اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف ادبی نقاد وہاب اشرفی کا یوم پیدائش ہے

وہاب اشرفی(پیدائش: 2 جون 1936ء — وفات: 15 جولائی 2012ء)
——
وہاب اشرفی 2 جون 1936ء میں پیدا ہوئے
وہاب اشرفی کی ابتدائی زندگی بہار کے جہان آباد ضلع کے کوکو گاؤں میں گزری۔
وہاب اشرفی نے پی ایچ ڈی (اردو)، ایم۔اے اردو میں (تمغا یافتہ)، ایم۔ایے فارسی میں (تمغا یافتہ) اور ایل ایل کیا تھا۔ وہ جامعہ رانچی میں ایک سابق پروفیسر اور شعبہ اردو کے سربراہ رہے۔ انہوں جامعہ جواہر لعل نہرو اور نئی دہلی میں بھی تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔
——
کتابیات
——
تاریخ ادبیات عالم،
تاریخ ادب اردو،
فلسفۂ اشراکیت
قدیم ادبی تنقید
مانی کی تلاش
تفہیم البلاغت
قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ
مابعد جدیدیت
مثنوی اور مثنویات
مارکسی فلسفہ، اشتراکیت اور اردو ادب
قصہ بے سمت زندگی کا
میرا مطالعۂ قرآن
ان کی اکثر کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے ادبی رسالے مباحثہ کی ادارت بھی کی۔
اعزازت
وہاب اشرفی نے 2007 ء میں اپنی کتاب تاریخ ادب اردو(تنقید) کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل کیا۔
بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ
بھارتیہ بھاشا پریشد ایوارڈ
——
وفات
——
15 جولائی 2012ء کو آپ کا انتقال ہوا
——
فکشن تنقید اور وہاب اشرفی از آس محمد صدیقی
——
پروفیسر وہاب اشرفی (۲،جون ۱۹۳۶۔۱۵ ،جولائی ۲۰۱۲)اردو ادب کی دنیا میں عہد ساز محقق،افسانہ نگار ، صحافی، استاد اور دانشور کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم سے بہرور اور مشرقی و مغربی تصورات و افکار سے آگاہ وہ بنیادی طور پر دانشور اور اکیڈمیشین تھے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے جب آنکھیں کھو لیں تو اس زمانے میں جدیدیت کا بول بالا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسندی کا زور کم ہو نے لگا تھا ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ کے درمیان ادیبوں کا ایک بڑا حلقہ ترقی پسندی سے علاحدہ ہو کر جدیدیت کے افہام وتفہیم میں مشغول ہو چکا تھا ۔وہاب اشرفی بھی جدیدیت سے قریب ہو کر اس کے امکانات کا مطالعہ کر تے رہے اور جب بیسویں صدی کے اواخر میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ما بعد جدیدیت کے رجحان سے اردو دنیا کو متعارف کرایا تو وہاب اشرفی نے ایک دیدہ ور نقاد کی طرح ذہنی کشادگی کا ثبو ت پیش کرتے ہوئے اس نئی صورت حال کا سامنا کیا اور ایک کتاب ’’ما بعد جدیدیت۔مضمرات و ممکنات ‘‘ لکھ کر اس کی تعبیر و تشریح میں مشغول ہو گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آغا سلیم کا یوم وفات
——
پروفیسر وہاب اشرفی نے تحریکات و رجحانات سے کسب فیض ضرور حاصل کیا لیکن ان کا مزاج کسی ایک دائرے میں رہنے کو قبول نہیں کر تا ،وہ ایک آزاد فضا میں سانس لینے کے عادی ہیں کیوں کہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ کوئی بھی فن کار یا تنقید نگار خود کو کسی ایک مخصوص دائرے میں محصور کر لیتا ہے تواس فنکار کا فن یا تنقید نگار کی تنقید اسی مخصوص دائرے یا نظریے کا پر تو یا عکس ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے وجود یا نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔کسی بھی فن پارے کے متعلق وہ کیا سوچتا ہے ،اس کی نظر میں فن پارے کی کیا اہمیت ہے یہ او ران جیسے دیگر سوالات کا جواب دینے سے قاصر رہتا ہے ۔وہ فن پارے کو اسی مخصوص نظریے کے اصول وضوابط کے تحت مطالعہ کر نے اور نتیجہ اخذ کر نے کا پابند ہو تا ہے ۔وہاب اشرفی کا ماننا ہے کہ ایک ادیب کو مختلف افکار و نظریات سے کسب فیض ضرور حاصل کر نا چاہیے لیکن کسی بھی نظریے ،تحریک یا رجحان کا شکار نہیں ہو نا چاہیے۔وہاب اشرفی آزاد خیالی کے ساتھ فن پارے کے مطالعے پر زور دیتے ہیں،ان کے نزدیک تحریکات و رجحانات سے زیاداہمیت ادبی روایات کی ہیں۔
اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :۔
’’میری نگاہ میں ادبی روایات زیادہ محترم رہی ہیں ،چاہے ان کے تعلق کسی بھی دبستان سے ہو،لیکن افکار و آرا کے ارتقا میں ادب کی نئی روشنی ہی کا رول زیادہ اہم ہے ،تغیر وتبدل سے گھبرانے والے حقیقتاً ادبی رویوں کو جامد وساکت باور کرتے ہیں ،یہ نہیں سوچتے کہ زمانی تبدیلیاں غورو فکر کی نئی راہیں ہموار کرتی ہیں، ادب کو سڑ نا گلنا نہیں ہے ، تو اس کی تازگی بر قرار رکھنی پڑے گی اور اس کے لیے عالمی سطح پر ادبی رویوں کے تغیر و تبدل پر نگاہ رکھنی پڑے گی او راس کے لیے وسیع اور گہرے تقابلی مطالعے کا چیلنج قبول کر نا پڑے گا ، ورنہ ادبی تفہیم کا لا متناہی پس منظر آنکھو ں سے اوجھل رہے گا ، او ر اگر ایسا ہوا تو پسماندگی مقدر بن جائے گی ۔میرا موقف یہ ہے کہ جہاں ادب کے کچھ مقامی مطالبات ہیں وہاں آفاقی تناظر بھی اس کا نصب العین ہے،کوئی نقاد اس احساس کے ساتھ کچھ لکھتا ہے تو گویا اس کی کاوش ہے کہ وہ اپنے ادب کو نئے رنگ و روغن دے کر اسے عالمی سطح پر لا کھڑا کرے۔ وہ اپنی کوشش میں نا کامیاب ہو سکتا ہے،لیکن اس کی سعی غیر مستحسن نہیں سمجھی جائے گی‘‘ ؏۱
اپنے تنقیدی نظر یے کے متعلق وہاب اشرفی کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ وہ ایک بیدار مغز انسان ہیں ۔ حالات حاضرہ اور خاص طور پر ادبیات میں ہورہی تبدیلیوں پر ان کی نگاہیں مر کو ز ہیں ۔ وہ روایت کے امین تو ہیں ہی لیکن نت نئی چیزوں کو بخوشی قبول کر نے سے بھی واقف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اردو دنیا جب ’’مابعد جدیدیت‘‘ کی نئی تھیوری سے روشناس ہوئی تو ہا ب اشر فی نے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کشادہ ذہنی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ادبیات عالم میں ظہور پزیر نئے نئے امکانات سے باخبر رہنے اور اردو ادب خاص طور پر تنقید کو باخبر رکھنے کی سعی مسلسل میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ظاہر ہے ما بعد جدیت جسے انگریزی میںPost Modernism کہا جاتا ہے یہ ایک انگریزی اصطلاح ،رجحان یا تھیو ری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیںکہ مغربی تہذیب و ثقافت نے آج دنیا کے ہر شعبے میںاپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ سائنس و ٹکنولوجی ہو یا پھر ادب ہر شعبے میں ان کی تقلید قابل فخر و مباہات سمجھی جاتی ہے اور کیو ں نہ ہو جمہوریت، دنیا کا مالی نظام،افواج کی یونیفارم حتیٰ کہ ادبیات ہر شعبہ میں مغربی تہذیب اور مغربیت کا DNAموجود ہے۔ ’’قومو ں کی حیات ا ن کے تخیل پر موقوف ہے‘‘ ، علامہ اقبال کا یہ مشہور زمانہ قول اور دنیا کا دیوانہ وار مغربیت پر فریفتہ ہونا ان دونوں جملوں میںعلّت بھی ہے اور معلول بھی۔
کسی بھی زبان کے نظریے یا تھیوری کو من وعن کسی دوسری زبان کا حصہ بنانے میں بہت دشواریاں پیش آتی ہیں کیوں کہ ہر زبان کا ایک اپنا مزاج اور ماحول ہو تا ہے لیکن اگر اس میں ترمیم کر کے اس کو اس زبان کے مزاج اور ماحول کے مطابق ڈھال لیا جائے تو قابل قبول بھی ہوتا ہے اور اس مخصوص زبان ادب میں اضافہ کا سبب بھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سجاد ظہیر کا یوم پیدائش
——
وہاب اشرفی اس تعلق سے لکھتے ہیں :۔
’’نئی تھیوری بہت سے امکانات کی خبر دیتی ہے ۔اس مضمرات بہت وسیع ہیں ۔یہ اپنے حلقہ اثر میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو لینا چاہتی ہے ۔انسانیت کی عظمت اس کا گالب ترانہ ہے ۔مثبت پہلوؤں پر اتنا زار ہے کہ منفی صورتیں از خود مردہ ہوتی نظر آتی ہیں ۔یہ سب مفکرین کے غور و فکر کے نتائج ہیں ۔کچھ باتیں ایس ہیںجو ہندوستان یا اردو کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں لیکن ایسا بھی ہے کہ کوئی تحریر کبھی کبھی من وعن قبول نہیں کی جاتی ۔ اس کے اپنے ثقافتی حوالے ہوتے ہیں ۔ اس لحاظ سے بعض نکات یا بعض پہلو ترمیم و تنسیخ کے بعد ہی قبول کئے جاسکتے ہیں ۔ہر زبان کا اپنا مزاج ہے اور وہ اپنی ثقافت سے تعمیر ہو تا ہے ۔ چنانچہ مغربی ما بعد جدیدیت اور اردوما بعد میں حد فاصل قائم کر نی پڑے گی ۔ اور یہ ہو بھی رہا ہے‘‘ ؏۲
پروفیسر وہاب اشرفی ایک وسیع النظر ناقد ہیں ۔وہ تحریکات ورجحانات اورنئے ادبی رویوں کو قبول بھی کرتے ہیں اور انھیں ادب کے لیے سود مند بھی گردانتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی تاکید کرتے ہیں کہ جدید ادب کے نام پر ایسی چیزوں کو ادب کا حصہ ہر گز نہ بنایا جائے جو قاری اور متن کے درمیان راہ کا روڑا ثابت ہو ۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے تنقید کے لیے جو اصول وضع کیے وہ بالکل واضح ہیں ۔وہ کسی بھی فن پارے کا تجزیہ کرتے ہیں تو فنکار کی ذہنی کیفیت اور اس کے اندورن خانہ پر نظریں مر کوز رکھتے ہیں بلکہ وہ بھی فنکار کے تجربات واحساسات کا حصہ بن پانے کی حد تک متن پر غور وفکر کرتے ہیں اور پھر اپنی تنقیدی آراء پیش کرتے ہیں ۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی بھی فنکار کے متعلق کوئی بھی رائے قائم کر نے سے قبل نقاد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کرے کہ استدلال اور پھر رائے کن بنیادوں پر قائم کر رہا ہے ؟وہ کون سی کسوٹی ہے جس پر وہ فن پارے کو پرکھ رہا ہے ؟۔ اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں:۔
کسی بھی شاعر یا دوسرے فنکار کی اہمیت واضح کر نے سے پہلے نقاد پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ واضح کرے کہ اس کے پاس پرکھ کے معیار کیا کچھ ہیں ۔تنقیدی کسوٹی کیا ہے ،استدلال کن بنیادوں پر قائم ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے امور ہیں جن سے کسی فن پارے کی بنت میں اتر نے کا راستہ ہموار ہو تا ہے ورنہ رائے محض تو کوئی بھی قائم کر سکتا ہے ۔ اس میں تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی کیا ضرورت ہے؟گو یا سب سے پہلے نقاد کو خود اپنی بوطیقا سے واقف ہو نا چاہئے پھر اسے اس کے نکات کی عملی صورت اجاگر کر نے پر قدرت بھی تب ہی تنقید ی وقار حاصل ہو سکے گا ۔تنقید رائے زنی نہیں ہے نکتہ شناسی ہے اور یہ مشکل کام ہے ‘‘ ؏۳
پروفیسر وہاب اشرفی کی شخصیت محولہ بالا اقتباس کے جملہ آخر میں بیا ن کئے گئے دونوں نکات سے خوب اچھی طرح واقف ہے۔وہ تنقید کو نکتہ شناسی سمجھتے ہیں لہٰذا جب وہ کسی فنکار کے فن کا مطالعہ کرتے ہیںاور کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو وہ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہو تے بلکہ بہت ہی نپی تلی رائے کا اظہار فرماتے ہیں ۔
فکشن تنقید کی روایت میںوہاب اشرفی نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن مضامین کے کئی مجموعے موجود ہیں جو فکشن کی تنقید میں ان کے نام کو روشن کر تے ہیں مثلاً معنی کی تلاش ،آگہی کا منظر نامہ ،اردو فکشن اور تیسری آنکھ وغیرہ۔ان کے تنقیدی مضامیں کا پہلا مجموعہ ’’ معنی کی تلاش ‘‘ ہے جو ۱۹۷۸ میں منظر عا م پر آیا جس کا پہلا ہی مضمون ’’افسانے کا منصب‘‘ کے عنوان سے معنون ہے جس میں وہاب اشرفی نے اردو افسانے کو مغربی ادب کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مظفر علی سید کا یوم پیدائش
——
ان کا دوسرا تنقیدی مجموعہ ’’آگہی کا منظر نامہ ‘‘ ہے ۔اس کتاب کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ وہاب اشرفی نے اس میں خودہی سوالات قائم کئے ہیں اور پھر ان کے جوابات بھی دیے ہیں ۔وہ افسانہ نگاری کا تجزیہ پیش کر تے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نئے افسانہ نگاروں نے موضوعات کے اعتبار سے پیش روؤں کی اتباع کے بجائے اظہار کے نئے وسیلے تلاشے او ر علامتوں کا نئے اطوار سے استعمال کر کے فن افسانہ نگاری کے ارتقائی سفر میں شریک ہوئے ۔
’’اردو فکشن اور تیسری آنکھ‘‘ وہاب اشرفی کے تنقیدی مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے فکشن کے بانیان اور معماروں کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے فکشن نگاروں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔وہ اس بات کے قائل ہیں کہ فن پارے کی روح میں اتر کر ہی اس کی تفہیم کی جاسکتی ہے ۔اپنے انھیں اصولوں کو پیش نظر رکھ کر انھوں نے مختلف ادوار سے لے کر عصر حاضر تک کے فکشن نگاروں کی تخلیقات کو پرکھنے کی کوشش کی ہے جن میں پریم چند ،سہیل عظیم آبادی ،منٹو ،راجندر سنگھ بیدی ،قرۃالعین حیدر ،غیاث احمد گدی،جوگندپال،جیلانی بانو،عابد سہیل،سلام بن رزاق،شموئل احمد ،شوکت حیات ،حسین الحق،سید محمد اشرف،طارق چھتاری عبدالصمد اقبال مجید،ترنم ریاض اور مشرف عالم ذوقی وغیرہم وہ فکشن نگار ہیں جن کے فکرو فن کا مطالعہ وہاب اشرفی نے عرق ریز ی سے کیا اور ان پر متوازن رائے قائم کی ۔
وہاب اشرفی کی تنقیدکی ایک اہم خاصیت ان کے تنقیدی جائزوں کی وضاحت اور قطعیت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کی وہ کوئی بھی دعویٰ بغیر دلیل کے نہیں کر تے ۔فن پارے کی روح میں اتر کر اس کے تمام معائب اور محاسن کا پتہ لگاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کر تے ۔ذیل میں اردو کے بعض اہم اور معروٖ ف فکشن نگاروں سے متعلق ان کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں جس سے ان کے تنقیدی شعور او رآرا کا صحیح ادراک ہو سکے ۔
پریم چند:۔
’’ان کے افسانے زندگی کی تحلیل کے افسانے نہ بن سکے ۔زندگی کا گوشت پوست تو ان کے یہاں ملتا ہے لیکن زندگی کو سمت اور رخ عطا کر نے والی دھڑکن نہیں ملتی ۔زندگی خود ایک مسئلہ ہے ،اس کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی۔اس کی پیچیدگیوں کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا ،اس ان کے افسانے معاشرتی او رتمدنی رگوں کی بے جان تصویر ہیں جن میں حرارت اور لہو کا فقدان ہے ‘‘۔
اوپندر ناتھ اشک:۔
’’ان کے یہاں نچلے طبقے اور متوسط طبقے کی زندگی کی عکاسی بھی ہے ،جنسی معاملات کی فنی گرفت بھی ہے او ر انسان کی بے بسی او رمجبوری کا قصہ بھی ہے لیکن ان کے پے چیدہ افسانوں میں فنی رکھ رکھاؤ ملتا ہے ‘‘۔
سلطان حیدر جوش:۔
ــ’’رومانیت رنگ کےباوجود اپنےافسانوں میں سیاست اور تہذیب ومعاشرت کی طرف متوجہ ہوئے لیکن ایک گھٹے گھٹے سے انداز میں فن کی قیمت دے کر یہی وجہ ہے کہ وہ نہ یلدرم بن سکے اور نی پریم چند‘‘۔
کرشن چندر:۔
’’کرشن چندر نے ایک بڑے کینوس پر کام کیا اور ہماری تمدنی اور سماجی زندگی کے کتنے ہی نقوش اجاگر کئے‘‘۔
سعادت حسن منٹو:۔
’’میری نگاہ میں اردو افسانے کا اہم ترین نام ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ان کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ‘‘۔
راجندر سنگھ بیدی :۔
’’ منٹو کی روایت اپنانے والوں میں بیدی کا نام خاصا اہم بن جاتا ہے ۔نفسیاتی پیچ و خم کا ادراک انہیں بھی ہے ،یہ بھی اپنے موضوع کو سیاق و سباق میں دیکھنے کا گر جانتے ہیں ‘‘۔
عصمت چغتائی :۔
’’ عصمت سے کون واقف نہیں ،یہ گھر کی بھیدی ہیں،اس لئے عورتوں کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے میں چابکدستی دکھاتی ہیں ۔منٹو اور ان کے افسانے جنسی برتاؤ کے اختلاف کی اہم مثالیں ہیں ،عصمت کا فن سماج کی گندگی اور اس کا تعفن دکھانے کا فن ہے ،منٹو گندگی او ر تعفن کی وجہ دریافت کر نے کے در پے ہیں ‘‘
سہیل عظیم آبادی :۔
’’ وہ پریم چند کی راہوں پر گامزن رہے ہیں اور ان کے افسانے کا ماحول بہار کے دیہی علاقے رہے ہیں لیکن سہیل،پریم چند کی طرح کسی آدرش کی تبلیغ کے افسانہ نگار نہیں رہے‘‘۔
قرۃالعین حیدر:۔
’’ قرۃالعین حیدر کی حقیقت نگاری ایک اکیڈمیشن کی حقیقت نگاری ہے جس کا تناظر عام طور پر وسیع بھی ہو تا ہے اور گہرا بھی ،زمانے کا نشیب و فراز ،اس کا دھند،اس کا اجالاسب اس کی نگاہوں کے سامنے آئینہ سا جھلکتا ہے اور تاریخ کا ورق ورق اس کی عقبی زمین بن جاتا ہے ‘‘۔
انتظار حسین :۔
’’کیا ایسا نہیں ہے کہ انتظار حسین کے تمام افسانے کھوئے ہوئے اخلاقی منظر نامے ہیں ،تقسیم کی ہولناکی کا قصہ ہو کہ قدروں کہ شکست و ریخت کا انتظار حسین ہر جگہ کٹا ہوا ڈبہ نظر آتے ہیں ‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : سجاد ظہیر کا یوم وفات
——
متذکرہ بالا فکشن نگاروں سے متعلق وہاب اشرفی نے جو آراء پیش کئے وہ بغیر کسی لاگ اور لگاؤ کے ان کے فنی خوبیوں اور خامیوں کو پیش نظر رکھ کرکئے ہیں ۔وہ فن پارے کو ایک مخصوص اور معین کردہ اصول کی کسوٹی پر پرکھنے کو درست نہیں سمجھتے بلکہ فن پارے کے مطابق اصول وضع کرتے ہیں او رپھر اس کی جانچ پرکھ کرتے ہیں ۔ان کا مطالعہ نہایت وسیع ہے ۔وہ اپنے مطالعے کو اردو تذکرہ نویسی لے کر جدید تنقید ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ان کی نظر عالمی ادب کی ترقی یافتہ ادبیات پر بھی ہو تی ہے ۔انھوں نے بر ملا کہہ دیا کہ’’ترقی پسندی میری جڑ نہیں ہے اور نہ ہی جدیدیت میرا آئیڈیل ہے ‘‘ ، وہ ادب کو قدیم اور جدید کے خانوں میں تقسیم نہیں کر تے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذہن آفاقیت کا قائل ہے ۔فکشن تنقید میں کبھی ان کا رویہ آمرانہ نہیں رہا بلکہ انھوں نے افہام وتفہیم کے ساتھ ساتھ فنکار اور قاری کے درمیان مفاہمت پیدا کر نے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کا ڈکشن ان کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔اسلوب نہایت واضح ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ہو تا ہے۔ ان کا یہی اسلوب ان کو ما قبل اور خود ان کے ہم عصر ناقدوں میں مثلاً آل احمد سرور، کلیم الدین احمد ،وزیر آغا، وارث علوی ، قمر رئیس، شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے درمیان انفرادیت کا حامل بناتا ہے۔
ادب کا بنیادی مقصد سچائی کی تلاش ہے ۔ نقاد ہر حال میں سچائی تک رسائی کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ وہاب اشرفی کی تنقید کی بنیاد ٹھوس حقائق، گہرے مطالعے اور مشاہدے پر قائم ہے جو واضح ،مدلل اور پر مغز ہوتی ہے ۔ فکشن تنقید میں وہ مواد اور ہیئت دونوں پر نظر رکھتے ہیں اور بلا جھجھک اس کے تمام گوشوں کو روشن کر دینے پر قادر ہیں ۔ غرض یہ کہ فکشن تنقیدی سر مائے کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت کا اعتراف کر نا پڑتا ہے کہ جن ناقدین نے فکشن تنقید کو نئی سمت و جہت عطا کی اور اپنی انفرادیت کو ثبت کیا ان میں پروفیسر وہاب اشرفی کا مقام نمایاں ہے۔
——
حوالہ جات
——
۱۔ وہاب اشرفی ، آگہی کا منظر نامہ ،۱۹۹۲ ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ؏۶، ص ؏۲
۲۔ وہاب اشرفی ، ما بعد جدیدیت:مضمرات و ممکنات،۲۰۰۴، کتاب محل،۱۲۲، اے ، الہ آباد، ص۹؏،۸؏
۳۔ وہاب اشرفی ،حرف حرف آشنا، ۱۹۹۶، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ؏۶، ص ۸؏
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ