھو
نہ دیکھو دوست بن کر تم تو دشمن کی نظر دیکھو
خفا ہو کر بگڑ کر روٹھ کر دیکھو مگر دیکھو
نہیں بھرتی طبیعت لاکھ دیکھو عمر بھر دیکھو
خدا کی شان ہے ایسے بھی ہوتے ہیں بشر دیکھو
کسی کو جب سے دیکھا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا
ہوئی میری نظر کو دوستو کس کی نظر دیکھو
ترستی ہیں یہ آنکھیں دیکھنے کو دل تڑپتا ہے
زیادہ سے زیادہ مختصر سے مختصر دیکھو
مقدر سے نبھی تم ایک گویا بھولے بھالے تھے
کوئی ظالم سے ظالم فتنہ گر سے فتنہ گر دیکھو
کہی ہیں ہم نشینو دل لگی میں تم نے جو باتیں
انہیں سچ مچ پہنچ جائے نہ یہ جھوٹی خبر دیکھو
پھر اس پر نکتہ چیں ہے نکتہ داں ہے شیخ لوگوں میں
اناڑی پڑھ رہا ہے دخت رز کو دخت زر دیکھو
کوئی بیتاب کوئی مست کوئی چپ کوئی حیراں
تری محفل میں گویا اک تماشا ہے جدھر دیکھو
تمہاری بزم بات انسانیت کی پھر رقیبوں میں
بھرے ہیں آدمی کی صورتوں کے جانور دیکھو
نہ ہو جو بندہ پرور بندگی کو بندگی اس کی
جناب دل خدا رزاق کوئی اور گھر دیکھو
نہیں از روئے قانون محبت جرم نظارہ
تو پھر کیوں ہیں جناب دل اگر دیکھو مگر دیکھو
اسے دیکھا ہے جس کے دیکھنے کو لوگ مرتے ہیں
نظر بازو ہماری بھی ذرا حد نظر دیکھو
صفیؔ کو شاعری سے مل گئی ہر دل عزیزی بھی
دروغ مصلحت آمیز بھی ہے کیا ہنر دیکھو
——
وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے
محبت کرنے والا ہر طرح مجبور ہوتا ہے
جہاں جاتے ہیں ہم اس کی گلی سے ہو کے جاتے ہیں
اگرچہ راستہ اس راستے سے دور ہوتا ہے
نہیں رکتے گھڑی بھر طالب دیدار کے آنسو
یہ ظالم شوق گویا آنکھ کا ناسور ہوتا ہے
کوئی مجنوں کی عزت عشق کی سرکار میں دیکھے
بڑی خدمت پہ ایسا آدمی مامور ہوتا ہے
حسینوں کا تنزل بھی نہیں ہے شان سے خالی
بڑھاپے میں بھی ان لوگوں کے منہ پہ نور ہوتا ہے
وہ ایسی خندہ پیشانی سے ہر معروضہ سنتے ہیں
یہ سمجھے عرض کرنے والا اب منظور ہوتا ہے
تجھے مشہور ہونا ہو تو عاشق کی برائی کر
برائی سے بہت جلد آدمی مشہور ہوتا ہے
ہمارے گھر وہ آ کر تھک گئے ہاں کیوں نہ تھک جاتے
نیا رستہ جو ہو نزدیک بھی تو دور ہوتا ہے
جو تم وابستۂ دامن کو سمجھے داغ بدنامی
تو اب کیا دور کر سکتے ہو اب یہ دور ہوتا ہے
بڑا احسان ہوگا میرے دل کا خون کر ڈالو
یہی مجبور کرتا ہے یہی مجبور ہوتا ہے
مجھے تم جانتے ہو عقل سے معذور ہاں بے شک
محبت کرنے والا عقل سے معذور ہوتا ہے
حسین ہر ایک ہو سکتا نہیں بے شک صفیؔ بے شک
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے
——
اسے کیا رات دن جو طالب دیدار پھرتے ہیں
غرض ہے تو غرض کے واسطے سو بار پھرتے ہیں
ادھر دیکھو بھلا ہم کو زمانہ کیا نہیں کہتا
تو کیا ہر ایک سے کرتے ہوئے تکرار پھرتے ہیں
جو اب وحشت نہیں بھی ہے تو اپنی چال کیوں چھوڑیں
جدھر جی چاہے دن بھر رات بھر بے کار پھرتے ہیں
تری خاطر محبت ہو گئی ہے دل کی وحشت سے
ہمیں آوارہ پن پر آ گیا ہے پیار پھرتے ہیں
تڑپنے لوٹنے کی آج ان تک بھی خبر پہنچی
مجھے بدنام کرنے کو مرے غم خوار پھرتے ہیں
اسے ہم مانتے ہیں تو زمانے بھر سے اچھا ہے
مگر اچھے بھی اپنے قول سے اے یار پھرتے ہیں
سمجھتے ہیں سمجھنے والے اس کو بھی ریا کاری
گلی کوچوں میں کیوں تیرے ستم بردار پھرتے ہیں
تمہیں افسوس کیوں ہے عاشقوں کی کوچہ گردی پر
پھراتا ہے مقدر یہ خدائی خار پھرتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو اک روز تم بھی ہم سے پھر جاؤ
یہاں پہلے ہی اپنی جان سے بیزار پھرتے ہیں
وہ دل کی آرزو اب ہے نہ اس کی جستجو اب ہے
ہمارے پاؤں میں چکر ہے ہم بے کار پھرتے ہیں
کسی کافر کا گھر تھا یا نہیں معلوم جنت تھی
ابھی تک میری آنکھوں میں در و دیوار پھرتے ہیں
زمانے سے نرالا ہے چلن ان حسن والوں کا
لقب تو قاتل عالم ہے بے تلوار پھرتے ہیں
صفیؔ کو تم نے تو کوئی بڑا پہنچا ہوا سمجھا
اجی رہنے بھی دو ایسے بہت مکار پھرتے ہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ