آج ممتاز مرثیہ گو شاعر ساحر لکھنوی کا یومِ پیدائش ہے ۔

(پیدائش: 5 ستمبر 1931ء – وفات: 25 نومبر 2019ء)
——
ساحر لکھنوی کی پیدائش 5 ستمبر1931ء میں کراچی میں ہی ہوئی تھی جب ان کے والدین کربلائے معلی و دیگر شعائراللہ کی زیارت کے سفر پر تھے۔
ساحر لکھنوی کا تعلق مجدد شریعت سید دلدار علی غفران مآب کے چھوٹے بیٹے سید العلماء مولانا سید حسین علین مکاں کی نسل سے تھا ۔
وہ نواب سید اصغر حسین فاخرؔ لکھنوی کے پرپوتے اور نواب سید اختر حسین مصورؔ لکھنوی کے فرزند تھے۔ ساحر لکھنوی کے نانا سید محمد ذکی ہاتفؔ لکھنوی بھی خود ایک مشہور شاعر تھے۔
ساحرؔ لکھنوی نے دنیاوی تعلیم میں ایم اے ، ایل ایل بی، ڈی آئی ایل ایل کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ ساحر لکھنوی ایک بین الاقوامی صنعتی ادارے میں پرسنل اینڈ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے 1993 تک مصروف کار رہے
انہوں نےاپنی شاعری کی ابتدا سلام سے کی ، غزل ساتھ ساتھ چلتی رہی جسے انہوں نے جلد ہی ترک کر دیااور انتقال سے قبل تک انہوں نے قصیدہ و منقبت، سلام و رباعیات، مرثیہ گوئی اور تاریخ گوئی وغیرہ پر توجہ دی۔ان کے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ساحر کی شخصیت میں لکھنؤ بالخصوص خاندان اجتہاد کی انکسار و خاکساری اور بزرگوں کا ادب گھٹی میں پڑا تھا۔مرحوم کا خانوادہ شعر وسخن کی خوشبو سے بسا ہوا تھا۔ان کے والد ، چچا اور پھوپھیاں وغیرہ بھی ذوق شاعری رکھتی تھیں۔اس طرح سے ساحرؔ کی پرورش ایک خاص ادبی ماحول میں ہوئی تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے صاحب طرز شاعر ‘شاعر لکھنوی’ کا یوم پیدائش
——
ساحرؔ لکھنوی کا پہلا مرثیہ ’مرثیہ قطب شاہ سے ساحرؔ تک‘پہلی بار شائع ہوا جس میں انہوں نے مرثیہ کی تاریخ کو نظم کیا۔ ساحرؔ لکھنوی کی متعدد مطبوعات نے مقبولیت حاصل کی جن میں ’علم اور علما، فقہ و شمشیر، آیات درد، صحیفۂ مدحت، ایمانی شہ پارے، فنِ تاریخ گوئی کا تنقیدی جائزہ، یقین کامل، احساس غم، لہو رنگ صحرا، خانوادۂ اجتہاد کے مرثیہ گو، اور وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
سید قائم مہدی ساحرؔ لکھنوی نے اپنی شاعری کی ابتداء لکھنؤ سے ہی کی تھی اور انہوں نے حسینی شاعر فضل نقوی کو اپنا کلام بغرض اصلاح دکھانا شروع کیا۔ ساحر لکھنوی کا تعلق چونکہ علمی خانوادے سے تھا اس لئے ان کو شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے میں دیر نہیں لگی اور بہت جلد وہ رثائی ادب کے فلک پر چھا گئے۔ انہوں نے سیکڑوں مراثی نظم کیے اور متعدد کتابوں کی تصنیف کی۔
ساحرؔ لکھنوی نے اپنے ایک مضمون میں یہ افسوس کے ساتھ اظہار کیا تھا کہ ’’…بدقسمتی سے میں خاندانِ اجتہاد کا آخری مرثیہ گو ہوں افسوس کہ تقریباً سوا سو سال پر محیط اس عظیم خاندان کی مرثیہ گوئی کی روایت میرے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ ہر عہد اور ہر دور کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے … میں اپنے آپ کو اس عظیم خانوادے کا آخری مرثیہ گو سمجھتا ہوں یہ حقیقت ہے کہ شاعری تو خاندان سے ختم نہیں ہوئی ہے مگر میری چشم تصور میں دور دور تک خاندان میں کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جس سے مرثیہ گوئی کی توقع کی جا سکے۔
ساحر لکھنؤ کی نماز جنازہ مولانا سید حسن ظفر نقوی کی امامت میں ادا کی گئی۔ مرحوم کی تدفین کراچی کے قبرستان وادیٔ حسین میں کثیر مجمع کی موجودگی میں عمل میں آئی، اس موقع پرعلماء، دانشور، ادباء اعزاء و اقارب بھی موجود تھے۔
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
رسول حق سبب خلقت دوعالم تھے
جہاں ظلم میں اک رحمت مجسم تھے
ہر آدمی کے لیے زخم دل کا مرحم تھے
کرم کا بحر تھے لطف و عطا کا زم زم تھے
ستمگروں کو تحمل کی حد دکھاتے تھے
وہ ظلم کرتے تھے ان پر، یہ مسکراتے تھے
ہوئے تھے ظلم میں کچھ اہل ظلم یوں بے باک
طرح طرح سے ستاتے تھے آپ کو سفاک
کبھی بچھاتے تھے رستے میں خار وحشت ناک
کبھی گراتے تھے آلائش و خس و خاشاک
یہ زیر کرتے تھے یوں خلق سے شقاوت کو
وہ ظلم کرتے تھے جاتے تھے یہ عیادت کو
——
منزلیں پاؤں پکڑتی ہیں ٹھہرنے کے لیے
شوق کہتا ہے کہ دو چار قدم اور سہی
——
کیوں میری طرح راتوں کو رہتا ہے پریشاں
اے چاند بتا کس سے تری آنکھ لڑی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کا یومِ وفات
——
کل تو اس عالم ہستی سے گزر جانا ہے
آج کی رات تری بزم میں ہم اور سہی
——
خندۂ گل سے ساحرؔ نہ بہلیں گے ہم
تازہ دم میں جنوں کے ابھی ولولے
——
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے، وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پا گئے، جو بہک بہک کے سنبھل گئے
——
یہ عدل ہے کہ رہے تیغ دستِ منصف میں
یہ ظلم ہے کہ قلم دستِ بے ہنر میں رہے
——
یہ بات عام روش کے خلاف کرتا ہوں
میں اپنے جہل کا خود اعتراف کرتا ہوں
——
تپ کے کندن کی مانند نکھرا جنوں
جس قدر غم بڑھا بڑھ گئے حوصلے
وقت مجھ سے مرا حافظہ چھین لے
آگ میں کوئی یادوں کی کب تک جلے
——
بلبل نوید لائ پھولوں کى تشترى میں
دسویں بہار آئ صحراۓ زندگى میں
گلشن میں گھومتى ہے شاخوں پہ جھومتى ہے
پھولوں کو چومتى ہے، بادِ سحر خوشى میں
مثلِ صبا پکاروں جاکر گلى گلى میں
فصلِ بہار آئ باغِ محمدى میں
جلوه فگن ہے کوئ پھر صورتِ على۶ میں
پھر کھلبلى مچى ہے اربابِ خیبرى میں
نورِ رخِ نقى۶ ہے یوں دامنِ تقى۶ میں
جیسے کھلے کنول سا اک پھول چاندنى میں
شاہوں کو راس آئ در کى تیرے گدائ
جبریل۶ کى سعادت اس گھر کى چاکرى میں
اِن کى وِلا عبادت، اِن کى ثناء عبادت
مصروفِ بندگى ہوں مداحى نقى میں
اعجاز منقبت سے ساحر سا بے ہنر میں
جادو جگا رہا ہے اس رنگِ شاعرى میں
——
فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے
ہم جلیں تم جلو ساری دنیا جلے
تپ کے کندن کی مانند نکھرا جنوں
جس قدر غم بڑھا بڑھ گئے حوصلے
دل میں پھیلی ہے یوں روشنی یاد کی
جیسے ویران مندر میں دیپک جلے
جشن سے میری بربادیوں کا چلو
دوستو آؤ شیشے میں شعلہ ڈھلے
ہر نفس جیسے جینے کی تعزیر ہے
کتنے دشوار ہیں عمر کے مرحلے
ہم الجھتے رہے فلسفی کی طرح
اور بڑھتے گئے وقت کے مسئلے
موڑ سکتے ہیں دنیا کا رخ آج ہی
آپ سے کچھ حسیں ہم سے کچھ منچلے
وقت مجھ سے مرا حافظہ چھین لے
آگ میں کوئی یادوں کی کب تک چلے
خندۂ گل سے ساحرؔ نہ بہلیں گے ہم
تازہ دم میں جنوں کے ابھی ولولے
——
لو آگیا زمیں پہ وه مظلومِ کربلا
لو سجدۂ خدا میں وه سر کو جھکا دیا
لو گھٹ رہا ہے خنجر و گردن کا فاصلا
بى بى وه اک تڑپ کے نکل آئ بے ردا
مقتل کى راه ٹھوکریں کھانے میں کٹ گئ
آکر بہن شقى کى چھرى سے لپٹ گئ
کہنے لگى تڑپ کے یہ ظالم سے، ٹہر جا
لللّه، اب تو ظلم و تعدى سے ہاتھ اٹھا
اس وقت تو خدا کے لیۓ یہ ستم نہ ڈھا
بھیا کو میرے چھوڑ دے، مجھ پر چھرى چلا
بھائ ہے میرا مادر ذى شان کى گود میں
بیٹے کو تو شہید نہ کر ماں کى گود میں
ظالم نے ایک بھى نہ سنى اس غریب کى
لو آستیں الٹ کے جفا کو بڑھا شقى
لو زلزلہ وه آنے لگا، وه چھرى چلى
فریاد یا محمد و فریاد یا علیؑ
زہراؑ پکاریں، ہاۓ مرا لال مر گیا
انسانیت کے قلب میں خنجر اتر گیا