سخن کے شہرِ حبس میں ہَوا کا باب کھُل گیا

گدائے حرف کے لئے ثنا کا باب کھُل گیا

تکلفاً بھی اب کسی صدا کی آرزو نہیں

دُعا کے آس پاس ہی عطا کا باب کھُل گیا

غضب کا کرب تھا رواں، بڑا عمیق زخم تھا

تری گلی کی خاک لی، شفا کا باب کھُل گیا

وہاں پہ تھے تو جیسے لفظ ساتھ ہی نہ آئے تھے

مدینے سے چلے تو پھر صدا کا باب کھُل گیا

کھڑے تھے قُدسیوں کے ساتھ دم بخود کہ یک بہ یک

لبوں پہ ایک دید التجا کا باب کھُل گیا

یہ سر پہ جو تنی ہُوئی ہے اِک ردائے نیلگوں

وہ نُور جب چلا تو پھر سما کا باب کھُل گیا

سخی نے یوں سخاوتوں کے ضابطے بدل دئیے

نوازنے کو شہ نہیں گدا کا باب کھُل گیا

بسیطِ حرف پر ہُوا ثنائے مہر کا طلوع

مری شبِ حیات میں، ضیا کا باب کھُل گیا

جہانِ شوق کو ملے نئے نظر کے زاویے

وہ حُسن آ گیا تو ہر ادا کا باب کھُل گیا

عجیب تھا ورود فاتحِ زمن کا شہر میں

قدم لگے تو خانۂ خُدا کا باب کھُل گیا

سجا دیئے گئے سروں پہ تاج مہر و ماہ کے

کچھ اِس طرح سے فیضِ نقشِ پا کا باب کھُل گیا

ادب نے آرزوئے دل کے جب سخن بُجھا دئیے

تو خامشی میں ہی مری نوا کا باب کھُل گیا

صبا نے ایسی تیز رو میں دی خبر بُلاوے کی

لبوں پہ دیر سے رُکی دُعا کا باب کھُل گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]