پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ، ممتاز محقق ، نقاد ، سفر نامہ نگار، مذہبی اسکالر اور عربی کے یگانۂ روزگار فاضل
(ان کا سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”۔
فیصل آباد میں سفر نامہ نگاری میں ایک خوبصورت اضافہ)

سفر اور سیروسیاحت انسان کی فطرت میں ہے ۔شروع سے اب تک وہ حالت سفر میں ہے ۔وہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کو دیکھنے کا ہمیشہ سے خواہش مند رہا ہے۔اللہ تعالی نے تمام کائنات کو جس نظام کے تحت چلا رکھا ہے وہ نظام سفر پر ہی مبنی ہے ۔جیسے سورج، چاند ،ستارے، انسان غرض کائنات کی ہر شے محو سفر نظر آتی ہے۔انسان کا جسم اور اس کا اندرونی نظام زیر مشاہدہ لایا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ دھڑکن مسلسل سفر کر رہی ہے اور دھڑکن ہی نوید زندگی ہے۔ اگر دل کی دھڑکن سفر کرتی ہے تو ہی زندگی کا سفر رواں دواں رہتا ہے ۔سفر انسان کی فطرت میں ہے اور اس کی سفر پسندی کی وجہ یہ ہے کہ وہ فطری طور پر تنوع پسند ہے وہ جس معاشرے اور ماحول میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے اس کی یک رنگی سے اکتا جاتا ہے۔لہٰذا وہ اپنی اس یک رنگی اور یکسانیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سفر اور سیر و سیاحت کے لیے نکل پڑتا ہے۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی میں ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ اردو میں سفرنامہ آہستہ آہستہ وقت کے تقاضوں اور ہر دور کے نئے اسلوب سے ہم آہنگ ہوتا رہا ۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا آغاز انیسویں صدی میں یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامہ "تاریخ یوسفی” المعروف "عجائبات فرنگ” سے ہوتا ہے۔”عجائبات فرنگ” اردو کا پہلا سفر نامہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔اردو کا دوسرا قدیم سفر نامہ سید فدا حسین عرف نبی بخش کا سفرنامہ "کابل” تاریخ افغانستان ہے۔جو تاحال شائع نہیں ہوا یہ مخطوطہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود ہے۔اردو کا قدیم ترین سفر نامہ مولوی مسیح الدین علوی خان کا "تاریخ انگلستان” ہے۔اس کا بعد میں نام "سفیر اودھ” رکھ دیا گیا۔اردو ادب میں بہت سے سفرنامے ڈائری کی صورت میں لکھے گئے ہیں ان میں نواب کریم خان کا "سیاحت نامہ” بہترین مثال ہے جس میں قیام لندن کی یادیں موجود ہیں اس ڈائری میں لندن کی تہذیب و ثقافت او ثقافت اور طرز معاشرت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
علاوہ ازیں سرسید احمد خان کا سفر نامہ ” مسافران لندن "جس میں سرسید احمد خان نے انگلستان کے تعلیمی نظام اور طرز معاشرت پر روشنی ڈالی ہے ۔ساتھ ہی اس سفرنامے میں مسلمانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کا ذکر بھی ملتا ہے ۔سر سید کا دوسرا سفر نامہ "سفر پنجاب” کے نام سے شائع ہوا تھا۔
نثار احمد بیگ کا سفر نامہ "سفر نامہ یورپ”،مولانا محمد حسین آزاد نے دو سفر نامے یادگار چھوڑے ہیں۔”سیر ایران "اور ” انیسویں صدی میں وسط ایشیا کی سیاحت”ہے ۔ان کے سفر کا مقصد فارسی کی جامع لغات کی تلاش تھا ۔نواب محمد عمر خان کا سفرنامہ "آئینہ فرنگ "، شبلی نعمانی کا سفر نامہ "روم و مصر شام” ، نواب محمد حامد علی خان کا سفرنامہ ” سیر حامدی "ڈاکٹر شاہ علی سبزواری کا سفرنامہ ” خوفناک دنیا”، مولوی عبدالحق موحد کا سفرنامہ ” سیر برہما "، شیخ عبدالقادر کے دو سفر نامے "مقام خلافت” اور "سیاحت نامہ یورپ” ،قاضی ولی محمد کا "سفرنامہ اندلس "، مولانا عبداللہ سندھی کا سفرنامہ "کابل میں سات دن” محمد وارث علی وارث کا "جدید سفر نامہ مصر و شام” ،شوکت عثمانی کا سفرنامہ "میری روس یاترا ” ،بیگم حسرت موہانی کے سفر نامے ” سیاحت نامہ” ، "سفر نامہ عراق "و دیگر ۔۔۔
——
یہ بھی پڑھیں : بندے ہیں ہم خدا کے ، نبی کے غلام ہیں
——
مندرجہ بالا تمام سفرنامہ میں عبوری دور کی عکاسی کرتی ہیں ۔یوں قدیم سفر نامہ کی روایت میں جدید دور شروع ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سفر نامہ کا زریں دور شروع ہوتا ہے اور صنف سفرنامہ کو نیا موڑ دینے میں سب سے پہلا نام محمود نظامی کا ہے ۔جنہوں نے "نظر نامہ”لکھ کر پاکستان میں سفر نامہ نگاری کو نقطہ آغاز دیا ۔ یہ سفر نامہ اردو سفر نامے کی تاریخ میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے اور قدیم اور روایتی سفرناموں سے نکل کر جدید دور میں داخل ہوتا ہے ۔جدید سفر نامے میں دوسرا بڑا نام بیگم اختر ریاض الدین کا ہے ۔” "سات سمندر پار” اور "دھنک پر قدم” انہوں نے اپنے سفر کے دوران ہر چیز کو غور اور مشاہدے کی نظر سے دیکھا ہے۔ قیوم نظر کا سفرنامہ "پیرس سے روم تک” ، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا "ارض پاک سے دیدار فرنگ تک” ،سلطانہ آصف فیضی کا سفر نامہ ” عروس نیل” ، حاجی حیدر علی خان کا سفرنامہ "دنیا کی سیر” محمد اقبال انصاری کا سفر ” نیلی سے فرات تک” ،ڈاکٹر ثریا حسین کا سفرنامہ "پیرس و پارس”،جمیل الدین عالی کے دو سفر نامے "دنیا میرے آگے” اور "تماشا میرے آگے ” ، بشری رحمن کا سفر نامہ "براہ راست ” ،قراۃ العین حیدر کے دو سفر نامے "جہان دیگر” اور "دکھلائے لے جا کے اسے مصر کے بازار” ،مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے "نکلے تیری تلاش میں” اور "اندلس میں اجنبی” ،ممتاز مفتی کے تین سفرنامے "لبیک” ، "ہند یاترا” اور "شاہراہ ریشم” ، ڈاکٹر وزیر آغا کا سفرنامہ "بیس دن گلستان میں” ، میرزا ادیب کا سفرنامہ "ہمالہ کے اس پار” ، ابن انشا کا "چلتے ہو تو چین کو چلے” ،آوارہ گرد کی ڈائری” ، دنیا گول ہے” ،اور "ابن بطوطہ کے تعاقب میں” ،عطاء الحق قاسمی کے "شوق آوارگی” اور مسافتیں”، کرنل محمد خان کے دو سفر نامے "بجنگ آمد” اور” بسلامت روی”، اے حمید کے سفر نامے "امریکہ میں پانچ سال” ، امجد امجد اسلام امجد کا سفر نامہ "شہر در شہر” اور ریشم ریشم ” ، پروین عاطف کا سفرنامہ "کرن تتلی اور بگولے” ،ریاض احمد پرواز کا سفر نامہ "بھارتی سرزمین پر تین قدم”، ڈاکٹر جعفر حسن مبارک کا سفر نامہ "اے ارض لبنان ” اور کیسپر کے دیس میں” ، حافظ لدھیانوی کے تین سفر نامے ” جمال حرمین ” ، منزل سعادت ” ، ” معراج سفر” ، حسین نازش کا سفرنامہ "دیوار چین کے سائے تلے” ، ڈاکٹر عبد الحق کا سفرنامہ "میں حاضر ہوں” ،ڈاکٹر اعجاز تبسم کا سفرنامہ "یا اللہ میں حاضر ہوں ” اور ” ترکی بہ ترکی” ،ظہیر قریشی کے دو سفر نامے "تیری وادی وادی گھوموں” اور "سبز پوش وادیوں میں” ، ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کا سفرنامہ "لبیک یا رسول اللہ” ، پروفیسر یعقوب مظفر گل کے سفر نامے میں "سفرنامہ ایران” ، ” چین کا چکر” اور "سفر حج اکبر "ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ کا سفرنامہ ” تکمیل آرزو” اور ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا "۔۔۔۔۔۔الغرض مندرجہ بالا حقائق بتاتے ہیں کہ سفرنامہ نے ارتقاء سے زمانہ حال تک کس طرح ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مندرجہ بالا سفر ناموں کے علاوہ بھی سفرناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ صنف اردو سفرنامہ مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اصل مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں گامزن نظر آتی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے
——
لائل پور (فیصل آباد) کے متعلق جسے آباد بھی مسافروں نے کیا اور جسے پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بھی مسافروں نے بنایا ،جدید اردو ادب میں جدید ترین سفرناموں میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔ ہمیں آج جس سفر نامہ پر تفصیلا گفتگو کرنا ہے وہ ہے ۔ممتاز محقق ،نقاد ، سیرت نگار، استاد ، سفر نامہ نگار اور مذہبی سکالر جناب ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا سفر نامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”ہے۔ جو حال ہی میں چھپ کر منصہ شہود پر آیا ہے۔” ترکی جو میں نے دیکھا” میں مصنف کی کثرت مطالعہ اور علمی وفور کی بنا پر سفر نامہ کو معلومات کا ذخیرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس سفرنامہ میں ان کی شخصیت کی ہر جہت نکھر کر سامنے آتی ہے۔اس میں انہوں نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے اور مشاہدات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مبالغہ آرائی کے بغیر یہ سفرنامہ شگفتہ اور دلچسپ ہے ۔”ترکی جو میں نے دیکھا” میں اسلوب نگارش، منظر نگاری ، مکالمہ نگاری ، خودکلامی ، مزاح اور جگہ جگہ اسلامی واقعات کا حوالہ ان کی فنی لوازمات پر دسترس کا ثبوت ہے ۔زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے "ترکی جو میں نے دیکھا” ایک سادہ اور عام فہم سفرنامہ ہے جس کو قاری آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہیں بھی دقیع اور مشکل الفاظ کا استعمال نظر نہیں آتا۔اس لیے انہوں نے اس سفر نامے میں منفرد اور جداگانہ طرز اسلوب نگارش اپنایا ہے ۔جس سے ان کی پہچان الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ اسلوب کا عمدہ اور منفرد ہونا ہی اس سفر نامے کی ادبی چاشنی کو نمایاں کرتا ہے۔واقعات و تجربات کو بیان کرنے کا انداز سفرنامے میں تنقید اور تقابل کرنے کا انداز اور پھر تمام تر واقعات و مشاہدات کو بیان کرنے کا انداز سب خوبیاں اس سفرنامے کے اسلوب کو نیا آہنگ دیتی ہیں ۔”ترکی جو میں نے دیکھا” کا اسلوب دلکش اور شگفتہ ہے۔ اس لیے یہ قاری کو بھی متاثر کرتا ہے اور قاری کے تجسس کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ایک جہاندیدہ دانشور اور مذہبی سکالر ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی نسلوں کی آبیاری کرتے ہوئے گزاری ،شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج سندھ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سےفارغ التحصیل اس نابغہ روزگار استاد نے دلوں کو مسخر کیا ۔
عربی زبان و ادب کے ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سارے اہم مناصب پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دیا۔آپ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں پروفیسر عربی زبان و ادب کے طور پر ایک طویل عرصہ درس و تدریس سے منسلک رہے ۔علاوہ ازیں آپ چیئرمین شعبہ عربی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ،چیئرمین ہال کونسل جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ،تقریبا آٹھ سال پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سمن آباد فیصل آباد ،ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویژن اور چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن فیصل آباد کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں ۔آج کل فارغ البال ہیں اور اپنی تمام تر توجہ اپنی تصنیف و تالیف کی طرف مرکوز کیے ہوئے ہیں۔اردو زبان میں لکھے گئے علمی ، ادبی ، تہذیبی ، معاشرتی اور ثقافتی موضوعات پر ان کے کالم و مضامین فکر ونظر کے نئے دریچے وا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : عبادت بریلوی کا یوم پیدائش
——
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے مسلسل پینتیس برس درس وتدریس میں گزارے ۔اُن کے لاکھوں شاگرد ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں جو ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے قلم سے ان کی ریڈیائی نشریاتی تقاریر اور مضامین پر مشتمل ان کی نصف درجن پر مشتمل تصانیف منصہ شہود پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ جن میں ” قول حسن ” ، قول سدید” ، قول حکیم” ، قول مجید” ،قول مبین” ، قول عظیم” اور زیر تبصرہ تصنیف سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”۔ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے پرورش لوح وقلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی دینی، علمی،ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر انھیں ایک نابغہ ٔ روزگار ہستی قرار دیاجاتا ہے ۔عربی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف ہے۔ عربی اور اردو زبان میں لکھے گئے اسلامی، علمی ، ادبی ، تہذیبی ، معاشرتی اور ثقافتی موضوعات پر ان کے کالم فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئے ہیں۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو سدا پیش نظر رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا شیوہ ہے ۔اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو انھوں نے جس خوبصورتی سے پیرایۂ اظہار عطا کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔اپنی تخلیقی تجربات سے انھوں نے افکارِ تازہ کے وسیلے سے جمود کا خاتمہ کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک خاص نوعیت کی فکر ی منہاج اور ذہنی فضا تیار کی جس کے معجز نما اثر سے حریت فکر کو اپنا کر حریت ضمیر سے جینے کا ولولہ پیدا ہوا۔ان کی مستحکم شخصیت کی تشکیل میں ان کے اعلیٰ کردار کا گہرا عمل دخل رہا ہے ۔علم و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور انسانیت کے ساتھ ان کا والہانہ پیار ان کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔
"ترکی جو میں نے دیکھا ” میں انھوں نے جن چار یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے وہ قابل ذکر ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ "ایک وہ لمحہ تھا جب ہم نے استنبول ایرپورٹ پر پہلا قدم رکھا تھا ۔عظیم ترکی کی سرزمین ہواؤں ،فضاؤں کی خوشبوئیں آج بھی مشام جاں کو معطر کیےہوئے ہیں۔ دوسرا وہ لمحہ تھا جب اچانک وہ اور ان کی اہلیہ چہل قدمی کرنے ترکی کے خوبصورت ساحلی شہر انطالیہ میں اپنے ہوٹل سے متصل گلیوں میں رات کے پرسکون لمحوں میں ایک دل فریب منظر کے مقابل آ کھڑے ہوۓ۔”تیسرا یادگار لمحہ وہ یہ بتاتے ہیں "کہ جب ہم عصر حاضر کی عظیم اسلامی و ملی شناخت نو ” آیا صوفیہ”کے سامنے کھڑے تھے۔اس مسجد سے مجھے اس لیے بھی جذباتی تعلق اور پیار ہے کہ اس کی تحویل سے کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے۔اور اہل حق کے دلوں میں ایمان کی جلتی شمع کی لو مزید بڑھنے لگتی ہے۔”
——
یہ بھی پڑھیں : فاروق قیصر کا یومِ وفات
——
"چوتھا یادگار لمحہ بارگاہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ کا تھا ۔کیف و سرور کے لمحے ، روحانیت کے منظر ،ایمان افروزی کا احساس، تصوراتی نظر سے وہ سب مناظر دیکھے” ۔
یہ سارے واقعات پڑھ کر دل میں عشق و محبت کی شمع فروزاں ہو جاتی ہے ۔ ترکی سے ان کی محبّت اور شناسائی کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف بچپن سے سنا کرتے تھے کہ برصغیر کی عظیم علمی اور سیاسی شخصیات اور تحریک خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ نے اپنی بیٹیوں کو خلافت پر جان دینے کی تلقین اس طرح کی کہ یہ برصغیر کے بچوں ، نوجوانوں اور مسلمانوں کا مقبول ترانہ بن گئی۔”بولی اماں محمد علی کی،۔۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو”۔۔۔اس طرح تحریک اسلامی کے کچھ دیگر دھندلے نقوش کے ساتھ خلافت عثمانیہ اور اس کے مرکز ترکی کا نقشہ بھی پختہ ہوتا گیا۔ترکی سے محبت کی چنگاریاں کبھی کبھی بھڑکنے کی کوشش کرتیں تب ترکی کا کوئی حکمران پاکستان کے دورے پر آتا، سلیمان دیمرل،ترگت اوزال اور اس طرح کے دیگر حکمرانوں کے تذکرے سننے کو یا انھیں پاکستان میں دیکھنے کا موقع ملتا۔اردو سے ترکی سے محبت کی چنگاری اس طرح شعلہ جوالہ بنتی چلی گئی۔
(ان کا سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”۔
فیصل آباد میں سفر نامہ نگاری میں ایک خوبصورت اضافہ)

سفر اور سیروسیاحت انسان کی فطرت میں ہے ۔شروع سے اب تک وہ حالت سفر میں ہے ۔وہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کو دیکھنے کا ہمیشہ سے خواہش مند رہا ہے۔اللہ تعالی نے تمام کائنات کو جس نظام کے تحت چلا رکھا ہے وہ نظام سفر پر ہی مبنی ہے ۔جیسے سورج، چاند ،ستارے، انسان غرض کائنات کی ہر شے محو سفر نظر آتی ہے۔انسان کا جسم اور اس کا اندرونی نظام زیر مشاہدہ لایا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ دھڑکن مسلسل سفر کر رہی ہے اور دھڑکن ہی نوید زندگی ہے۔ اگر دل کی دھڑکن سفر کرتی ہے تو ہی زندگی کا سفر رواں دواں رہتا ہے ۔سفر انسان کی فطرت میں ہے اور اس کی سفر پسندی کی وجہ یہ ہے کہ وہ فطری طور پر تنوع پسند ہے وہ جس معاشرے اور ماحول میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے اس کی یک رنگی سے اکتا جاتا ہے۔لہٰذا وہ اپنی اس یک رنگی اور یکسانیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سفر اور سیر و سیاحت کے لیے نکل پڑتا ہے۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی میں ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ اردو میں سفرنامہ آہستہ آہستہ وقت کے تقاضوں اور ہر دور کے نئے اسلوب سے ہم آہنگ ہوتا رہا ۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا آغاز انیسویں صدی میں یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامہ "تاریخ یوسفی” المعروف "عجائبات فرنگ” سے ہوتا ہے۔”عجائبات فرنگ” اردو کا پہلا سفر نامہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔اردو کا دوسرا قدیم سفر نامہ سید فدا حسین عرف نبی بخش کا سفرنامہ "کابل” تاریخ افغانستان ہے۔جو تاحال شائع نہیں ہوا یہ مخطوطہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود ہے۔اردو کا قدیم ترین سفر نامہ مولوی مسیح الدین علوی خان کا "تاریخ انگلستان” ہے۔اس کا بعد میں نام "سفیر اودھ” رکھ دیا گیا۔اردو ادب میں بہت سے سفرنامے ڈائری کی صورت میں لکھے گئے ہیں ان میں نواب کریم خان کا "سیاحت نامہ” بہترین مثال ہے جس میں قیام لندن کی یادیں موجود ہیں اس ڈائری میں لندن کی تہذیب و ثقافت او ثقافت اور طرز معاشرت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
علاوہ ازیں سرسید احمد خان کا سفر نامہ ” مسافران لندن "جس میں سرسید احمد خان نے انگلستان کے تعلیمی نظام اور طرز معاشرت پر روشنی ڈالی ہے ۔ساتھ ہی اس سفرنامے میں مسلمانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کا ذکر بھی ملتا ہے ۔سر سید کا دوسرا سفر نامہ "سفر پنجاب” کے نام سے شائع ہوا تھا۔
نثار احمد بیگ کا سفر نامہ "سفر نامہ یورپ”،مولانا محمد حسین آزاد نے دو سفر نامے یادگار چھوڑے ہیں۔”سیر ایران "اور ” انیسویں صدی میں وسط ایشیا کی سیاحت”ہے ۔ان کے سفر کا مقصد فارسی کی جامع لغات کی تلاش تھا ۔نواب محمد عمر خان کا سفرنامہ "آئینہ فرنگ "، شبلی نعمانی کا سفر نامہ "روم و مصر شام” ، نواب محمد حامد علی خان کا سفرنامہ ” سیر حامدی "ڈاکٹر شاہ علی سبزواری کا سفرنامہ ” خوفناک دنیا”، مولوی عبدالحق موحد کا سفرنامہ ” سیر برہما "، شیخ عبدالقادر کے دو سفر نامے "مقام خلافت” اور "سیاحت نامہ یورپ” ،قاضی ولی محمد کا "سفرنامہ اندلس "، مولانا عبداللہ سندھی کا سفرنامہ "کابل میں سات دن” محمد وارث علی وارث کا "جدید سفر نامہ مصر و شام” ،شوکت عثمانی کا سفرنامہ "میری روس یاترا ” ،بیگم حسرت موہانی کے سفر نامے ” سیاحت نامہ” ، "سفر نامہ عراق "و دیگر ۔۔۔
——
یہ بھی پڑھیں : بندے ہیں ہم خدا کے ، نبی کے غلام ہیں
——
مندرجہ بالا تمام سفرنامہ میں عبوری دور کی عکاسی کرتی ہیں ۔یوں قدیم سفر نامہ کی روایت میں جدید دور شروع ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سفر نامہ کا زریں دور شروع ہوتا ہے اور صنف سفرنامہ کو نیا موڑ دینے میں سب سے پہلا نام محمود نظامی کا ہے ۔جنہوں نے "نظر نامہ”لکھ کر پاکستان میں سفر نامہ نگاری کو نقطہ آغاز دیا ۔ یہ سفر نامہ اردو سفر نامے کی تاریخ میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے اور قدیم اور روایتی سفرناموں سے نکل کر جدید دور میں داخل ہوتا ہے ۔جدید سفر نامے میں دوسرا بڑا نام بیگم اختر ریاض الدین کا ہے ۔” "سات سمندر پار” اور "دھنک پر قدم” انہوں نے اپنے سفر کے دوران ہر چیز کو غور اور مشاہدے کی نظر سے دیکھا ہے۔ قیوم نظر کا سفرنامہ "پیرس سے روم تک” ، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا "ارض پاک سے دیدار فرنگ تک” ،سلطانہ آصف فیضی کا سفر نامہ ” عروس نیل” ، حاجی حیدر علی خان کا سفرنامہ "دنیا کی سیر” محمد اقبال انصاری کا سفر ” نیلی سے فرات تک” ،ڈاکٹر ثریا حسین کا سفرنامہ "پیرس و پارس”،جمیل الدین عالی کے دو سفر نامے "دنیا میرے آگے” اور "تماشا میرے آگے ” ، بشری رحمن کا سفر نامہ "براہ راست ” ،قراۃ العین حیدر کے دو سفر نامے "جہان دیگر” اور "دکھلائے لے جا کے اسے مصر کے بازار” ،مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے "نکلے تیری تلاش میں” اور "اندلس میں اجنبی” ،ممتاز مفتی کے تین سفرنامے "لبیک” ، "ہند یاترا” اور "شاہراہ ریشم” ، ڈاکٹر وزیر آغا کا سفرنامہ "بیس دن گلستان میں” ، میرزا ادیب کا سفرنامہ "ہمالہ کے اس پار” ، ابن انشا کا "چلتے ہو تو چین کو چلے” ،آوارہ گرد کی ڈائری” ، دنیا گول ہے” ،اور "ابن بطوطہ کے تعاقب میں” ،عطاء الحق قاسمی کے "شوق آوارگی” اور مسافتیں”، کرنل محمد خان کے دو سفر نامے "بجنگ آمد” اور” بسلامت روی”، اے حمید کے سفر نامے "امریکہ میں پانچ سال” ، امجد امجد اسلام امجد کا سفر نامہ "شہر در شہر” اور ریشم ریشم ” ، پروین عاطف کا سفرنامہ "کرن تتلی اور بگولے” ،ریاض احمد پرواز کا سفر نامہ "بھارتی سرزمین پر تین قدم”، ڈاکٹر جعفر حسن مبارک کا سفر نامہ "اے ارض لبنان ” اور کیسپر کے دیس میں” ، حافظ لدھیانوی کے تین سفر نامے ” جمال حرمین ” ، منزل سعادت ” ، ” معراج سفر” ، حسین نازش کا سفرنامہ "دیوار چین کے سائے تلے” ، ڈاکٹر عبد الحق کا سفرنامہ "میں حاضر ہوں” ،ڈاکٹر اعجاز تبسم کا سفرنامہ "یا اللہ میں حاضر ہوں ” اور ” ترکی بہ ترکی” ،ظہیر قریشی کے دو سفر نامے "تیری وادی وادی گھوموں” اور "سبز پوش وادیوں میں” ، ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کا سفرنامہ "لبیک یا رسول اللہ” ، پروفیسر یعقوب مظفر گل کے سفر نامے میں "سفرنامہ ایران” ، ” چین کا چکر” اور "سفر حج اکبر "ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ کا سفرنامہ ” تکمیل آرزو” اور ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا "۔۔۔۔۔۔الغرض مندرجہ بالا حقائق بتاتے ہیں کہ سفرنامہ نے ارتقاء سے زمانہ حال تک کس طرح ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مندرجہ بالا سفر ناموں کے علاوہ بھی سفرناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ صنف اردو سفرنامہ مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اصل مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں گامزن نظر آتی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے
——
لائل پور (فیصل آباد) کے متعلق جسے آباد بھی مسافروں نے کیا اور جسے پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بھی مسافروں نے بنایا ،جدید اردو ادب میں جدید ترین سفرناموں میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔ ہمیں آج جس سفر نامہ پر تفصیلا گفتگو کرنا ہے وہ ہے ۔ممتاز محقق ،نقاد ، سیرت نگار، استاد ، سفر نامہ نگار اور مذہبی سکالر جناب ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا سفر نامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”ہے۔ جو حال ہی میں چھپ کر منصہ شہود پر آیا ہے۔” ترکی جو میں نے دیکھا” میں مصنف کی کثرت مطالعہ اور علمی وفور کی بنا پر سفر نامہ کو معلومات کا ذخیرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس سفرنامہ میں ان کی شخصیت کی ہر جہت نکھر کر سامنے آتی ہے۔اس میں انہوں نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے اور مشاہدات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مبالغہ آرائی کے بغیر یہ سفرنامہ شگفتہ اور دلچسپ ہے ۔”ترکی جو میں نے دیکھا” میں اسلوب نگارش، منظر نگاری ، مکالمہ نگاری ، خودکلامی ، مزاح اور جگہ جگہ اسلامی واقعات کا حوالہ ان کی فنی لوازمات پر دسترس کا ثبوت ہے ۔زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے "ترکی جو میں نے دیکھا” ایک سادہ اور عام فہم سفرنامہ ہے جس کو قاری آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہیں بھی دقیع اور مشکل الفاظ کا استعمال نظر نہیں آتا۔اس لیے انہوں نے اس سفر نامے میں منفرد اور جداگانہ طرز اسلوب نگارش اپنایا ہے ۔جس سے ان کی پہچان الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ اسلوب کا عمدہ اور منفرد ہونا ہی اس سفر نامے کی ادبی چاشنی کو نمایاں کرتا ہے۔واقعات و تجربات کو بیان کرنے کا انداز سفرنامے میں تنقید اور تقابل کرنے کا انداز اور پھر تمام تر واقعات و مشاہدات کو بیان کرنے کا انداز سب خوبیاں اس سفرنامے کے اسلوب کو نیا آہنگ دیتی ہیں ۔”ترکی جو میں نے دیکھا” کا اسلوب دلکش اور شگفتہ ہے۔ اس لیے یہ قاری کو بھی متاثر کرتا ہے اور قاری کے تجسس کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ایک جہاندیدہ دانشور اور مذہبی سکالر ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی نسلوں کی آبیاری کرتے ہوئے گزاری ،شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج سندھ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سےفارغ التحصیل اس نابغہ روزگار استاد نے دلوں کو مسخر کیا ۔
عربی زبان و ادب کے ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سارے اہم مناصب پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دیا۔آپ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں پروفیسر عربی زبان و ادب کے طور پر ایک طویل عرصہ درس و تدریس سے منسلک رہے ۔علاوہ ازیں آپ چیئرمین شعبہ عربی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ،چیئرمین ہال کونسل جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ،تقریبا آٹھ سال پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سمن آباد فیصل آباد ،ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویژن اور چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن فیصل آباد کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں ۔آج کل فارغ البال ہیں اور اپنی تمام تر توجہ اپنی تصنیف و تالیف کی طرف مرکوز کیے ہوئے ہیں۔اردو زبان میں لکھے گئے علمی ، ادبی ، تہذیبی ، معاشرتی اور ثقافتی موضوعات پر ان کے کالم و مضامین فکر ونظر کے نئے دریچے وا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : عبادت بریلوی کا یوم پیدائش
——
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے مسلسل پینتیس برس درس وتدریس میں گزارے ۔اُن کے لاکھوں شاگرد ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں جو ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے قلم سے ان کی ریڈیائی نشریاتی تقاریر اور مضامین پر مشتمل ان کی نصف درجن پر مشتمل تصانیف منصہ شہود پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ جن میں ” قول حسن ” ، قول سدید” ، قول حکیم” ، قول مجید” ،قول مبین” ، قول عظیم” اور زیر تبصرہ تصنیف سفرنامہ "ترکی جو میں نے دیکھا”۔ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے پرورش لوح وقلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی دینی، علمی،ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر انھیں ایک نابغہ ٔ روزگار ہستی قرار دیاجاتا ہے ۔عربی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف ہے۔ عربی اور اردو زبان میں لکھے گئے اسلامی، علمی ، ادبی ، تہذیبی ، معاشرتی اور ثقافتی موضوعات پر ان کے کالم فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئے ہیں۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو سدا پیش نظر رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کا شیوہ ہے ۔اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو انھوں نے جس خوبصورتی سے پیرایۂ اظہار عطا کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔اپنی تخلیقی تجربات سے انھوں نے افکارِ تازہ کے وسیلے سے جمود کا خاتمہ کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک خاص نوعیت کی فکر ی منہاج اور ذہنی فضا تیار کی جس کے معجز نما اثر سے حریت فکر کو اپنا کر حریت ضمیر سے جینے کا ولولہ پیدا ہوا۔ان کی مستحکم شخصیت کی تشکیل میں ان کے اعلیٰ کردار کا گہرا عمل دخل رہا ہے ۔علم و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور انسانیت کے ساتھ ان کا والہانہ پیار ان کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔
"ترکی جو میں نے دیکھا ” میں انھوں نے جن چار یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے وہ قابل ذکر ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ "ایک وہ لمحہ تھا جب ہم نے استنبول ایرپورٹ پر پہلا قدم رکھا تھا ۔عظیم ترکی کی سرزمین ہواؤں ،فضاؤں کی خوشبوئیں آج بھی مشام جاں کو معطر کیےہوئے ہیں۔ دوسرا وہ لمحہ تھا جب اچانک وہ اور ان کی اہلیہ چہل قدمی کرنے ترکی کے خوبصورت ساحلی شہر انطالیہ میں اپنے ہوٹل سے متصل گلیوں میں رات کے پرسکون لمحوں میں ایک دل فریب منظر کے مقابل آ کھڑے ہوۓ۔”تیسرا یادگار لمحہ وہ یہ بتاتے ہیں "کہ جب ہم عصر حاضر کی عظیم اسلامی و ملی شناخت نو ” آیا صوفیہ”کے سامنے کھڑے تھے۔اس مسجد سے مجھے اس لیے بھی جذباتی تعلق اور پیار ہے کہ اس کی تحویل سے کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے۔اور اہل حق کے دلوں میں ایمان کی جلتی شمع کی لو مزید بڑھنے لگتی ہے۔”
——
یہ بھی پڑھیں : فاروق قیصر کا یومِ وفات
——
"چوتھا یادگار لمحہ بارگاہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ کا تھا ۔کیف و سرور کے لمحے ، روحانیت کے منظر ،ایمان افروزی کا احساس، تصوراتی نظر سے وہ سب مناظر دیکھے” ۔
یہ سارے واقعات پڑھ کر دل میں عشق و محبت کی شمع فروزاں ہو جاتی ہے ۔ ترکی سے ان کی محبّت اور شناسائی کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف بچپن سے سنا کرتے تھے کہ برصغیر کی عظیم علمی اور سیاسی شخصیات اور تحریک خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ نے اپنی بیٹیوں کو خلافت پر جان دینے کی تلقین اس طرح کی کہ یہ برصغیر کے بچوں ، نوجوانوں اور مسلمانوں کا مقبول ترانہ بن گئی۔”بولی اماں محمد علی کی،۔۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو”۔۔۔اس طرح تحریک اسلامی کے کچھ دیگر دھندلے نقوش کے ساتھ خلافت عثمانیہ اور اس کے مرکز ترکی کا نقشہ بھی پختہ ہوتا گیا۔ترکی سے محبت کی چنگاریاں کبھی کبھی بھڑکنے کی کوشش کرتیں تب ترکی کا کوئی حکمران پاکستان کے دورے پر آتا، سلیمان دیمرل،ترگت اوزال اور اس طرح کے دیگر حکمرانوں کے تذکرے سننے کو یا انھیں پاکستان میں دیکھنے کا موقع ملتا۔اردو سے ترکی سے محبت کی چنگاری اس طرح شعلہ جوالہ بنتی چلی گئی۔