اردوئے معلیٰ

آج پاکستان کے معروف شاعر اور نغمہ نگار سیف الدین سیف کا یومِ وفات ہے۔

سیف الدین سیف(پیدائش: 20 مارچ، 1922ء – وفات: 12 جولائی، 1993ء)
——
سیف الدین سیف 20 مارچ، 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر، برطانوی ہندوستان کے ایک معزز اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آباء و اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام خواجہ معراج دین تھا جو ایک نیک صفت اور درویش منش آدمی تھے۔ سیف الدین سیف کی عمر جب ڈھائی برس ہوئی تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی لیکن میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر کالج پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نے علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔
سیف الدین سیف ایف اے کرنے کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور فلمی دنیا کے چند لوگوں کے کہنے پر فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور کی فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ 1954ء میں انہوں نے اپنا ذاتی ادارہ راہ نما فلمز قائم کیا۔ انہوں نے جن فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے ان میں ہچکولے، امانت، نویلی دلہن، غلام، محبوبہ، آغوش، آنکھ کا نشہ، سات لاکھ، کرتار سنگھ، طوفان، قاتل، انتقام، لخت جگر، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، عذرا، تہذیب، انارکلی، انجمن، شمع پروانہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ انہوں نے خود بھی فلمیں بنائیں جن میں سات لاکھ اور کرتار سنگھ شامل ہیں۔
ان کے کچھ مشہور نغمات میں یہ ہیں:
——
جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے (انارکلی)
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے (لخت جگر)
چل ہٹ ری ہوا گھونگھٹ نہ اٹھا (مادر وطن)
جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہیں (ثریا بھوپالی)
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا (شمع اور پروانہ)
اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے (انجمن)
جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں (امراؤ جان ادا)
آئے موسم رنگیلے سہانے تو چھٹی لے کے آجا بالما (سات لاکھ)
——
انہوں نے فلم نگری میں رہنے کے باوجود ادب سے اپنا رابطہ بحال رکھا اور گیتوں کے ساتھ ساتھ نظمیں اور غزلیں بھی تخلیق کرتے رہے۔ سیف الدین سیف کی شاعری سماج کے مسائل اور زندگی کے حقائق کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کرنے بدرجہ اتم کمال رکھتی ہے۔ وہ غم کی عکاسی بہت ہی مکمل اور متوازن انداز میں کرتے ہیں۔ وہ ندرت افکار کے بیان کے لیے ندرت الفاظ کا انداز اپنا کر معنی آفرینی کی ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں سحر کاری اور دلکشی پیدا ہوئی ہے۔ اس خوبصورت شاعر کی غزلوں اور گیتوں کی گونج ہمیشہ ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ سیف الدین سیف کے فن و شخصیت پر روبینہ شائستہ نے شاعر کج کلاہ کے نام سے ایک طویل مقالہ لکھا تھا جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری کے مجموعہ کلام میں خم کاکل ، کف گل فروش اور دور دراز شامل ہیں۔ نغمات کے علاوہ ان کی غزلوں پر بھی مختلف گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جن میں استاد امانت علی خان اور استاد نصرت فتح علی خان کے نام سرِ فہرست ہیں۔
——
تصانیف
——
خمِ کاکل
دوردراز
کفِ گل فروش
——
وفات
——
سیف الدین سیف 12 جولائی، 1993ء کو لاہور، پاکستان میں انتقال کرگئے اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
گیت، مکالمہ و کہانی نگار، ہدایتکار اور فلمساز سیف الدین سیف از شاہد لطیف
——
18 جون 1959 سے مسلسل 3 سال بھارتی پنجاب میں چلنے والی فلم ” کرتار سنگھ“ کے خالق، پہلے بہترین فلمساز کا نگار ایوارڈ پانے والے۔
نام سیف الدین اور تخلص سیفؔ، 20 مارچ 1922 کو امرتسرکے ایک معزز ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار دیا اور اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیاجہاں محمد دین تاثیر پرنسپل اور انگریزی کے استاد فیض احمد فیضؔ تھے۔ ان دونوں کی قربتوں نے سیفؔ میں علمی اور ادبی ذوق بیدار کیا لیکن بعض سیاسی اور مذہبی مسائل میں الجھنے کی بنا پر انہیں امتحان دینے سے روک دیا گیا۔ اس وجہ سے سیفؔ نے تعلیم سے مونہہ موڑ لیا اور تلاش معاش میں سرگرداں ہو گئے۔ اس پس منظر میں 1946 میں فلمی لائن اختیار کی اور فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔
افسوس کہ بر صغیر کی تقسیم کی وجہ سے ان کی لکھی ہوئی فلمیں نمائش کے لئے پیش نہ ہو سکیں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ ہجرت کر کے لاہور آ گئے اور پھر یہیں سے اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں فلمی کہانیوں کے ساتھ ساتھ نغمہ نگاری اور مکالمے لکھنا بھی ان کی روزی کا ذریعہ بن گیا۔
سیف الدین سیف کے چند مشہور گیت
” جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے، قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے“ ۔ یہ گیت سید امتیاز علی تاج کے ناول (اشاعت 1922 ) پر مبنی نگار پکچرز کے فلمساز مختار احمد اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم ’انار کلی‘ ( ( 1958 کا ہے۔ اس کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی اور آواز نورجہاں کی تھی۔ ”وہ خواب سہانہ ٹوٹ گیا۔“ فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایتکار لقمان کی فلم ’لخت جگر‘ ’( 1956 ) ، موسیقی جی اے چشتی آواز نورجہاں۔
”چل ہٹ ری ہوا، گھونگھٹ نہ اٹھا۔“ ۔ فلمساز و ہدایتکار سیف الدین سیف کی فلم‘ مادر وطن ’( 1966 ) موسیقی سلیم اقبال صاحبان، آواز نورجہاں۔ ”جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہیں۔“ فلمساز حسن شاہ اور ہدایتکار حسن طارق کی فلم‘ ثریا بھوپالی ’( 1976 ) موسیقی اے حمید، آواز ناہید اختر۔ ”میں تیر ے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے۔“ ۔ مشترکہ فلمساز نورالدین کسیٹ اور حسن طارق اور ہدایتکار حسن طارق کی سلور جوبلی فلم‘ شمع اور پروانہ ’( 1970 ) موسیقی نثار بزمی آواز مجیب عالم۔ ”اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔“ ۔ فلمساز رابعہ حسن اور ہدایتکار حسن طارق کی گولڈن جوبلی فلم‘ امراؤ جان ادا ’( 1972 ) موسیقی نثار بزمی، آواز نورجہاں۔ ”جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔“ ۔ فلمساز و ہدایتکار ڈبلو زیڈ احمد کی سلور جوبلی فلم‘ وعدہ ’( 1957 ) موسیقی رشید عطرے، آواز شرافت علی۔
مقبولیت کے حوالے سے فلمساز آگا جی اے گل اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی سلور جوبلی یادگار فلم ”گمنام ’‘ ( 1954 ) میں ان کا یہ سپر ہٹ گیت بہت اہم ہے : ’تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔‘ یہ گلوکارہ اقبال بانو کا پہلا فلمی گیت ہے جس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی۔ میری رائے میں اسی گیت نے اقبال بانو کو اقبال بانو بنا یا۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ سیفؔ صاحب کے اندر کے شاعر کو آسمان شہرت کی بلندیوں پر لے جانے والا بھی یہی گیت ہے۔
اس گیت نے بھارت میں جا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ گیت کی مقبولیت کے بعد سیف الدین سیفؔ نے فلمسازی کا ادارہ ’راہ نما فلمز‘ قائم کر لیا۔ اس ادارے سے سیف ؔصاحب نے بطور فلمساز 1954 میں اپنی پہلی فلم ’رات کی بات‘ بنائی جس کی ہدایات انور کمال پاشا اور موسیقی ماسٹر عنایت حسین کی تھی۔ اداکاروں میں صبیحہ، سنتوش اور علا الدین وغیرہ شامل تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی۔ سیفؔ مایوس نہیں ہوئے۔
ان کی 1957 میں بننے والی اگلی فلم ’سات لاکھ‘ نے اپنے نام کی طرح کامیاب ہو کر ادارے پر واقعی لاکھوں کی برسات کر دی۔ اس فلم کے فلمساز، کہانی نگار اور نغمہ نگار سیف الدین سیف ؔ ہی تھے جب کہ ہدایات جعفر ملک نے دیں۔ یہ وہی جعفر ملک ہیں جو فلم“ گمنام ”میں انور کمال پاشا کے معاون تھے۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات حسن طارق ہیں جنہوں نے فلم ’سات لاکھ‘ بننے میں تقریباً ہر ایک شعبے او ر مرحلہ میں سیفؔ صاحب کی معاونت کی۔ مجھے یہ بات علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے بتائی، جو خود بھی اس فلم کے ہر مرحلہ میں حسن طارق کے ساتھ رہے۔ مذکورہ فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ مذکورہ فلم کے یہ گانے سپر ہٹ ہوئے : ’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے۔‘ آواز زبیدہ خانم، ’گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں
۔ ’آواز زبیدہ خانم،‘ یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ ’آواز سلیم رضا اور‘ قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے۔ ’آواز منیر حسین۔ اس فلم کو 1957 کی بہترین فلم ہونے کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ مجموعی طور پراس فلم نے 1957 کے 5 نگار ایوارڈ حاصل کیے : سیف الدین سیفؔ بہترین کہانی نگار، بہترین اداکارہ صبیحہ خانم، بہترین فلمساز سیف الدین سیفؔ، بہترین معاون اداکارہ طیبہ بانو المعروف نیئرسلطانہ، بہترین موسیقار رشید عطرے۔ سیفؔ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں پہلے بہترین فلمساز کا نگار ایوارڈ ملا۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
فلم ”کرتار سنگھ“
18 جون 1959 کو عید الاضحیٰ کے موقع پر پاکستان اوربھارتی پنجاب میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی پنجابی فلم ’کرتار سنگھ‘ پہلی پاکستانی فلم تھی جس میں سکھ کرداروں کو پیش کیا گیا۔ یہ فلم تحریک آزادی ہندکے ہیرو کرتار سنگھ پر مبنی تھی۔ یہ کردار اداکار علا الدین نے ادا کیا۔ مذکورہ فلم کی نمائش بھارتی پنجاب کے سنیما گھروں میں 3 سال تک جاری رہی۔ یہ فلم پاکستان میں پنجابی فلموں میں ایک تاریخ ساز فلم سمجھی جاتی ہے۔
اس فلم کے مصنف، مکالمہ نگار، فلمساز اور ہدایتکار خود سیف الدین سیفؔ تھے۔ مذکورہ فلم میں سیفؔ صاحب کے علاوہ بھارتی پنجاب کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم اور پاکستان کے شاعر وارثؔ لدھیانوی نے بھی گیت لکھے جبکہ ان سپر ہٹ گیتوں کے موسیقار دو سگے بھائیوں کی جوڑی سلیم اور اقبال المعروف سلیم اقبال تھے۔ فلم ’کرتار سنگھ‘ کے تقریباً سب ہی گیت بہت مقبول ہوئے لیکن وارث ؔلدھیانوی کا لکھا ایک گیت تو مقبولیت کے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ گیا: ’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔‘ ۔ فلم کو بنے آج 61 سال ہو رہے ہیں لیکن پاکستان، بھارت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، مملکت کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں مہندی اور شادی کے موقعوں پر، لڑکیاں بالیاں اور ہر عمر کی خواتین آج بھی لہک
لہک کر یہ گیت گاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میوزیشنز اس گیت کی دھنیں ایسی محفلوں میں بجا کر عوام سے داد وصول کرتے ہیں۔ میں خود بھی اس صف میں شامل رہا ہوں۔ اس معرکۃ الآرا گیت کے علاوہ یہ گیت بھی مقبول رہے : ’اج اکھاں وارث شاہ نوں۔‘ شاعرہ امرتا پریتم آوازیں زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی۔ ’اج مک گئی اے غماں والی شام۔‘ گیت نگار سیفؔ آوازیں سلیم رضا اور عنایت حسین بھٹی، ’ماہی نی تینوں لے جاناں نی گوریے۔‘ گیت وارث ؔلدھیانوی آوازیں زبیدہ خانم اور نسیم بیگم۔
1962 میں فلمساز کی حیثیت سے انہوں نے فلم ”دروازہ“ بنائی جس کے گیت نگار اور ہدایتکار وہ خود تھے اور موسیقار سلیم اقبال۔ اس فلم کے ستارے نیلو، یوسف خان، لیلیٰ، صبا، نذر اور سلطان راہی وغیرہ تھے۔ باکس آفس پر یہ اوسط درجے کی فلم رہی البتہ یہ ایک یادگار فلم ہے کیوں کہ اس میں استاد امانت علی خان نے پہلی مرتبہ فلمی نغمہ سرائی کی: ’پیا نہیں آئے۔‘ یہ دوگانا تھا جو انہوں نے نورجہاں کے ساتھ ریکارڈ کروایا۔ مذکورہ فلم کا ایک اور گیت بھی سپر ہٹ تھا: ’چھپ گئے ستارے ندیا کنارے، تم نہیں آئے۔‘ آواز نسیم بیگم۔ ایک اور دوگانا بھی مشہور ہوا: ’اب ڈر کاہے کا، گھونگھٹ کے پٹ کھول دے۔‘ آوازیں فضل حسین اور نسیم بیگم۔ فضل حسین نے فلموں میں کم گایا ہے لیکن جو گایا وہ اکثر مقبول ہوا۔ دیگر گلوکاروں میں ناہید نیازی اور سلیم رضا شامل ہیں۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’مادر وطن‘ کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ 1966 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اداکاروں میں دیبا، محمد علی، زینت، طالش، نعیم ہاشمی، شیخ اقبال، رنگیلا، مظہر شاہ، منور ظریف، خلیفہ نذیر اور البیلا وغیرہ تھے۔ اس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار سیف صاحبؔ خود تھے۔ مذکورہ فلم میں گیت نگار مشیر ؔکاظمی کے نام کو دوام بخشنے والا ا گیت ہے جو سیفؔ صاحب نے ان سے لکھوایا : ”اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔“ ۔ اس گیت نے مشیرؔ کاظمی اور اس گیت کی گلوکارہ نسیم بیگم کو لازوال شہرت بخشی۔ گیت نگار اور گلوکارہ کو دوام بخشنے میں موسیقار بھائیوں کی جوڑی سلیم اقبال کا بھی برابر کا حصہ ہے جو ان کو کبھی نہیں دیا گیا۔
پاکستانی سماج میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بد عنوانی / کرپشن کو موضوع بناتے ہوئے سیف الدین سیفؔنے 1967 میں پنجابی فلم ”لٹ دا مال“ بنائی۔ اداکاروں میں فردوس، اکمل، مظہر شاہ، سلونی، آصف جاہ، رنگیلا، عالیہ، البیلا وغیرہ تھے۔ مذکورہ فلم کے فلمساز، کہانی و نغمہ نگار اور ہدایتکار سیفؔ صاحب خود تھے۔ جبکہ موسیقار سلیم اقبال اور گلوکار مالا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، آئرین پروین، سلیم رضا، مسعود رانا، فضل حسین اور شوکت علی تھے۔
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حسن طارق فلم ”سات لاکھ“ میں معاون ہدایتکارکی حیثیت سے فلم کے تمام شعبوں میں سیکھنے کی غرض سے سیفؔ صاحب کے ساتھ ساتھ تھے لہٰذا ان کی سیفؔ صاحب سے ذہنی ہم آہنگی ہو گئی۔ آگے چل کر جب حسن طارق ہدایتکار بن گئے تو اپنی کئی ایک فلموں کی کہانیاں اور مکالمے سیف الدین سیفؔ سے لکھوائے : مثلاً سوال ”جس کی کہانی اور منظر نامہ انہوں نے لکھا جب کہ مکالمے علی سفیان آفاقیؔ اور ریاض شاہد نے اور موسیقی رشید عطرے کی تھی۔
فلم ”امراؤ جان ادا“ اور سیفؔ صاحب لازم و ملزوم ہیں۔ وہ اس فلم کے کہانی نگار، گیت اور مکالمہ نگارتھے۔ بعض احباب ’‘ بھارتی امراؤ جان ادا ”کا اس سے مقابلہ کرتے ہیں جو 1981 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ یہ فلم بڑی کاسٹ اور خطیر خرچے سے تیار ہوئی اور یہ بھی دیکھے جانے کے قابل ہے۔ ان دونوں فلموں کا کوئی موازنہ نہیں۔ رانی، طالش، شاہد اور
علا ؤ الدین کی جان دار اداکاری، نثار بزمی صاحب کی دل کے تاروں کو ہلاتی ہوئی موسیقی، حسن طارق کی حقیقت سے قریب تر ہدایتکاری، نورجہاں، رونا لیلیٰ، احمد رشدی وغیرہ کی گلوکاری کا جادو اور سیفؔ صاحب کی کہانی اور موقع کی مناسبت سے زور آور مکالموں نے ایسا رنگ جمایا۔ میری ان سطور کے پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر یہ دونوں فلمیں دیکھ کر خود فیصلہ کریں۔
ابتدائی زمانے میں پاکستانی فلمی صنعت کو اپنے پیروں پہ کھڑے کرنے والوں میں بجا طور پر سیف الدین سیفؔ کا نام شامل ہے۔ انہوں نے اپنی بنائی ہوئی فلموں اور دوسرے فلمسازوں کے لئے مکالمے، منظر نامے، گیت اور کہانیاں لکھیں۔ ایک دو فلموں کو چھوڑ کر اپنی فلموں کی ہدایتکاری بھی کی۔ راقم نے سیفؔ صاحب کی معرکۃ الآرا فلمیں بغور دیکھیں ہیں۔ ان کے علاوہ ماضی میں میری موسیقار نثار بزمی، مسرورؔ بھائی المعروف مسرورؔ انور، آفاقیؔ صاحب، 70 کی دہائی کے گراموفون کمپنی آف پاکستان EMI کراچی اسٹوڈیو کے چیف ساؤنڈ انجینئیر عزیز صاحب اور نگار ایوارڈ یافتہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ جناب سی منڈوڈی صاحب سے سیف الدین سیفؔ سے متعلق کافی گفتگو رہی۔ اس سے میں نے یہ رائے قائم کی کہ سیف الدین سیفؔ ایک ہمہ صفت شخصیت تھے لیکن ان کی تمام صفات میں نمایاں تر ان کی شاعری ہے جو فلموں کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی مقبول ہے جن میں نظمیں، گیت اور غزلیں سب شامل ہیں۔
ادبی گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کو کمسنی ہی سے شعر و سخن سے دلچسپی رہی۔ انہوں نے غزل، رباعی، طویل اور مختصر نظمیں اور گیت لکھے۔ مگر غزل سے فطری لگاؤ تھا۔ ”خم کاکل“ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ ہے جو نظم اور غزل کا امتزاج ہے۔ اس میں چند فلمی گیت اور غزلیں بھی شامل ہیں مثلا: ”رات کی بے سکوں خاموشی میں رو رہا ہوں کہ سو نہیں سکتا۔“ فلم ”سوال“ ( 1966 ) ۔ اس کو مہدی حسن نے رشید عطرے کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا تھا۔ یہ سننے کے لائق گیت ہے۔ ”آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں۔“ فلم ’‘ طوفان ”( 1955 ) اسے فضل حسین نے موسیقار رشید عطرے کی دھن پر گایا تھا۔
” کف گل فروش“ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔
سیفؔ کے تیسرے مجموعہ کا نام ”دور دراز“ ہے۔
——
منتخب کلام
——
سیف انداز بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
——
جاتے ہی ان کے سیفؔ شبِ غم نے آ لیا
رخصت ہوا وہ چاند ستارے چلے گئے
——
پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی
——
ان کا آنا محال سا کچھ ہے
پھر بھی اک احتمال سا کچھ ہے
جانے کیا سوچتا ہوں رک رک کر
ہر قدم پر سوال سا کچھ ہے
——
ہر اک چلن میں اسی مہرباں سے ملتی ہے
زمیں ضرور کہیں آسماں سے ملتی ہے
——
اب دیدۂ پرنم کی حقیقت کیا ہے
تو ہے تو مرے غم کی حقیقت کیا ہے
اک جام اگر حسنِ ادا سے مل جائے
افکارِ دو عالم کی حقیقت کیا ہے
——
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کر روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہل دل ھو کہ فسانہ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کیحسرت
جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے
جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے
——
مسجد و منبر کہاں ، میخوار و میخانے کہاں
کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں
یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وسعتیں
حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں
میں بہت بچ بچ کے گزرا ہوں غمِ ایام سے
لُٹ گئے تیرے تصور سے پری خانے کہاں
یہ بھی تیرے غم کا اِک بدلا ہوا انداز ہے
میں کہاں ورنہ غمِ دوراں کہاں
بزم سے وحشت ہے، تنہائی میں جی لگتا نہیں
اب کِسی کی یاد لے جائے خدا جانے کہاں
سیف ہنگامِ وصال آنکھوں میں آنسو آگئے
یاد آئے اُن کی بے مہری کے افسانے کہاں
——
ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا
حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیفؔ یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا
——
جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں
پھر کہاں ڈھونڈنے جائیں گے تمہیں
تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو
لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں
حسرتو ! دیکھو یہ ویرانہ دل
اِس نئے گھر میں بسائیں گے تمہیں
میری وحشت، مرے غم کے قصے
لوگ کیا کیا نہ سنائیں گے تمہیں
آہ میں کتنا اثر ہوتا ہے
یہ تماشا بھی دکھائیں گے تمہیں
آج کیا بات کہی ہے تم نے
پھر کبھی یاد دلائیں گے تمہیں
سیف یوں چھوڑ چلے ہو محفل
جیسے وہ یاد نہ آئیں گے تمہیں
——
آپ اپنی آرزو سے بیگانے ہو گئے ہیں
ہم شوق ِ جستجو میں دیوانے ہو گئے ہیں
فرقت میں جن کو اپنا کہہ کہہ کر دن گزارے
وہ جب سے مل گئے ہیں بیگانے ہو گئے ہیں
کہتے ہیں قصہ غم ہر انجمن میں جا کر
ہم اہل دل بھی کیسے دیوانے ہو گئے ہیں
آنکھوں سے جو نہاں تھے ار دل میں کارفرما
وہ راز ہوتے ہوتے افسانے ہو گئے ہیں
یا اب تری جفا میں وہ لذتیں نہیں ہیں
یا ہم تری نظر میں بیگانے ہو گئے ہیں
گو بے تعلقی ہے اُس انجمن میں پھر بھی
جب مل گئی ہیں نظریں افسانے ہو گئے ہیں
ہر منزل ِ طلب میں رفتار ِ پا سے اپنی
جو نقش بن گئے ہیں بت خانے ہو گئے ہیں
تعمیر کی ہوس نے سو بار دل اجاڑا
پہلو میں سیف کتنے ویرانے ہوگئے ہیں
——
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
کس طرح روکتا ھوں اشک اپنے
کس قدر دل پہ جبر کرتا ھوں
آج بھی کارزار ھستی میں!
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم
کس محلے میں ھے مکاں تیرا
کون بتلائے گا نشاں تیرا
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ھوں
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ
تو رھی مدتوں قریب مرے
تو مجھے چھوڑ کے چلی بھی گئی
خیر قسمت مری نصیب مرے
گو زمانہ تری محبت کا
ایک بھولی ھوئی کہانی ھے
کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا
کس محبت سے ھار مانی ھے
اشک پلکوں پہ آنہیں سکتے
دل میں ھے تیری آبرو اب بھی
تجھ سے روشن ھے کائنات مری
ترے جلوے ھیں چار سو اب بھی
اب بھی میں تجھ کو پیار کرتا ھوں
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
آج بھی کارزار ھستی میں
تو اگر ایک بار مل جائے
آرزوؤں کو چین آجائے
——
وعدہ
اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام
اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں
تو مرے غم کو لا دوَا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے
اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں
جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خُوشی بہت کچھ ہے
پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے
آنے والے دِنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے
اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا
اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے
اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رکوں
جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے
تو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں ترا شیر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے
وقتِ رُخصت ،سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے
تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی
تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے
کل کِسی وقت شام سے پہلے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔