اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف عالم دین، مفسرِ قرآن، محدث، مؤرخ، صحافی اور ادیب ثناء اللہ امرتسری کا یومِ پیدائش ہے ۔

ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری (ولادت: 12 جون 1868ء – وفات: 15 مارچ 1948ء)
——
ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری معروف عالم دین، مفسرِ قرآن، محدث، مؤرخ، صحافی، ادیب، خطیب و مصنف تھے جو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ فاتح قادیان، سردار اہل حدیث، شیرِ پنجاب اور مناظرِ اسلام آپ کے القابات ہیں۔ مولانا ثناء اللہ جمعیت علمائے ہند کی بانی شخصیات میں سے ہیں۔ مولانا نے 1906ء سے 1947ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا اور ہفت روزہ اہل حدیث کے ایڈیٹر بھی تھے۔آپ انجمن اہل حدیث پنجاب کے صدر تھے۔ ثناء اللہ امرتسری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ہیں۔
مولانا ثناءاللہ مرزا غلام احمد اور احمدیہ تحریک کے بڑے مخالف تھے۔ مولانا غلام رسول قاسمی، مولانا احمد اللہ امرتسری، مولانا احمد حسن کانپوری، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ اور بہت سی کتاب لکھیں۔ فن مناظرہ میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کیے۔ مشہور تصنیف تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) ہے۔ دوسری تفسیر ’’تفسیرِ ثنائی ‘‘ (اردو) ہے۔
1903ء میں جب ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن شائع ہوئی اور مولانا ثناءاللہ نے اس تفسیر میں آیات صفات کی تفسیر سلفی عقاید کی بجائے حجۃ اللہ شاہ ولی الله دہلوی کی پیروی میں تاویل کی راہ اختیار کی تھی۔ اس کی وجہ سے غزنوی علمائے اہل حدیث نے ثناء اللہ امرتسری کی بشدت مخالفت کی۔
ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی کو قرآن مجید کی اردو تفاسیر میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ تفسیر ثنائی 8 جلدوں میں ہے۔ اس کی تکمیل میں 36 سال کا عرصہ لگا۔ 1895ء میں اس تفسیر کی پہلی جلد اور 18 فروری 1931ء کو آخری جلد شائع ہوئی۔ تفسیر ثنائی ایک آسان، مختصر اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جواب پر مشتمل تفسیر ہے۔
——
حالات زندگی
——
مولانا ثناءاللہ کے والد نام محمد خضر جو اور تایا کا اسم گرامی اکرام جو تھا۔ آبا و اجداد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی ایک شاخ منٹو خاندان سے تھا۔ یہ لوگ علاقہ دوڑ کے رہنے والے تھے جو تحصیل اسلام آباد ضلع سری نگر میں واقع ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر لوگ پشمینے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ مولانا ثناءاللہ کے والد اور تایا کا بھی یہی کاروبار تھا۔ مولانا کا خاندان 1860ء میں کشمیر کے ڈوگرا حکمران راجا رنبیر سنگھ کی ستم رائیوں سے تنگ آ کر امرتسر میں سکونت پزیر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی تھی اور یہ خطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ مولانا کی عمر 7 سال تھی کہ اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ ان کے بڑے بھائی کا نام ابراہیم تھا۔ انہوں نے ا ن کو رفوگری پر لگا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔
——
تحصیل علم
——
جب مولانا ثناء اللہ 14 سال کے ہوئے تو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ مولانا احمداللہ رئیس امرتسرکے مدرسہ تائید الاسلام میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد آپ نے وزیرآباد میں استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم حاصل کیے۔ وزیر آباد سے تکمیل تعلیم کے بعد سید نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استاد کی سند دکھا کر تدریس کی اجازت حاصل کی۔ دہلی میں سید نذیر حسین سے اجازت لے کرسہارن پور مدرسہ مظاہرالعلوم میں پہنچے اور کچھ عرصہ یہیں قیام کیا اور پھر دیوبند تشریف لے گئے۔ دیوبند میں موالانا محمود حسن دیوبندی سے علوم عقلیہ ونقلیہ او رفقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا ثناءاللہ کانپور مدرسہ فیض عام چلے گئے اور وہاں احمداحسن کان پوری صاحب سے علم معقول ومنقول کے علاوہ علم حدیث میں بھی استفادہ کیا۔
مولانا ثناءاللہ فرماتے ہیں:
” علم حدیث میں نے تین مختلف درس گاہوں سے حاصل کیا۔ خالص اہل حدیث، خالص حنفی، بریلوی عقیدہ۔ پنجاب میں حافظ عبد المنان میرے شیخ الحدیث تھے۔
دیوبند میں مولانا محمود الحسن اور کانپور میں مولانا احمد حسن میرے شیخ الحدیث تھے۔ میں نے حدیث تین استادوں سے طرز تعلیم سیکھا۔ وہ بالکل ایک دوسرے مختلف تھا۔“
——
مولوی فاضل
——
1900ء میں مولانا ثناء اللہ نے مدرسہ مالیٹر اسلامیہ کوٹلہ سے علیحدگی اختیار کرنے کی اور واپس امرتسر پہنچے اور تصانیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ 1902ء میں آپ نے جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔
——
بعد فراغت
——
کانپور سے فراغت کے بعد مولانا ثناء اللہ اپنے وطن امرتسر واپس آئے اور مدرسہ تائید الاسلام میں جہاں سے تعلیم کاآغاز کی تھا درس و تدریس پر مامور ہو گئے اور 6 سال تک یہیں پڑھاتے رہے۔
ابوالوفا نے آغاز عمر سے ہی مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے عقائد وخیالات کی تحقیق تنکیج کا عمدہ زوق رکھتے تھے۔ آپ نے جس فضا میں آنکھ کھولی تھی اس میں آریہ سماج نے ملک میں انتشار پھیلا رکھا تھا، آئے دن اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف دل آزاد کتابیں شائع کرتے رہتے تھے اور سرزمین ہند میں اسلام کے نام و نشان مٹا دینے کا عزم رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ عیسائی 1857ء میں مکمل سیاسی غلبہ حاصل کر لینے کے بعد اسلامی افکار عقائد اور تمدن وثفاقت کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ان کے پادری بر صغیر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دندناتے پھرتے تھے۔ اسی فضا میں قادیانیوں کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوئے مسیحیت سے اسلامی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔
——
مناظرات و مباحثات
——
دین اسلام کی تبلیغ اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے اور مخالفین اسلام کے پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے مناظرات کیے۔ امرتسر اور وزیرآباد میں تعلیم کے دوران میں آپ نے عیسائی پادریوں کی تقریر سنتے تھے اور بعد میں ان پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ عوام آپ کے اعتراضات دلچسپی سے سنا کرتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ نے اپنی زندگی میں بے شمار مناظرے کیے۔ آپ نے آریوں، عیسائیوں، قادیانیوں، حنفیوں (دیوبندی اور بریلوی)، شیعوں اور منکرین حدیث سے تحریری اور تقریری مناظرے کیے۔
——
مشہور مناظرے
——
آریوں سے مناظرے
مناظرہ دیوریا – 1903ء
مناظرہ لاہور – 1912ء
مناظرہ جبل پور -31 مئی تا 2 جون 1915ء
مناظرہ امرتسر – 1920ء
مناظرہ لاہور – 1921ء
مناظرہ امرتسر – 1925ء
مناظرہ حیدرآباد (سندھ) – 1927ء
مناظرہ نگینہ ضلع بجنور
——
یہ ایک تحریری مناظرہ تھا جو 5 جون 1914ء سے 14 جون 1914ء تک چلا۔ یہ مناظرہ علمائے دیوبند کی تحریک پر ضلع بجنور میں ہوا تھا۔ اس مناظرے میں مولانا ثناء اللہ کے استاد شیخ الہند محمود الحسن اپنے رفقا کے ساتھ شریک تھے۔ اس مناظرہ میں اہل اسلام کی طرف سے مولانا ثناء اللہ مقرر ہوئے۔ آریہ کی طرف سے ماسٹر آتما رام، پنڈت کرپا رام اور لالہ وزیر چند مناظر تھے۔ تیسرے دن پنڈت کرپا رام اور لالہ وزیر چند نے راہ فرار اختیار کی اور پانچوین دن ماسٹر آتما رام بھی فرار ہو گئے۔ اس مناظرہ میں مسلمانوں کی فتح ہوئی اور اس فتح کے اثر سے کئی ہندوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ مناظرہ کتابی شکل میں بھی چھپ چکا ہے۔
——
عیسائیوں سے مناظرے
——
مناظرہ ہوشیار پور – 1916ء
مناظرہ گوجرانوالہ – 27 تا 28 فروری 1926ء
مناظرہ لاہور
یہ مناظرہ 1910ء کو لاہور میں عیسائی مناظر پادری جوالا سنگھ سے ہوا تھا۔ اس میں عیسائی مناظر نے اپنی شکست کو قبول کیا۔ اور ایک پورا عیسائی خاندان مسلمان ہو گیا۔
——
صحافی خدمات
——
ماہنامہ مسلمان
مولانا ثناء اللہ نے 1900ء میں مسلمان کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ مئی 1908ء تک یہ ماہنامہ رہا اور اس کے بعد 7 جون 1910ء سے اس کی اشاعت ہفت روزہ ہو گئی۔ جولائی 1913ء کو مولانا نے اس کی ادارت کے حقوق منشی علم الدین امرتسری کے نام منتقل کر دئے۔ کچھ دن بعد اس کی اشاعت بند کر دی گئی۔
ہفت روزہ اہل حدیث
ہفت روزہ اہل حدیث مولانا ثناء اللہ نے 13 نومبر 1903ء کو جاری کیا اور یہ اخبار مسسل چوالیس سال تک باقاعدہ جاری رہا۔ یہ اخبار کسی جذبے کے تحت جاری ہوا تھا، مولانا ثناء اللہ خود فرماتے ہیں:
”جب مذہبی تبلیغ کی ضرورت روز بروز بڑھتی نظر آئی اور تصنیف کتب کا ناکافی ثابت ہوا تو اخبار اہلحدیث جاری کیا گیا، جس میں ہر غلط خیال کی اصلاح کی جاتی اور غیر مسلم کے حملہ کا جواب دیا جاتا ہے۔“
اس کا آخری شمارہ 03 اگست 1947ء کو شائع ہوا۔ اس چوالیس سال میں ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گذرا کہ اس کا ناغہ ہوا ہو۔ اس اخبار نے اسلام کی اشاعت اور اردن باطلہ کی تردید میں نمایاں خدمات سر انجام دیا۔
ماہنامہ مرقع قادیان
یہ ماہنامہ 15 اپریل1907ء کو جاری ہوا اور اکتوبر 1908ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد دوبارہ اپریل 1931ء کو جاری ہوا اور اپریل 1933ء تک جاری رہا۔ یہ ماہنامہ مرزائیت کے قصر سراب کی بنیادیں ہلانے کے لیے اور اس کی کفر کو مٹانے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ اس رسالے میں قادیانی خرافات کا جواب ایسے دلچسپ انداز میں دیا جاتا تھا کہ خود مرزا غلام قادیانی بھی پھڑک اٹھے۔ اس رسالے کے مضامین مولانا ثناء اللہ امرتسری خود ارقام فرماتے اور دوسرے اہل علم بھی اس میں اپنے مضامین بھیجتے جو شائع کے جاتے۔ اس ماہنامہ کے آخری صفحے پر گلدستہ اخبار کے عنوان سے ایک صفحہ خبریں ہوتیں جن کا تعلق عموماً قادیانیت سے ہوتا اور عنوان کے اندر اور باہر کتابوں کے اشتہار ہوتے یہ تمام کتابیں بھی قادیانیت سے متعلق ہوتیں۔
——
سیاسی خدمات
——
برصغیر کی سیاست میں مولانا ثناء اللہ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ابتدائی دور میں مولانا ابو الوفا نے تحریک آزادی کی جدوجہد کا آغاز کانگریس سے کیا جو ملک کی واحد نمائندہ جماعت تھی جس میں ہندو اور مسلم دونوں شامل تھے۔ آپ نے تحریک آزادی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس کے بعد 1906ء میں مسلمانوں نے اپنی علاحدہ جماعت کی تشکیل کی اور اس کے بعد بہت سے مسلمان لیڈر کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اس کے کچھ وقت بعد آپ نے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ کانگریس سے مسلم لیگ میں شامل ہو کر صف اول کے قائدین کے شانے بشانہ کام کرتے رہے۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ قتل عام کے بعد امرتسر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جو اجلاس مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی زیر صدارت ہوا۔ اس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر مولانا ثناء اللہ تھے۔
1914ء میں نہرو رپورٹ، 1930ء میں گول میز کا کانفرنس، 1935ء اور 1936ء کی انتخابی مہموں اور وزارت کے موقع پر کانگریسی لیڈروں کے طرز عمل نے مسلمانوں کو کانگریس سے منتفر کرایا۔ 1937ء میں برطانیہ میں علامہ اقبال نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دی اور قائدِ اعظم نے اس دعوت کو قبول کر کے مسلم لیگ میں نئی روح فونک دی۔ اس وقت ہندو اخبارات نے پاکستان کے خواب کو ایک ‘انہونا خواب’ قرار دیا۔ اس موقع پر مولانا ثناء اللہ نے اپنے اخبار ہفت روزہ اہل حدیث میں لکھا:
——
یہ بھی پڑھیں : بیدل حیدری کا یوم پیدائش
——
”دین اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ خدا کی رحمت سے ناامید ہونا کفر ہے۔ اس لیے ہم اس خواب کی حقیقت ہو جانے سے ناامید نہیں ہو سکتے۔ خدا کرے یہ خواب سچا ہو جائے۔“
——
ملی اور جماعتی خدمات
——
ملّت اسلامیہ کو متحد کرنے اور اسلام کے حفظ وبقاء کے لیے ضروری تھا کہ برصغیر میں ایک ایسی نمائندہ اور اجتماعی قیادت کا قیام عمل میں لایا جائے جو زندگی کے ہر شعبۂ میں مکمل رہنمائی کی اہلیت رکھتی ہو۔ اس مقصد کے لیے مولانا ثناء اللہ نے سب سے پہلے جماعت اہل حدیث کو منظم کیا۔ اس کے بعد ‘آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس’ کی تنظیم میں مرکزی اور موثر کردار ادا کیا۔ ندوۃ العلماء اس وقت عمل میں آ چکا تھا۔ ندوۃ العلماء کے اولین اجلاس بمقام کانپور میں آپ نے شمولیت کی۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے ہند کا قیام آپ کی تحریک پر عمل میں آیا۔
——
جماعتی خدمات
——
جماعت اہل حدیث کی ترقی اور ترویج میں مولانا ثناء اللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر میں جماعت اہل حدیث کو منظم اور فعال بنانے میں آپ کی خدمات قابل تعریف ہے۔ 22 دسمبر 1901ء میں آرہ، بہار میں اکابر علمائے اہل حدیث کا اجتماع ہوا جس میں آپ نے شرکت کی تھی۔ یہیں پر غور و فکر اور بحث و تمحیص کے بعد آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ کانفرنس کے پہلے صدر استاذ الاساتذہ مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری مقرر ہوئے اور نظامت کے لیے مولانا ثناءاللہ کا انتخاب عمل میں آیا اور آپ قیام پاکستان تک اس کانفرنس کے ناظم اعلیٰ رہے۔
مولانا ثناء اللہ کی جماعتی خدمات کو اکابر علمائے اہل حدیث نے تسلیم کرتے ہوئے 2 اکتوبر 1921ء کو مسجد مبارک متصل اسلامیہ کالج لاہور میں ایک اہم اجلاس بلایا گیا جس میں متفقہ طور پر آپ کو سردار اہل حدیث منتخب کیا گیا۔ آپ تاحیات کانفرنس کے ناظم اعلیٰ اور سردار اہل حدیث رہے۔
——
تحریک ندوۃ العلماء
——
1892ء میں مولانا شبلی نعمانی کی تحریک پر مولانا لطف اللہ علی گڑھی کی صدارت میں ندوۃ العلماء کے قیام کے لیے جو اجلاس کانپور میں ہوا تھا اس میں مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں بقول علامہ سید سلیمان ندوی سب سے کم عمر رکن مولانا ثناء اللہ تھے۔ مولانا ثناء اللہ تاحیات ندوۃ العلماء کی انتظامی کمیٹی کے رکن رہے اور اس کی ترقی و ترویج من ہمیشہ کوشاں رہے۔
10 مئی 1914ء میں ندوہ کے بگڑے ہوئے احوال کی اصلاح کے لیے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی تحریک پر جو جلسہ ہوا تھا اس کے صدر مولانا ثناء اللہ قرار پائے۔ جلسہ میں ندوہ کی اصلاح احوال کے لیے عمائدین قوم نے ایک گیارہ رکنی انتظامی کمیٹی کی تشکیل کی تھی جس کے ایک رکن مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی تھے اور رکنیت کا اعزاز تاحیات آپ کو حاصل رہا۔
——
مجلس خلافت
——
1919ء میں مولانا محمد علی جوہر نے مجلس خلافت کے نام سے ایک جماعت بنائی جن میں مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خان اور مولانا آزاد بھی شامل تھے۔ تحریک خلافت کا پہلا اجلاس لکھنؤ میں ہوا جس میں برصغیر کے علما اور اکابرین شریک ہوئے۔ مولانا ثناء اللہ نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔
——
جمعیت العلماء
——
جنگ عظیم اول کے بعد مسلمان عمائدین نے محسوس کیا جو دینی وسیاسی ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ میں رہنمائی کر سکتی ہو۔ 1919ء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تحریک دہلی میں ہر مکتب فکر کے علما کا اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں اتفاق رائے سے جمعیت علمائے ہند تشکیل پائی۔ مولانا ثناء اللہ کی تحریک پر دسمبر 1919ء میں امرتسر میں جمعیت العلماء کا پہلا جلسہ منعقد ہوا۔ اس کی صدارت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی نے کی۔
عبد الرزاق ملیح آبادی اس اجلاس کے بارے میں لکھتے ہیں:
” اب اجلاس میں داخلے کے بعد کیا دیکھتا ہوں۔ کہ مفتی کفایت اللہ کے پہلو میں مولانا ثناء اللہ تشریف فرما ہیں اور صدارت کے فرائض زبردستی خود ہی انجام دے رہے ہیں۔ اور مولانا ثناء اللہ مفتی کفایت اللہ کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ اور مداخلت کا گویا ٹھیکا لے بیٹھے ہیں۔ “
——
تصانیف
——
رد عیسائیت میں اسلام اور مسیحیت لکھی۔ اس کتاب کے اہل علم اوراہل قلم نے تعریف کی اور مولانا کو خراج تحسین پیش کیا۔ تردید آویر میں مولانانے تغلیب الاسلام کے نام سے چارجلدوں میں کتاب لکھی۔ ایک اورکتاب تبرء اسلام کے نام سے لکھی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے رد قادیانیت میں بھی کتابیں لکھیں مولانا حبیب الرحمن نے ایک مجلس میں مولانا ثناء اللہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ "ہم لوگ 30 سال میں بھی اتنی معلومات قادیانی فتنہ کے بارے میں نہیں حاصل کر سکتے جتنی معلومات اور واقفیت مولانا ثناءاللہ صاحب کو ہیں۔”
مولانا نے تفسیر نویسی میں بھی کام کیا ہے۔ اور اہل تقلید پر علمی تنقید کی ہے اور ان کے غلط کا قلع قمع کیا ہے۔ تفسیر قرآن میں تفسیر ثنائی کے نام سے لکھی ہے۔ مولانا کی ایک اور تفسیر اردو میں ہے ’’تفسیربا الرائے، اس تفسیر میں مولانا نے تفاسیر و تراجم قرآن قادیانی چکڑیالوی، بریلوی شیعہ وغیرہ کی اغلاط کی نشان دہی کی ہے اور ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کی ہے۔
مولانا ابو الوفا کی تصانیف رسائل وجرائد کی تعداد کم وبیش 174 ہے۔ ان میں سے چند قابل ذکر کے نام:
مشہور تصانیف کا مختصر تعارف
مولانا ابو الوفا کی مشہور تصانیف کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
——
تفسیر ثنائی
——
قرآن مجید کی اردو تفاسیر میں تفسیر ثنائی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس تفسیر میں قادیانیت اور نیچریت کا رد کیا گیا ہے۔ تفسیر ثنائی 8 جلدوں میں ہے۔ اس کی تکمیل میں 36 سال کا عرصہ لگا۔ 1895ء میں اس تفسیر کی پہلی جلد اور 18 فروری 1931ء کو آخری جلد شائع ہوئی۔ یہ تفسیر اردو زبان میں ہے۔
——
تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن
——
یہ مولانا ثناء اللہ عربی تفسیر ہے۔ اس میں آپ نے قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید کی آیات سے کی ہے۔ یہ برصغیر میں پہلی تفسیر ہے جو اس اصول پر استوار کی گی ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی گئی ہے۔ عرب دنیا نے اس تفسیر کی بڑی تحسین کی۔ مولوی ثناء اللہ نے اس تفسیر میں آیات صفات کی تفسیر سلفی عقاید کی بجائے حجۃ اللہ شاہ ولی الله دہلوی کی پیروی میں تاویل کی راہ اختیار کی تھی۔ اس کی وجہ سے غزنوی علمائے اہل حدیث نے ثناء اللہ امرتسری کی بشدت مخالفت کی۔
——
برہان التفاسیر
——
یہ تفسیر مولانا ثناء اللہ نے پادری سلطان محمد خان پال کی "سلطان التفاسیر” کے جواب میں لکھی تھی۔ اور یہ سورہ بقرہ کے 16 رکوع کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر اخبار اہل حدیث کی 18 اشاعتوں میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔ اس کی پہلی قسط 6 مئی 1932ء کو اور 36 ویں قسط 20 جنوری 1933ء کو شائع ہوئی۔ اس کے بعد پادری سلطان محمد خان پال نے سلطان التفاسیر کا سلسلہ روک دیا۔ کچھ دن بعد خان پال نے دوبارہ سلطان التفاسیر لکھنا شروع کیا تو مولانا ثناء اللہ نے یکم جون 1934ء کو پھر اس کا جواب لکھنا شروع کیا جو ہفت روزہ اہل حدیث کی 1935ء کی اشاعت پر اختتام پزیر ہوا۔ مولانا ثناء اللہ نے اس تفسیر میں پادری سلطان محمد خان پال کی غلط بیانیوں، تفسیری فہمیوں اور اعتراضات کے جوابات دیتے تھے۔
——
بیان الفرقان علی البیان
——
یہ تفسیر نامکمل ہے جو صرف سورہ بقرہ تک ہے اور عربی میں ہے۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے ذریعے قرآن کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر فن بیان ومعانی کا ایک نمونہ ہے لیکن مکمل نہ ہو سکی۔
——
حق پرکاش
——
یہ دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش کا جواب ہے۔
——
تُرکِ اسلام
——
تُرکِ اسلام ایک مسلم عبدالغفور نامی (نو آریہ دھرمپال) کے رسالے تَرکِ اسلام کا جواب ہے۔ تَرکِ اسلام کے منصف نے بےجا قسم کے اعتراضات کیے تھے۔ مولانا ثناء اللہ نے بڑی سنجیدگی سے ان اعتراضات کے جوابات دیے۔ اس کتاب کے شائع ہونے پر علماے اہل حدیث اور علماے دیوبند نے مولانا ثناء اللہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ کتاب پہلی بار 1903ء میں امرتسر سے شائع ہوئی۔
——
مقدس رسول
——
1924ء میں ایک گمنام آریہ نے رنگیلا رسول کے نام سے ایک کتاب شائع کی تو رنگیلا رسول کے جواب میں مولانا ثناء اللہ نے میں مقدس رسول لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر بےجا قسم کے اعتراضات کے گئے تھے۔ علماے اہل حدیث اور علماے دیوبند نے مقدس رسول کے شائع ہونے پر مولانا ثناء اللہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ کتاب پہلی بار 1924ء میں امرتسر سے شائع ہوئی۔
——
تقابل ثلاثہ
——
یہ کتاب پادری ٹھاکر دت کی تصنیف عدم ضرورت قرآن کا جواب ہے۔ اس میں تورات، انجیل اور قرآن مجید کے مابین تقابل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1910ء میں شائع ہوئی۔
——
اسلام اور مسیحیت
——
یہ کتاب عیسائیوں کی تین کتابوں تو ضیح البیان فی اصول القرآن، مسیحیت عالمگیری اور دین فطرت اسلام ہے یا مسیحیت کے جواب میں لکھی گئی۔ یہ کتاب پہلی بار 1941ء میں شائع ہوئی۔
——
کتاب الرحمان
——
یہ کتاب ایک آریہ منصف بھگتورام کی کتاب ‘کتاب اللہ وید ہے یا قرآن’ کے جواب میں لکھی گئی۔ بقول سید سلیمان ندوی مناظرانہ رنگ میں یہ بڑی دلاویز کتاب ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1903ء میں امرتسر سے شائع ہوئی۔
——
سفر حج
——
مولانا ابو الوفاء 26 اپریل 1926ء کو امرتسر سے صبح لاہور روانہ ہوئے اور لاہور سے کراچی میل پر سوار ہو گئے۔لاہور کے اسٹیشن پر خلافت کمیٹی کے رضاکار اور اہل لاہور آپ کے استقبال کو موجود تھے۔ 30 اپریل 1926ء کو جہاز ارمستان پر جدو کے لیے سوار ہوئے گئے۔ تتکمل حج کے بعد 20 اگست 1926ء کو واپس لاہور پہنچے۔
——
ہجرت پاکستان
——
مارچ 1947ء میں تقسیم ہند کے یقینی ہو جانے کے بعد مشرق پنجاب میں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 3 مئی 1947ء سے فیصلہ تقسیم کے بعد اگست اور ستمبر 1947ء تک فسادات ہوتے رہے۔ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا، مولانا ثناء اللہ 13 اگست 1947ء کو ہی ہجرت کرکے ملک کی آزادی میں اپنے اکلوتے بیٹے مولوی عطاء اللہ کی قربانی دے کر لاہور تشریف لائے۔ لاہور میں کچھ دن قیام کے بعد گوجرانوالہ مولانا اسماعیل سلفی کے ہاں ٹھہرے اور وہاں سے سرگودھا تشریف لے گئے۔
——
وفات
——
بیٹے کی شہادت اور قیمتی کتب کی بربادی سے آپ بہت نڈھال ہو گئے تھے اور ان صدموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ 13 فروری 1948ء کو مولانا پر فالج کا حملہ ہوا اورٖ اس کے بعد 15 مارچ 1948ء کو صبح اسلامیہ کا درخشاں آفتاب سرگودھا کی سر زمیں میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ سرگودھا میں ہی مولانا کی وفات ہوئی۔
——
علما کی آراء ، تعریفی کلمات
——
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری بیک وقت مفسر، محدث اور مقرر بھی تھے۔ دانشور بھی تھے اور خطیب بھی تھے اور فن مناظرہ کے تو امام تھے۔ سیاسیات ہند میں ان کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کوہمہ جہت خوبیوں سے نوازا تھا تو کل زہدومدح حلم وصبر تقوی واتقاء دیانت و امانت عدالت وثقاہت قناعت و سنجیدگی حق گوئی اور بے باکی حاضر جوابی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے آپ نے دینی و مذہبی قومی اور ملی اور سیاسی خدمات انجام دیں۔ مولانا ثناء اللہ اسلام کی سربلندی اور پیغبر اسلام کے دفاع میں سرگرم رہے اور ساری زندگی دین کی خالص اشاعت کتاب وسنت کی ترویج شرک و بدعت کی تردید وتوبیخ، ادیان باطلہ کاردکرنے میں گزاری۔
——
سید سلیمان ندوی نے مولانا کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
” اسلام پیغبراسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کی۔ “
ظفر علی خان نے مولانا ثناء اللہ وفات پر کہا تھا:
” مولانا ثناء اللہ کی وفات حسرت آیات سے دنیا سے حاضر ختم ہو گئی۔ “
ایک اور جگہ علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے:
” مولانا ثناء اللہ اسلام کے بڑے مجاہد تھے۔ اسلام کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ آپ ہی ہوتے۔ “
علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی مولانا ثناء اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
” اگر رات کو کوئی فرقہ اسلام کے خلاف پیدا ہو جائے تو مولانا ثناء اللہ صبح اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ “
خالد اختر افغانی نے کہا ہے:
” شیردل انساں، فاتح قادیان، ابو الوفاء
ملت مرحوم میں اب کون ہے ہمسر تیرا“
مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
” ہمیں مناظرہ کے کہنا چاہیے کہ امام تھے۔ خصوصاً آریہ سماجیوں کے مقابلہ میں اور شروع صدی میں ان فتنہ اس وقت سب سے بڑا تھا۔
اگر مولوی ثناء اللہ ان کے سامنے نہ آ جاتے تو مسلمان کی مظلومانہ مرعوبیت خدا جانے کہاں تک پہنچ جاتی۔“
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی لکھتے ہیں:
”مولانا ثناء اللہ دراصل عبقری شخصیت تھے۔ میدان مناظرہ میں تو خصوصاً انہوں نے اپنی حاضر جوابی، شگفتہ بیانی، بزلہ سنجی سے اپنی انفرادیت کو ہر طبقہ سے ہمیشہ تسلیم کرایا۔“
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ