اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعرہ ، محققہ ، مصنفہ اور استاد ڈاکٹر تنظیم الفردوس کا یومِ پیدائش ہے

ڈاکٹر تنظیم الفردوس(پیدائش: 28 مئی 1966ء )
——
ڈاکٹر تنظیم الفردوس پاکستان میں اردو زبان کی ایک استاد، محقق اور مصنفہ ہیں۔ وہ مئی 2016ء سے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں بطورِ صدر شعبہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں. وہ مقامی اور بیرونی طلبہ و طالبات کو اُردو کی تدریس کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اردو کی اسناد/ڈپلوما جات کے لیے نصاب بھی ترتیب دیتی ہیں۔ وہ نصف درجن سے زائد مطبوعہ کتب کی مصنفہ اور مؤلفہ ہیں۔
ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے جامعہ کراچی سے انگریزی، سندھی اور فارسی زبان کے کورسز کیے اور جامعہ ھٰذا سے 1989ء میں اُردو زبان و ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد سن 2004ء میں اُردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی، اُن کے پی ایچ ڈی مقالہ کا عنوان ” اردو کی نعتیہ شاعری میں امام احمد رضا کی انفرادیت​ و اہمیت“ ہے۔
وہ لگ بھگ 1992ء سے مختلف اداروں میں تدریس سے وابستہ ہیں، گورنمنٹ کالج برائے خواتین، پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں تین برس بطورِ لیکچرر تعینات رہیں، بعد ازاں30 اپریل 1995ء سے جامعہ کراچی کے شعبۂ اُردو میں پوسٹ گریجویٹ کلاسزکو تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور اب (2016ء سے تا حال اپریل 2017ء تک) صدرِ شعبہ ہیں۔
——
تصانیف
اُن کی طبع شُدہ کتب میں سے چند کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر اسرار احمد کا یوم پیدائش
——
مجموعۂ شاعری : منظر بدلنا چاہیے مطبوعہ 2016ء، قرطاس، فیصل آباد
تنقید: ممتاز شیریں شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان
انتخابِ کلام: رضا علی وحشت (تالیف)، 2017ء، آوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
انتخابِ کلام: شبلی نعمانی (تالیف)، 2015ء، آوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
انتخابِ کلام: بہادر شاہ ظفر (تالیف)، 2015ء، آوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
انتخابِ کلام: امیر مینائی (تالیف)، 2014ء، ادراۂ یادگارِ غالب کراچی
اُردو شاعری کی چند کلاسیکی اصناف: عہدِ حاضر کے تناظر میں، 2013ء، ادراۂ یادگارِ غالب کراچی
جنگِ آزادی 1857ء؛ تاریخی حقائق کے نئے زاویے، 2012ء، قرطاس، کراچی؛ اشاعتِ اول 2010ء
فُٹ فالس ایکو (Foot Falls Echo)، ممتاز شیریں کے انگریزی افسانوں کا مجموعہ، 2006ء، منزل اکیڈمی، کراچی
——
غیر مطبوعہ کُتُب
——
مشرق اور مغرب کی کہانیاں (تالیف)، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد
انتخابِ خطوطِ غالب (تالیف)، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
——
مضامین
——
مختلف رسائل و جرائد میں چھپنے والے چند مقالہ جات
مولانا احمد رضا خان کی شاعری میں لسانی تشکیلات اور مقامی اثرات: ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، اپریل 2000ء۔
مولانا احمد رضا خان کی نعت گوئی کا سب سے اہم محرک: ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، نومبر 2004ء
علامہ مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں ہیئت کا تنوع: ماہنامہ معارفِ رضا سلور جوبلی سالنامہ نومبر 2005ء
وقت کے اجتہادی مسائل میں مولانا احمد رضا خان اورعلامہ اقبال کا موقف۔ علامہ اقبال کا تصور اجتہاد (مجموعۂ مقالات) 2008ء۔
——
مدبر استاد ’عمدہ تخلیق کار‘ سنجیدہ فکر محقق ونقاد ، تنظیم الفردوس از ڈاکٹر رابعہ سرفراز
——
صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی ’اردو کی باذوق استاد‘ محقق اور شاعرہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے والد محترم اعلیٰ شعری ذوق کے مالک تھے۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کو یہ شعری ذوق ورثے میں ملا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ”اردو کی نعتیہ شاعری میں امام احمد رضاکی انفرادیت و اہمیت“ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ 1995ء میں شعبہ اردو ’جامعہ کراچی سے بطور استاد منسلک ہوئیں۔ آپ مئی 2016ء سے صدر شعبہ اردو جامعہ کراجی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر تنظیم الفردوس تحقیق‘ تنقید اور شاعری کے حوالے سے درجن بھر کتب کی مصنفہ ہیں۔ میرا ڈاکٹر تنظیم الفردوس سے ابتدائی تعارف اگست 2006ء میں اس وقت ہوا جب وہ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے زیراہتمام منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ہماری دعوت پر فیصل آباد تشریف لائیں اور تحقیق و تنقید کے عنوان کے تحت اس کانفرنس میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ اور دیگر مہمانان گرامی کو چناب کلب فیصل آباد میں ٹھہرایا گیا۔
کانفرنس کے وہ تین روز مصروفیت سے بھرپور تھے لیکن ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ خوب گپ شپ رہی۔ اس کے بعدسندھ یونیورسٹی جام شورو اور شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کی کانفرنسوں اور شعبہ اردو ’جامعہ کراچی کی ادبی نشستوں میں ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ بھرپورملاقاتیں خوشگوار یادوں کا اثاثہ ہیں۔ مہمان نوازی‘ محبت اور شفقت ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ فکر محقق اور نقاد ہیں۔ جامعہ کراچی کی ادبی نشستوں نے ان کے شعری ذوق کی آب یاری کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : احمد ندیم قاسمی (ما ہ و سال کے آئینے میں) سوانحی خاکہ
——
”منظر بدلنا چاہیے“ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ 2016ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ ممتاز شیریں کے حوالے سے ان کا تحقیقی و تنقیدی کام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف تحقیقی جرائد میں ان کے مقالے تواتر کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں مثبت فکر کی مالک یہ استاد جرات اور حوصلے کی مثال ہے۔ انھوں نے زندگی کے مصائب کو کبھی اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ زندگی کو زندہ دلی سے بسر کرتی ’سیروتفریح کی دلدادہ‘ علمی و ادبی کانفرنسوں کی عمدہ منتظم اور نفاذ اردو کے لیے عملی طور پر متحرک ڈاکٹر تنظیم الفردوس اردو دنیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہیں۔
ان کی گفتگو کی خاص تاثیر اورلہجے کی پختگی ان کے ظاہر و باطن کے مضبوط اور پائیدار تعلق کی عکاس ہے۔ وہ چین ’ایران‘ جاپان اور ہندوستان کے اسفار کرچکی ہیں۔ تدبر اور تفکر ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ ڈکشنری بورڈ کراچی ’سندھ بورڈ کے مختلف مدارج کے نصاب کی ترتیب‘ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ مختلف رسائل و جرائد سے وابستہ ہیں۔ ادارہ یادگار غالب کراچی سے بطور معتمد منسلک ہیں۔ مختلف ادبی اور سماجی انجمنوں کی فعال رکن ہیں۔ ان کی مستقل مزاجی اور سنجیدہ علمی کاوشوں نے انھیں اردو دنیا میں ایک باوقار مقام عطا کیا ہے۔ میں نے ہمیشہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کو مشفق اور مہربان روپ میں ہی دیکھا ہے۔ ایسی علمی و ادبی شخصیات اردو دنیا کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ ان کی عزت و وقار میں مزید اضافے کے لیے بہت دعا۔
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے
یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے
ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پکارا ہے
مجھے تو دوجہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے
بوقت مرگ ان کا نور روشن قبر کو کر دے
فقط اس آس پر تیرگی جاں کو گوارا ہے
یہ دل کا تنگ دروازہ اسی دستک ہی کھل جائے
کوئی کہہ دے چلو تم کو مدینے کا اشارہ ہے
یہی کافی ہے مل جائے محبت اس گھرانے کی
سوا اس کے جہاں میں بس خسارہ ہی خسارہ ہے
میں امکانات کی دنیا میں حیرت کی مسافروں ہوں
مکاں یا لا مکاں ہو، ان کی رفعت کا اشارہ ہے
نگا ہے کور ان کے نام نامی سے چمکتی ہے
سماعت کو تو اک اسم مبارک ہی سہارا ہے
——
ہمیں تلاش بہت دور لے گئی جس کی
خبر ملی کہ سدا دل میں وہ ہمارے رہا
——
بے نشان راہوں میں خوشبووں کے ڈیرے ہیں
کچھ ہوا بتاتی ہے یہ گلی تو اس کی ہے ۔
——
وہ ہمنوا تھا مرا ، دوست اور مسیحا بھی
مگر اسی نے کیا پہلی بار مجھ کوتنہا بھی
——
وہ اک نگاہ بہت تھی بہارِ جاں شاید
جو خاک اڑنے لگی دل میں تو پتا یہ چلا
——
بچھڑ کے تجھ سے خبر بھی نہیں ملی اپنی
کوئی بتاو کہ یہ عمر کیا ہوئی اپنی
——
روز ملتے بھی ہو خفا بھی ہو !
تم مرے درد آشنا بھی ہو ؟
——
سب سفر پر نکلے تھے رات ہوگئی ورنہ
آدمی نے انساں کو ڈھونڈ ہی لیا ہوتا
——
مطلع میں کہی بات کچھ انداز بدل کر
دشمن سے مِلی داد پر آواز بدل کر
——
وہ اپنے حال میں گم ہے اسے پتا ہی نہیں
میں اُس کے پاس ہوں لیکن مجھے ملا ہی نہیں
——
ہیں میرے قتل میں شامل تمام اہلِ کرم
کسی کے ہاتھ پہ لیکن مجھے لہو نہ ملا
——
دھوپ میں برسات کا منظر بدلنا چاہیے
اب ہماری ذات کا منظر بدلنا چاہیے
پتھروں میں زندگی کی لہر دوڑانے کے بعد
برف جیسی رات کا منظر بدلنا چاہیے
——
سر ہم نے کٹا کر بھی رکھی لاج وفا کی
بیداد گرو دادِ وفا کیوں نہیں دیتے
رکھو گے کشاکش یہ شب و روز میں کب تک
تم اپنی انا ہی کو مٹا کیوں نہیں دیتے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ