ٹینکوں کی جنگ بر محاذِ سیالکوٹ 1965ء

آتی ہے جب بھی اے ندیم موجِ صبائے سیالکوٹ

آتی ہے مجھ کو بالیقیں بوئے وفائے سیالکوٹ

یاد ہے وہ شب سیاہ اور وہ عالمِ سکوت

آئے تھے جب مثالِ دزد مادرِ ہند کے سپوت

دشمنِ دیں وہ کینہ توز آئے وہاں تھے بہرِ جنگ

دل میں لئے ہوئے لعیں فتحِ مبیں کی اک امنگ

ساماں کئے ہوئے ہزار آئے وہاں صنم پرست

فوجِ پیادہ و سوار ٹینک مثالِ فیلِ مست

امن و اماں کے شہر میں لوگ پڑے ہوئے خموش

خواب کا عالمِ سرور تھا نہ کسی کو کوئی ہوش

اٹھا جو شورِ حشر خیز جاگے وہاں کے سب غیور

ڈالی جو ہر طرف نگاہ دیکھا عدوئے پر غرور

چونکے جو خواب سے یہ شیر دیکھ سکے نہ یہ سماں

جنگ کے آزمودہ کار پہنچے وہاں وہ تھے جہاں

گرجے عدو پہ مثلِ رعد چمکے سروں پہ مثلِ برق

دم بھر میں کر دیا انہیں آب جوئے لہو میں غرق

فوجِ خدائے لا شریک تھی جو ادھر شریکِ حال

ان کی صفوں میں آشکار خوف و ہراس و اختلال

دشمنِ دیں پہ تھا وہ رعب بھاگے وہ رکھ کے سر پہ پاؤں

خالی پڑے تھے ان کے شہر اجڑے پڑے سب ان کے گاؤں

آئے تھے دشمنانِ دیں شیروں پہ ڈالنے کمند

اپنے ہی دام میں اسیر آخر ہوئے یہ گو سفند

شکرِ خدائے دو جہاں لازم نظرؔ ہے ہم پہ آج

رکھا ہے جس نے سرفراز رکھی وطن کی جس نے لاج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]