اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر تاج سعید کا یوم وفات ہے۔

تاج سعید
(پیدائش: 16 ستمبر، 1933ء – وفات: 23 اپریل، 2002ء)
——
تاج سعید پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز نقاد، شاعر، صحافی اور مترجم تھے۔
——
حالات زندگی
——
تاج سعید 16 ستمبر، 1933ء کو پشاور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام تاج محمد تھا تھا۔ ان کے شعری مجموعوں میں سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ اور شہر ہفت رنگ اور نثری کتابوں میں کرشن نگر، جہان فراق، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز: فن اور شخصیت، خوشحال شناسی، شکیل بدایونی: فن و شخصیت اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔
تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے جن میں قند مردان، ارژنگ پشاور اور جریدہ پشاور کے نام شامل ہیں۔
تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سعید احمد اختر کی برسی
——
تصانیف
——
کرشن نگر
خوشحال شناسی (ترتیب بہ اشتراک زیتون بانو)
اُردو کے پریم گیت
دھڑکنیں (علاقائی افسانوں کے تراجم)
چہرہ نما ( مضامین)
ہم قلم
مرے خدا مرے دل(مجید امجد کی شعری تخلیقات کا انتخاب)
منتخب تحریریں (ترتیب بہ اشتراک جوہر میر)
سوچ سمندر (شاعری)، (33 نظمیں،29 غزلیں،14 دوھے، 21 گیت)
شہر ہفت رنگ (شاعری)
رتوں کی صلیب (شاعری)
جہان فراق
پشتو ادب کی مختصر تاریخ
بنجارے کے خواب
احمد فراز: فن اور شخصیت
خوشحال شناسی
شکیل بدایونی: فن و شخصیت
——
وفات
——
تاج سعید 23 اپریل، 2002ء کو پشاور، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ پشاور میں قبرستان نزد لوتھیہ میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
تاج سعید از آغا بابر
——
وہ شخص ہمیشہ مجھے اچھے لگتے رہے جنہوں نے محبت اور امید کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ حالات عموماََ سازگار کم اور ناسازگار زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہی ہوتا آیا ہے ۔ فلسفۂ حیات تو یہی ہے ۔ ہمت اور امید ہاتھ میں رہے اور ہماری زندگی کے دامن میں یہ اکسیر بندھی رہے کہ سنہری شعائیں یہیں سے پھوٹتی ہیں اور چمنستانِ حیات میں پھول پتیاں یہیں سے کھلتی ہیں ۔
ہمیشہ تاج سعید مجھے اس لیے اچھا لگتا رہا کہ اس نے نئے سورج کی روشنی میں ہر روز ہمت اور امید کی کرنوں کو اپنے باطن میں جذب کیا ۔
میرے قریب وہ مجذوب باادب ہے ۔
اس کی تالیفات کی تعداد دیکھوں ، اس کی کالم نگاری دیکھوں ، اس کی خصوصی اشاعتیں دیکھوں ، تصانیف پر نگاہ ڈالوں یا زیرِ اشاعت تحریروں کو شمار کروں ۔
——
مصحفیؔ ہم تو سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
——
دوہے وہ کہے ، غزلیں وہ لکھے ، ناٹک پر جان وہ دے ۔ واللہ میرا کوئی منڈوا تھیٹر ہوتا تو میں تاج کو ہیرو کا پارٹ دیتا کہ اس کی آنکھوں میں عشق کی تمازت ، دل میں محبت کا تپاک اور جان پر کھیل جانے کا ولولہ ہے جو عاشقوں سے خاص ہوتا رہا ۔
پریشان خٹک ایک دفعہ تاج سیعد اور اس کی اہلیہ زیتون بانو کی محبت کی بات کسی سے کہہ رہے تھے ۔ میرے کانوں نے سنی اور جی خوش ہوا کہ فرسودہ رسموں اور پامال روایتوں کو توڑنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور خدا ان سے خوش ہوتا رہے گا ۔
پشاور والے خاطر غزنوی ، محسن احسان ، فارغ بخاری جب یاد آتے ہیں تو ان کے ساتھ میرے جی کو تاج سعید بھی گدگداتا ہے جو غزل کا ماہیا گاتا ہے اور تخلیقی سفر پر ایک خلاقانہ وارفتگی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ یہ عشق کا جذبہ سلامت رہے ۔
——
بحوالہ : شہرِ ہفت رنگ ، صفحہ نمبر 9
——
یہ بھی پڑھیں : معروف صحافی اور سفر نامہ نگار علی سفیان آفاقی کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
نہ رتوں کو کوئی صلیب دے
نہ کسی کو کوئی رقیب دے
تیری چاہ کے ہیں جو قدرداں
انہیں دے تو اچھا نصیب دے
جو تری رضا سے نہال ہے
وہ ترے ہی باغ کا لال ہے
اسے حوصلے کی کٹار دے
کہ جو اس کے نفس کو مار دے
وہ جو تیرے دل کے قریں رہے
وہ ہمیشہ ماہ جبیں رہے
وہ قرارِ جاں بھی بنا رہے
کہ یہ دشت سارا سجا رہے
جو یہ باغ ہم نے لگائے ہیں
وہ تیرے کرم کے ہی سائے ہیں
مرے واسطے ہیں قرارِ جاں
جو بھٹک گئے ہیں وہ کارواں
انہیں منزلوں کا نشاں ملے
انہیں تیرے کرم کا جہاں ملے
مجھے حرف حق کی نوید دے
مجھے راستوں کی کلید دے
تو نبی کی آل کا پیار دے
تو علیؓ کے در کی بہار دے
تو دھنک کے رنگ نکھار دے
مجھے ان سُروں کا وہ تار دے
کہ میں تیرے نغمے ہی گا سکوں
کہ میں سب کو یہ بھی بتا سکوں
تیرا روپ میری بہار ہے
تجھے مجھ حقیر سے پیار ہے

شہرِ ہفت رنگ ، صفحہ نمبر 32
——
میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر
میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی
——
ایسی نگاہ پیار کی یوں تاجؔ کو ملی
دل کے نگر میں ایک دیا سا جلا لیا
——
اپنے دل میں یادوں نے زخموں کے پھول کھلائے ہیں
جسم کی اس دیوار کے اندر کس نے نقب لگائی ہے
——
الفاظ کے گہر تری خاطر پرو لیے
یہ بھی تو تیرے حُسنِ طلب کا کمال ہے
——
بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعیدؔ
لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی
——
مجھ سے کنی کاٹ نہ گوری میں ہوں تیری چھایا
میں اک داتا جوگی بن کر تیری گلی میں آیا
——
کالی گھٹا میں چاند نے چہرہ چھپا لیا
پھولوں کی رت نے باغ سے خیمہ اٹھا لیا
روٹھے ہیں وہ تو وصل کی رت خواب ہو گئی
ہم نے جدائیوں کو گلے سے لگا لیا
جشن طرب کی رات بڑی خوش گوار تھی
تیرے بدن کی باس کو رت نے چرا لیا
اک گلبدن ملی جو سراپا سپاس تھی
آنکھوں کے راستے اسے دل میں بٹھا لیا
ایسی نگاہ پیار کی یوں تاجؔ کو ملی
دل کے نگر میں ایک دیا سا جلا لیا
——
شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی
ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی
جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں
مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی
چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا
رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی
میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر
میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی
بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعیدؔ
لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی
——
کالی گھٹا میں چاند نے چہرہ چھپا لیا
پھولوں کی رت نے باغ سے خیمہ اٹھا لیا
روٹھے ہیں وہ تو وصل کی رت خواب ہو گئی
ہم نے جدائیوں کو گلے سے لگا لیا
جشن طرب کی رات بڑی خوش گوار تھی
تیرے بدن کی باس کو رت نے چرا لیا
اک گلبدن ملی جو سراپا سپاس تھی
آنکھوں کے راستے اسے دل میں بٹھا لیا
ایسی نگاہ پیار کی یوں تاجؔ کو ملی
دل کے نگر میں ایک دیا سا جلا لیا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ