اردوئے معلیٰ

آج نامور اردو نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر کا یوم پیدائش ہے

سلیم اختر (11 مارچ 1934ء – 30 دسمبر 2018ء)
——
ڈاکٹر سلیم اختر پاکستان کے نامور اردو نقاد ،افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، ماہرِ اقبالیات، ادبی مؤرخ، معلم اور محقق تھے جو اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ، 1934ء کو برطانوی راج میں لاہور، موجودہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی عبد الحمید ملٹری اکاؤنٹس (CMA) میں ملازم تھے۔ اس لیے جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے والد قاضی عبد الحمید بیوی بچوں کے ہمراہ انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو انبالہ، پونہ، لاہور، فورٹ سنڈیمن، (بلوچستان) اور راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے ۔ انہوں نے میٹرک فیض الاسلام ہائی اسکول راولپنڈی سے 1951ء میں کیا۔ ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے اور ڈپلومہ آف لائبریری سائنس، ایم اے (اردو)، پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب لاہور سے کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں کی۔ وہاں آٹھ سال رہنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ 1994ء میں یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھا تے رہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں جو نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پہچان تین حوالوں سے ہوتی ہے۔ بطور نقاد، افسانہ نگار اور استاد۔ ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخ میں ایک اہم حوالہ تصور کی جاتی ہے جسے شہرتِ دوام حاصل ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیب،کالم نگار،ڈرامہ نگار اور شاعر سلیم احمد کی برسی
——
ڈاکٹر سلیم اختر افسانہ نگاری میں بھی ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی کہانیوں میں خاصا تنوع اور تلون موجود ہے۔ ابتدائی دور میں ان کے یہاں رومانی اور جذباتی قسم کے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ ایک محبوبہ ایک طوائف، سویٹ ہارٹ اور کٹھ پتلی وغیرہ کا موضوع رومانی ہے۔ کلب، ڈانس، شراب، شباب، جذباتی محبت… یہ سب کچھ ان کی کہانیوں میں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک رومانی رویہ ترقی پسندوں جیسا بھی ان میں پایا جاتا ہے اور وہ ہے صورت حال کو بدلنے کی خواہش۔ ہم مرکز دائرے، دو راستے ایک پل اور مچھر طبقاتی نظام کی بدولت وجود میں آنے والے اقتدار پر لکھے گئے افسانے ہیں۔ ان میں چھوٹی بڑی مجبوریاں، گھٹن اور اجتماعی رویوں کی مختلف شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ افسانوی مجموعوں اور ناولوں کے علاوہ تنقید، تحقیق اور دیگر کئی موضوعات پر ڈاکٹر سلیم اختر کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، فکر اقبال کا تعارف، اقبال اور ہمارے فکری رویے، کلام نرم و نازک، شادی جنس اور جذبات، ہماری جنسی اور جذباتی زندگی، عورت جنس اور جذبات، عورت جنس کے آئینے میں، مرد جنس کے آئینے میں وغیرہ شامل ہیں۔
——
تخلیقات
——
افسانہ
نرگس اور کیکٹس (مجموعہ افسانہ)
کڑوے بادام
آدھی رات کی مخلوق
مٹھی بھر سانپ
کاٹھ کی عورتیں
چالیس منٹ کی عورت
ناولٹ
ضبط کی دیوار
آپ بیتی
نشان جگر سوختہ
نفسیات
شادی جنس اور جذبات
ہماری جنسی اور جذباتی زندگی
عورت جنس اور جذبات
تین بڑے نفسیات دان
عورت جنس کے آئینے میں
مرد جنس کے آئینے
خوشگوار اور مطمئن زندگی گزارئیے
تخلیق اور لاشعوری محرکات
سفر نامہ
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سلیم کوثر کا یوم پیدائش
——
اک جہاں سب سے الگ
عجب سیر کی
تنقید
اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ
اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ
نظر اور نظریہ
کلام نرم و نازک
ادب اور کلچر
ادب اور لاشعور
اُمراؤ جان ادا کا تجزیاتی مطالعہ
باغ و بہار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
مراۃالعروس کا تجزیاتی مطالعہ
چھ افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ
شعور اور لا شعور کا شاعر: غالب
جوش کا نفسیاتی مطالعہ
نفسیاتی تنقید
افسانہ: حقیقت سے علامت تک
شرحِ ارمغانِ حجاز
پاکستانی شاعرات: تخلیقی خدو خال
نگاہ اور نقطے
تخلیق،تخلیقی شخصیات اور تنقید
عابد علی عابد شخصیت اور فن
تنقیدی اصلاحات
بنیاد پرستی
افسانہ اور افسانہ نگار
مغرب میں نفسیاتی تنقید
تنقیدی دبستان
داستان اور ناول
لسانیات
اُردو زبان کیا ہے؟
انشائیہ کی بنیاد
اقبالیات
فکر اقبال کا تعارف
اقبال کا نفسیاتی مطالعہ
اقبال: شخصیت،افکار، تصورات
اقبال کا ادبی نصب العین
فکرِ اقبال کے منور گوشے
اقبال کی فکری میراث
اقبال شناسی کے زاویے
ایران میں اقبال شناسی کی روایت
اقبال اور ہمارے فکری رویے
کلیات
مجموعہ ڈاکٹر سلیم اختر (تنقیدی و تحقیقی مقالات)
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اور نقاد سلیم احمد کا یوم پیدائش
——
ڈاکٹر سلیم اختر کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکاردگی سے نوازا گیا۔
——
وفات
——
ڈاکٹر سلیم اختر 30 دسمبر 2018ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ لاہور میں کریم بلاک اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
——
ڈاکٹر سلیم اختر : ممتاز ماہر غالبیات و نقاد
غالبؔ اکیسویں صدی میں
——
تاریخ ادب کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک صدی، صرف ایک کی تخلیقی شخصیت کے نام سے موسوم ہوتی ہے جبکہ بقیہ درجن، دو درجن شخصیات اس بڑی تخلیقی شخصیت کے نظام شمسی کے ذیلی سیارے ہوتی ہیں۔ ولیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اور اقبالؔ ۔۔۔ چار صدیوں کی چار بڑی شخصیات قرار پاتی ہیں۔
ٹی ایس ایلٹ نے ”What is Classic” میں لکھا تھا کہ کلاسیک ایسی تخلیقی شخصیت ہوتی ہے جو جس صنف میں تخلیق کے جوہر دکھائے، اس صنف میں زبان وبیان کے لحاظ سے آنے والوں کے لئے تمام تخلیقی امکانات ختم کردیتی ہے اس معیار کے مطابق اگر غزل کا مطالعہ کریں تو بلاشبہ غالب ایسا شاعر ہے جس نے اردو غزل میں تصورات، فلسفہ، فکرنو، تخیل، جدت ہر لحاظ سے تخلیقی جوہر دکھائے اور ان سب پر مستزاد اسلوب کی جمالیت جس کا منفرد استعاروں، نادر تشبیہات، پُرمعنی تمثالوں اور خوب صورت صوتی آہنگ کی حامل تراکیب سے رنگ چوکھا ہوتا ہے۔ غالب اردو غزل کا کلاسیک ہے، اسی لیے غالب کے بعد اس کا انداز سخن اسی پر ختم ہوگیا حتیٰ کہ اقبال بھی غالب جیسا مفّرس اسلوب لے کر آتے ہیں شاید اسی لیے شیخ عبدالقادر نے ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں یہ لکھا:
’’غالبؔ اور اقبالؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا سد اللہ غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اورمجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشتہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘
غالب کے معاصرین نے اس کی شاعری سے انصاف نہ کیا خود غالب بھی خاصہ ناخوش نظر آتا ہے:
——
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
——
ہمارے شعر میں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں
——
ایک خط میں لکھا:
’’اگرچہ یک فنہ ہوں مگر مجھے اپنے ایمان کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد باانداز بایست پائی، آپ ہی کہا، آپ ہی سمجھا۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ عرفیؔ کے قصائد کی شہرت سے عرفی کے کیاہاتھ آیا جو میرے قصائد کے اشتہار سے مجھ کو نفع ہوگا۔ سعدی نے بوستان سے کیا پھل پایا۔۔۔ اللہ کے سوا جو کچھ ہے موہوم ہے، معدوم ہے، نہ سخن ہے نہ سخنور ہے، نہ قصیدہ ہے نہ قصد۔۔۔‘‘
یہ وہ غالب لکھ رہا ہے جس پراردو تنقید میں ۔۔۔علامہ اقبال کی استثنائی مثال سے قطع نظر۔۔۔ سب سے زیادہ لکھا گیا اور وہ بھی اس احساس کے ساتھ:
——
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
——
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ’’یادگار غالب‘‘ (۱۸۹۷ء) سے غالب شناسی کی جس روایت کا آغاز ہوا وقت نے اسے مزید تقویت دی اتنی کہ ’’غالبیات‘‘ اب اردو تنقید کی معروف اصطلاح ہے۔ صدی سے زائد عرصہ بیت گیا محققین، ناقدین، شارحین کو خامہ فرسائی کرتے ہوئے، غالبؔ کی شخصیت، ذات و صفات، عصر، خاندان، معاصرین، دوستوں، دشمنوں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ کلام غالب کی تدوین، تحقیق، تشریح، حتیٰ کہ مصوری ہر لحاظ سے غالب کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے اس حد تک کہ رشید احمد صدیقی کے بموجب مغل کلچر نے ہمیں تین چیزیں دیں۔تاج محل، اردو اور غالبؔ ۔
غالب شناسی انتہائی صورت میں جو غالب پرستی میں تبدیل ہوگئی تو اس کی کیا وجہ ہے اور کیوں غالب حلقۂ شام و سحر سے ماورا ہوگیا؟
میرے خیال میں جو شاعر آج بھی لازمی ،ضروری اور بامعنی محسوس ہوتا ہو اور جو ماضی بعید سے ہم سے مکالمہ کر سکتا ہو، جو ہمیں شعور ذات اور شعار زیست کے قرینے سمجھا سکتا ہو تو وہی زندہ رہتا ہے اس لحاظ سے کہ وہ اپنا معاصر محسوس ہوتا ہے۔ دراصل معاصر محسوس ہونا ہی وہ اساسی صفت ہے جس سے ماضی کا ادیب، شاعر، مفکر، دانشور نظریہ ساز بامعنی ثابت ہوتا ہے اور یہی خصوصیت اسے زندہ رکھتی ہے۔ غالب اس انداز کی بہترین مثال قرار پاتا ہے کہ غالب کی تخلیقی شخصیت تشکیل میں ارفع تخیل کے ساتھ افکار نو اور جذبات و احساسات کا ترفع اساسی کردار ادا کرتے ہیں۔
غالب کو فلسفی بھی کہا گیا تو اس ضمن میں عرض ہے کہ فلاسفر کا بطور فلاسفر زندہ رہنا آسان ہے مگر شاعر کا بطور فلاسفر زندہ رہنا خاصہ مشکل ہے۔ علامہ اقبال نے یہ مشکل منزل سر کرلی اور غالب نے بھی!
———-
یہ بھی پڑھیں : شاعر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یوم وفات
———-
غالب آج بھی اس لیے پرمعنی ہے کہ وہ ہم سے بامعنی مکالمہ کرتا ہے۔ غالب کے مکالمہ کی اساس اس امر پر استوار ہے کہ وہ افراد، وقوعات، عصر، زندگی، تاریخ، غم و عشق سب کے بارے میں مخصوص رویہ اور تصورات رکھتا ہے، ان سب کے اظہار کے لیے اس نے اسلوب کی جو جمالیات وضع کی اس میں فارسی زبان وادب کا تخلیقی شعور اساسی کردار ادا کرتا ہے۔ غالب کی شاعری کے فکری محاسن میں سے دو امور خصوصی توجہ چاہتے ہیں ایک اپنے زمانہ کے لحاظ سے زندگی کے جدید تقاضوں کا ادراک اور اس سے جنم لینے والی مستقبل بینی کا احساس اور دوسرے زیست اور مظاہر زیست کے بارے میں عقلی رویہ جو کبھی غم کے بارے میں بصیرت دیتاہے کبھی تشکیک پرمبنی ذہنی رویہ جنم دیتا ہے تو کبھی ذہن میں سوالات پیدا کرتاہے۔۔۔ ابر کیا چیز ہے ہواکیا ہے۔۔۔؟
غالب کے ہاں عملی دانش (Practical Wisdom) کے بہت اچھے نمونے ملتے ہیں جو اس کی شخصیت کے Pragmatic پہلو کے غماز ہیں:
——
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
——
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
——
اور یہ دلچسپ شعر جس کا شاید ہی کبھی حوالہ دیا گیا ہو کپتّی عورت کے بارے میں:
——
دہن شیر میں جا بیٹھے، اے دل
نہ کھڑے ہوجیے خوبانِ دل آزار کے پاس
——
غالب جس عہد میں زیست کررہا تھا وہ تاریخ کا عبوری دورتھا۔ انگریزی راج آ رہاتھا اور مغل سلطنت کا چراغ بردوش ہو ا تھا۔ انگریز اپنے ساتھ مغرب کی تجارتی اقدار کے ساتھ نئی ایجادات اور قوانین و ضوابط کا مربوط نظام لا رہے تھے جبکہ شاہی اور جاگیرداری کی پیدا کردہ اشرافیہ ماضی کی عظمت میں مگن تھی بلکہ بیشتر کو تو اس امر کا شعور بھی نہ تھا کہ تاریخ کیا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں غالب ہی ایسا شخص نظر آتا ہے جسے بیشتر لوگوں کے مقابلہ میں تاریخ کا کہیں زیادہ گہرا شعور تھا۔ کلکتہ کے قیام کے دوران اسے انگریزی تمدن اور ایجادات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور وہ ان سے متاثر بھی ہوا۔
سرسید ہمارے ہاں جدیدیت کے اولین معمار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن سرسید سے کہیں پہلے غالب کو ہوا کے رخ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ ۱۸۴۷ء میں جب سرسید نے ابوالفضل کی ’’آئین اکبری‘‘ ایڈیٹ کی تو غالب سے تقریظ لکھنے کی فرمائش کی، غالب نے فارسی میں جو منظوم تفریظ لکھی اس میں سرسید کو ۔۔۔۔۔۔’’مردہ پرور دن مبارک کارنیست‘‘۔۔۔ کی تلقین کرتے ہوئے ان ایجادات کی اہمیت کا احساس کرایا جو انگریزوں کے زیر اثر فروغ پا رہی تھیں اور نئی زندگی کی نوید تھیں۔
سرسید کو یہ تقریظ پسند نہ آئی چنانچہ اسے کتاب میں شامل نہ کیا، یہ تقریظ غالب کی فارسی کلیات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
غالبؔ کی یہ سوچ اسے معاصرین میں ممتاز بنا دیتی ہے جبکہ غالب کی دانش آموزی اسے ہمارا معاصربنا دیتی ہے۔ غالب کی غزل، فکر وفن، تخیل اور اسلوب پر لکھنے کے جس عمل کا ۱۸۹۷ء سے آغازہوا ہنوز بھی جاری ہے تو یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عہد زوال کا شاعر ہونے کے باوجود بھی غالبؔ کے ہاں جدید علوم کے بارے میں بلیغ اشارے مل جاتے ہیں اس لیے علوم کے وسیع ہوتے آفاق، تصورات نو اور متغیر ادبی معیاروں کے باوجود بھی غالب کی غزل شجر سایہ دار ثابت ہوتی ہے۔ جمالیات سے لے کر نفسیات تک کئی فلسفوں اور علمی تصورات کی روشنی میں غالب کے ہاں افکار کا تنوع دریافت کیا جارہا ہے۔غالبؔ نہ تو اقبالؔ کی مانند باضابطہ فلسفیانہ نظام رکھتا تھا، نہ دردؔ کی مانند عملی صوفی تھا، تحلیل نفسی سے آگاہ، نہ ترقی پسند اور سوشلسٹ مگر ان سب کے بارے میں اس کے ہاں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ دیکھیں غالب، فیض احمد فیض کو کیسے Anticipate کر رہا ہے۔ فیض نے کہا تھا:
——
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
——
جبکہ غالب نے یوں کہا:
——
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند ہاتھ اس میں ہمارے قلم ہوئے
——
دردؔ نہ ہوتے ہوئے بھی ایسا شعر کہہ گیا:
——
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتامیں تو کیا ہوتا
——
Apathyکی نفسیاتی اصطلاح سے کہیں پہلے غالب اعصابی بے حسی کی کیا خوبصورت تصویرکشی کر رہا ہے:
——
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
——
یہ بھی پڑھیں :
——
جبکہ Hallucinationکی اصطلاح سے کہیں پہلے یہ لکھا:
——
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
——
جمالیات کے سلسلہ میں یوں گویا ہوتا ہے:
——
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
——
اور کروچے سے پہلے غالب یہ کہہ رہا تھا:
——
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
——
الغرض ما بعد الطبیعات، اخلاقیات، عصری شعور، انکشاف ذات، طنز و مزاح زندگی کا شاید ہی کوئی پہلو بچا ہو جس کے بارے میں دیوان غالب سے بصیرت نہ مل سکے۔
اکیسویں صدی تضادات کی صدی ثابت ہوگی۔ ایک طرف خلائی تسخیر کی مساعی اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے عزائم اور دوسری جانب بھوک، غربت، بے روزگاری، جنگ اور امراض جیسے مسائل، ان پر مستزاد ہمارے معاشرہ میں عدم برداشت اور عدم رواداری، مذہبی انتہا پسندی اور اس کے پرتشدد مظاہرے۔ خون مسلم کی ارزانی، پاکستان میں بھی اور دنیا میں بھی۔ اس صورت حال پر غالبؔ سے مدد چاہی تو یہ شعر سامنے آیا:
——
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
——
اس تناظر میں دیکھنے پر اکیسویں صدی میں بھی غالبؔ کی اہمیت، ضرورت اور بامقصدیت برقرار رہے گی اس جیسے وسیع المشرب ترک رسوم والے حیوانِ ظریف، موت سے بھی اکتساب نشاط کرنے والے شاعر، الم کی چبھن کی شدت کو کم کرنے والے صاحب فہم، صاحب نظر اور صاحب دل غالب جیسے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی کہ عصرحاضر میں یہی چیزیں نایاب ہیں۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات