ثنائے پاکِ ختم المرسلیں گو امرِ مشکل ہے

مگر مشکل مری یہ ہے کہ دل اس پر ہی مائل ہے

تو ہے مسند نشینِ فرش لیکن عرش منزل ہے

بایں پہلو کہاں کوئی ترے مدِ مقابل ہے

زمانہ کے لئے روشن چراغِ راہ و منزل ہے

کہ جس کی رہنمائی تا قیامت سب کو حاصل ہے

تمہارا دین ہی واللہ اپنانے کے قابل ہے

کہا سب حرفِ آخر ہے شریعت تیری کامل ہے

محاسن کا ترے شاہا زمانہ ہی نہیں قائل

ترے خلقِ مطہر کا تو خالق خود بھی قائل ہے

سکندر ہو کہ دارا ہو وہ سلطاں ہو کہ قیصر ہو

ترے آگے تو مسکیں ہے ترے آگے تو سائل ہے

ہزاروں رحمتیں اس پر کہ جو صورت میں سیرت میں

براہیمِ خلیل اللہ کے بالکل مماثل ہے

قدم بھٹکے نظر الجھی خرد زائل ہے امت کی

عمل سے ہے تہی داماں فقط کلمہ کی قائل ہے

اسے قرآں سے کچھ مطلب نہ مطلب ہے شریعت سے

تری امت شہا اک کارواں بر پشتِ منزل ہے

پکڑ لوں گا، پکڑ لوں گا ترا دامن شہِ والا

مجھے طوفانِ محشر میں ترا دامن ہی ساحل ہے

سرِ محشر عنایت کی نظرؔ اس پر بھی ہو شاہا

غلامِ بے بضاعت بھی ثنا خوانوں میں شامل ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]