اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعرہ ، مترجم اور افسانہ نگار، مشرف عالم ذوقی کی اہلیہ تبسم فاطمہ کا یوم وفات ہے۔

تبسم فاطمہ(پیدائش: 1 جولائی 1972ء – وفات: 20 اپریل 2021ء)
——
جس دن ذوقی صاحب کا انتقال ہوا اس سے اگلے دن ان کی اہلیہ بھی ان کے پاس چلی گئیں ۔
تبسم فاطمہ ایک ہمہ جہت اور فعال شخصیت تھیں۔
شاعرہ افسانہ نگار،نقاد، صحافی، مترجم اور فلم ساز۔ نفسیات میں ایم اے کیا ۔
اردو اور ہندی دونوں میں لکھتی رہی ہیں۔
اردو میں ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں:
’لیکن جزیرہ نہیں‘ ’ستاروں کی آخری منزل‘ ’سیاہ لباس‘ (کہانیوں کا مجموعے)۔
’میں پناہ تلاش کرتی ہوں‘ ’ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے‘ ’تمہارے خیال کی آخری دھوپ‘ (شعری مجموعے)۔
’جرم‘ کے نام سےہندی میں افسانوی مجموعہ (2018) میں شاٰئع ہوا۔
اردو سے ہندی میں بیس سے زیادہ کتابوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے اردو کہانیوں کا ہندی ترجمہ اور ہندی کہانیوں کا اردو ترجمہ بھی کرتی رہی ہیں۔ ان کے تراجم نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے چترا مدگل کے ناول ’گلی گڈو‘ کا بھی اردو میں ترجمہ پیش کیا ہے۔ تبسم فاطمہ نظمیں لکھتی ہیں۔ لہذا انھیں نظموں کے ترجمے میں خصوصی دلچسپی ہے۔ پروین شاکر، سدرہ سحرعمران، سارا شگفتہ پر ہندی میں انکی کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔
——
دوردرشن اور دوسرے چینلز کے لئے کئی بڑے ادبی پروگرام بنائے ہیں۔ پچاس سے زیادہ ادیبوں اور ان کی شخصیت پر فلمیں بنائیں۔ بلونت سنگھ، سہیل عظیم آبادی، مشرف عالم ذوقی کے ناولوں پر سیریل بنائے۔ پچاس سے زیادہ دستاویزی فلمیں اور ڈاکو ڈرامے بنائے۔ ریڈیو کے لئے بھی کئی سیریز تیار کیں۔ بطور فری لانسر میڈیا کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔
ایوارڈ: دہلی اکیڈمی/بہار اردو اکیڈمی کی طرف سے ادبیات پر ایوارڈ، ہیو مین رائٹس کا خصوصی ایوارڈ، 2018، بہار اکیڈمی کے ذریعہ بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
——
مشرف عالم ذوقی اور تبسم فاطمہ کی یاد میں از زید مشکور
——
تعلق جتنا بھی مضبوط ہو لیکن
ہمیشہ رابطوں کا محتاج ہوتا ہے
——
محترمہ تبسم فاطمہ نے یہ سچ کر دکھایا کہ بنا رابطے کے کوئی رشتہ نہیں، کہ جب ملن و ہم رکابی نہیں تو پھر کیسی محبت، چنانچہ اپنے شوہر کے غم‌ میں وہ بھی آخرت سدھار گئیں۔
انا‌ للہ و انا الیہ راجعون
ابھی ہم ذوقی صاحب کے غم سے نکل بھی نہ پائے تھے، کہ ان کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر پانے کی وجہ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان سے جا ملیں۔ ‌ ہائے!
——
نوحہ گر چپ ہیں کہ روئیں بھی کس کو روئیں
مشرف عالم ذوقی فکشن کی دنیا ایک مشہور نام تھا، جس نے اپنے گہربار قلم سے اردو دنیا کو مالا مال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، انہوں نے پچاسوں کتابیں ادبی دنیا کو دی، جن میں چودہ خوبصورت ناول بھی شامل ہیں، خاص طور سے ”مرگ انبوہ“ ، ”نالہ شب گیر“ اور ”مردہ خانے میں عورت“ نے عالمی طور پر مقبولیت و پذیرائی حاصل کی، اور خوب ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔
ذوقی صاحب جہاں فکشن کی سلطنت کے شہنشاہ تھے، وہیں اعلیٰ ظرفی کا حسین پیکر بھی تھے، ایک مشہور و معروف شخصیت ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے چھوٹوں سے بڑی فراخ دلی سے ملتے تھے، میری کبھی ان سے بالمشافہ تو ملاقات نہیں ہوئی، مگر واٹس ایپ اور فون پر بات ہوتی رہتی تھی، ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازنا آپ کی فطرت تھی، اور اس طرح سے ”پیارے“ یا ”بچے“ لفظ کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے، گویا اپنے گھر کے کسی بچے سے گفتگو کر رہے ہیں، اس مقام پر پہنچ کر اس طرح سے گفتگو کرنا ان کی دریا دلی اور نوعمروں کی حوصلہ افزائی کرنے کا‌‌ اعلی ثبوت ہے، مگر
——
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیاں کے لیے
——
انہوں نے ادب کے میدان میں خدمات انجام دیتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا، حق کے راستے میں اپنے قلم کو کبھی بکنے دیا اور نہ ہی کبھی جھکنے دیا، ان کے کالم آج بھی ان‌ کی شخصیت کے آئینہ دار ہیں، جن سے آنے والی باضمیر نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں ‌گے ‌۔
ان کے جانے کے ایک ہی دن بعد ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ کا بھی آخرت کے سفر میں اس طرح ان کے ہمرکاب ہو جانا ادبی دنیا کے لئے دوہرے غم سے کم نہیں ہے، اور اردو شائقین کے لئے کسی یتیمی کے الم سے کم نہیں ہے۔
تبسم ‌فاطمہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، وہ ایک صحافی، افسانہ نگار، مترجم کے ساتھ ساتھ عمدہ ذوق کی شاعرہ بھی تھیں، انہوں نے ”ستاروں کی آخری منزل“ ، ’’تمہارے خیال کی آخری دھوپ ”،“ سیاہ لباس ”اور“ جرم ”جیسے سے کئی گراں قدر مجموعے اور کتابیں ادبی دنیا کو دی ہیں، جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔
میری تبسم میم سے شناسائی آج سے تقریباً دس بارہ برس پہلے ہوئی تھی، جب میں نے اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا تھا، اس وقت وہ پابندی سے راشٹریہ سہارا اور انقلاب کے لیے کالم لکھا کرتی تھیں، لہٰذا ادارتی صفحات پر نظر ڈالتے وقت ان کے مضمون پر بھی نظر پڑ جاتی تھی، اور گاہے بگاہے ان کی تحریر پڑھ لیتا تھا، جو عام طور پر حالات حاضرہ سے متعلق ہوتی تھی، مگر کم سنی اور لاشعوری کی وجہ سے مضمون کا مکمل احاطہ محال تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : حمزہ علوی کا یوم وفات
——
مگر ابھی چند برسوں میں جب ذوقی صاحب سے شناسائی ہوئی، اور جب مجھے ان کی بے لوث محبتیں ملیں، تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی اہلیہ محترمہ ہیں، ایک دفعہ میں نے کہہ دیا، سر میم کو میں عرصہ سے جانتا ہوں، مگر یہ اہم راز اب کھلا کہ وہ آپ کی اہلیہ ہیں، ہنس کر کہنے لگے خدا خیر کرے بچے، آپ نے ان کے توسط سے مجھے جانا، یہ بھی ان کی مہربانیاں۔
الغرض دونوں لوگ اعلیٰ ظرفی کا حسین پیکر تھے، جو اپنی ذاتی صفات اور صلاحیتوں کے ساتھ نئی نسل کو سنوارنے کا خوبصورت ملکہ رکھتے تھے، اور یہ دراصل ان کے اخلاق فاضلہ کا پرتو تھا، جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
رب کریم دونوں شخصیات کی بال بال مغفرت فرمائے۔
——
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
——
منتخب کلام
——
کہیں کچھ جل رہا ہے
——
جب پرندے لہولہان ہو کر آسمان سے گر رہے تھے
میں پانی کے قطرے سے موتی چن رہی تھی
جب کبوتروں کے غول غائب تھے
آسمان پر شمشیریں چمک رہی تھیں
میں بادلوں کو بوسہ دے رہی تھی
آسمانی بخشش نے میرے کورے کینواس پر
لکھ دی ایک نظم
وہاں ساحلوں پر اڑتے ہوئے پرندے تھے
بارش تھی
اور کبوتروں کے غول
آسمان کا رنگ نیلا تھا
پریاں کوہ قاف سے دعائیں لے کر لوٹی تھیں
موت کی سرحدوں سے الگ
جب بچوں کی لوریوں میں
خوف کی موسیقی شامل ہو رہی تھی
میں ایک اچھے دن کی نظم
پریوں کی کہانی کے ساتھ
ان بچوں کو سنانا چاہتی تھی
——
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
——
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے
خوشی کے لئے گھر ہی کافی نہیں ہے
کہ گھر سے الگ کی بھی چاہت رہی ہے
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
میں ویرانیوں کی اداسی کی تنہائیوں کی پسند ہوں
جزیرے بناتی ہوں پھر توڑتی ہوں
میں خوابوں کو آباد کرتی بھی ہوں راکھ کرتی بھی ہوں
میں آزاد اڑتا پرندہ ہوں جس کے لئے
آسماں کی اڑانیں بھی کم پڑ گئی ہیں
زمیں تھم گئی ہے
چراغوں کو جلنے کی عادت رہی ہے
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
میں نادیدہ خوابوں کا احساس ہوں
فلک تک جو گونجے وہ آواز ہوں
دلوں تک جو پہنچے میں وہ ساز ہوں
گھٹن قید بندش کے احساس سے کورے جذبات سے دور ہوں مطمئن
میں سمندر ہوں بہتی ہوا اور گرجتی ہوئی موج ہوں
میں سکندر کولمبس ہوں آزاد ہوں
کہکشاں سے الگ کہکشاں اور بھی ہیں
جہانوں میں کیوں خود کو میں قید رکھوں جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
میری فطرت میں میری طاقت رہی ہے
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
——
محبت جسم ہے مانا
——
کوئی آواز تھی جس کے تلاطم میں
یوں بہہ جانا کہاں منظور مجھ کو تھا
کہیں وحشت کے ان دیکھے بھنور کے سات پردے تھے
جو زندانوں میں کھلتے تھے
ہر ایک زنداں میں میں تھی
اور مری سرشار طبیعت کے ہر ایک لمحے کی سانسوں میں
کہیں میری انا تھی میری طاقت تھی محبت تھی
میں کب ایسی کسی آواز کی زد میں
محبت ڈھونڈھتی تحلیل ہوتی
اور آوارہ سی کچھ موجوں میں مل کر خود کو کھو دیتی
محبت جسم ہے مانا
مگر سرشار روحوں کی الگ بھی ایک بستی ہے
خیالوں سے پرے بھی اک نگر ہے
جس میں ہم تم زندگی کی فاقہ مستی اور اداسی اور خاموشی کے جنگل سے گزرتے ہیں
جہاں ویرانیوں کی سلطنت میں
دیدہ و نادیدہ خواب بنتے اور اجڑتے ہیں
کہیں ہم راستے کے سنگ پاروں سے الجھ کر
ایک لمحے میں ہزاروں بار جیتے اور مرتے ہیں
محبت جسم کے چھوٹے سے حجرے کے
کسی گوشے میں رہتی ہے
یہاں روزن نہیں کوئی
کہیں سے روشنی کی اک کرن اندر نہیں آتی
بہت گہرا اندھیرا ہے
تصور اور خیالوں کی گزر گاہوں پہ پہرا ہے
محبت ایک لا حاصل سفر کا ساتواں پردہ ہے
جس میں اک سمندر اس کی طغیانی خموشی کا بسیرا ہے
سمندر شانت ہوتا ہے تو پستانوں سے لہریں یوں لپٹتی ہیں
کہ جیسے گھن گرج کے بعد سرشاری کا لمحہ ہو
اسی لمحے میں وقفے میں
محبت بے کراں ہوتی ہے جیتی ہے
محبت گنگناتی اور بکھرتی ہے
محبت جاوداں ہوتی مہکتی ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ