آج نامور ریڈیو براڈ کاسٹر اور شاعر زیڈ اے بخاری کا یومِ پیدائش ہے

——
زیڈ اے بخاری از فواد رضا
——
اردو کے ممتاز شاعر صدا کار اور ماہر نشریات جناب زیڈ اے بخاری کا پورا نام ذوالفقار علی بخاری تھا۔
سید ذوالفقار علی بخاری ادیب، شاعر، صدا کار، ماہر نشریات تھے اور معروف ادیب پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے۔
وہ 6 جولائی 1904ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج پشاور سے میٹرک اور اورینٹل کالج لاہور سے منشی فاضل کیا۔ 1929ء میں ملٹری بورڈ آف اگزامزز (شملہ) میں بطور مترجم ملازم ہوئے۔
بخاری صاحب کو بچپن ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی وہ خود ہی تھے۔
1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہو گئے پھر ان کا یہ ساتھ زندگی بھر جاری رہا اور بخاری صاحب اور ریڈیو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شہرت بخاری کا یومِ وفات
——
1938ء میں براڈ کاسٹنگ کی تربیت حاصل کرنے لندن گئے۔ لندن میں جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل کام کیا۔ اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس شروع کی۔ لندن سے واپس آ کر بمبئی اور بعد ازاں کلکتہ ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد بخاری صاحب ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔
شعر و ادب اور سٹیج سے بچپن سے ہی دل چسپی تھی۔ اعلیٰ درجے کے براڈ کاسٹر تھے۔ آواز نہایت پرسوز اور سحر انگیز تھی۔ مرثیہ خوانی شعر خوانی میں یکتا تھے۔ موسیقی سے بھی گہرا شغف تھا۔ ریڈیو اردو ڈرامے نے انہی کی بدولت قبول عام حاصل کی۔
بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہر تعلیم تھے۔ پھر بخاری صاحب کو ابتدا ہی سے اچھے شاعروں کی صحبت میسر آئی جن میں حسرت موہانی‘ علامہ اقبال‘ یاس یگانہ چنگیزی‘ نواب سائل دہلوی اور وحشت کلکتوی جیسے اساتذہ فن شامل تھے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔
ان تمام عوامل نے بخاری صاحب کی شخصیت کی جلا میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
بخاری صاحب ایک اعلیٰ ماہر نشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صداکار بھی تھے۔ انہوں نے بمبئی میں بمبئے خان بن کر اور کراچی میں جمعہ خان جمعہ بن کر صدا کاری کے جوہر دکھائے وہ سننے والوں کے دلوں میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
انہوں نے ریڈیو کے متعدد ڈراموں میں بھی صدا کاری کی جن میں سب سے زیادہ شہرت ’’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘‘ نے حاصل کی۔ مرثیہ خوانی اور شعر خوانی میں بھی ان کا انداز یکتا تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔
بخاری صاحب فارسی‘ اردو‘ پنجابی‘ پشتو‘ بنگالی‘ برمی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے اور یوں ہفت زباں کہلاتے تھے۔
بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کے نثری ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔
——
یہ بھی پڑھیں : فارغ بخاری کا یوم پیدائش
——
انہوں نے اپنے بڑے بھائی پطرس بخاری کی یاد میں ایک کتاب ’’بھائی بھائی‘‘ کے نام سے لکھنی شروع کی تھی مگر یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی۔ البتہ ان کا مجموعہ کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
12 جولائی 1975ء کو جناب زیڈ اے بخاری کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
——
تصانیف
——
میں نے جو کچھ بھی کہا ( شعری مجموعہ )
سرگزشت بخاری (خود نوشت)
راگ دریا (مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب)
——
منتخب کلام
——
بیشتر خدا پایا اور برملا پایا
ہم نے تیرے بندوں کو تجھ سے بھی سوا پایا
——
میرے غم کی تلخیوں کا اس سے کچھ اندازہ کر
مجھ کو مے نوشی سے بھی انکار ہے تیرے بغیر
——
جس راہ سے اٹھا ہوں وہیں بیٹھ جاؤں گا
میں کارواں کی گرد سفر ہوں ذرا ٹھہر
——
بہت کچھ پاؤ گے دنیا میں پیارے
محبت پاؤ گے لیکن ہمیں میں
——
آتا ہے نظر انجام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
باقی ہے خدا کا نام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
خورشید کو جام سے شرمائیں گے شام کو تیرا وعدہ تھا
ایفائے عہد شام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
ہم کتنی پینے والے ہیں تم کتنی پلانے والے ہو
یہ راز ہے طشت از بام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اے رندو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کیا ساقی کا منہ تکتے ہو
محفل میں مچے کہرام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
یہ راہ پر آ ہی جائے گا تو زاہد سے مایوس نہ ہو
اٹھ لے کے خدا کا نام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
یہ برہم ہونے والی محفل یوں بھی برہم ہو جاتی
ہم کہہ کے ہوئے بدنام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اب کوئی نہیں سناٹا ہے تاروں کی آنکھیں جھپکی ہیں
چل ساتھ مرے دو گام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
——
وہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس کے مرنے پر تعجب ہے
میں کہتا ہوں کہ میں زندہ رہا کیوں کر تعجب ہے
مرا افسانۂ عشق ایک عالم ہے تحیر کا
مجھے کہہ کر تعجب ہے انہیں سن کر تعجب ہے
مری دو چار امیدیں بر آئی تھیں جوانی میں
مرے اللہ اتنی بات پر محشر تعجب ہے
ہمیں ہیں عشق کو جو شغل بیکاری سمجھتے ہیں
ہماری ہی سمجھ پر پڑ گئے پتھر تعجب ہے
وفاداری ہوئی ہے اس طرح مفقود دنیا سے
کہ خود مجھ کو یہاں تک کر گزرنے پر تعجب ہے
مرے احباب کو حیرت ہے میں نے آج کیوں پی لی
نہیں کیوں آج تک پی تھی مجھے اس پر تعجب ہے
بخاریؔ تم جواں ہو اور جوانی ایک نشہ ہے
تمہاری داستان غم مجھے سن کر تعجب ہے
——
راس آنے لگی تھی تنہائی
یاد محبوب تو کہاں آئی
پھر اٹھاتا ہوں منت طفلاں
پھر ہے سودائے ننگ رسوائی
پھر وہی کاروبار راز و نیاز
پھر وہی شوق خلوت آرائی
پھر وہی آستاں ہے اور میں ہوں
پھر وہی سر ہے اور جبیں سائی
پھر وہی صبح اور عزم سفر
پھر وہی شام اور تنہائی
دیکھ کر تجھ کو دیکھتا ہی رہا
ایک دیدار کا تمنائی
تیری خدمت میں نذر ہے یہ غزل
اے سراپا غزل کی رعنائی
——
شعری انتخاب از روحِ غزل ، پچاس سالہ انتخاب
پروفیسر مظفر حنفی ، شائع شدہ 1993 ء ، صفحہ نمبر 81