اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف عالمِ دین علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی کا یومِ وفات ہے ۔

(پیدائش: 4 اکتوبر 1892ء – وفات: 8 دسمبر 1974ء)
——
نام
——
علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی کا نام ظفراحمد بن لطیف احمد بن نہال احمد ہے۔
——
ولادت
——
۱۳/ربیع الاوّل ۱۳۱۰ھ دیوبند میں ہوئی، ننھیال نے ظریف احمد نام رکھا اور تاریخی نام مرغوب نبی ہے، حضرت تھانوی کے بھانجے اورہم زلف تھے، ۱۳۲۸ھ میں شادی ہوئی۔
دیوبند، تھانہ بھون، کانپور اور سہارنپور میں تعلیم حاصل کی، ۱۳۴۴ھ میں تمام مصروفیات کے باوجود چھ ماہ کی مدت میں تھانہ بھون میں قرآن پاک حفظ کیا۔
——
اساتذہ
——
حافظ نامدار، حافظ غلام رسول ، مولانا نذیراحمد سے ناظرہ پڑھا، حضرت مولانا محمد یاسین (والد محترم حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی ) سے فارسی پڑھی، منشی منظوراحمد دیوبندی سے حساب، مولانا عبداللہ گنگوہی صاحب تیسیر المنطق سے ابتدائی عربی، حضرت مولانا شاہ لطف رسول سے ترجمہٴ قرآن، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے موقوف علیہ سے پہلے کی عربی کتابیں، مولانا محمدرشید کانپوری سے ہدایہ ومشکوٰة وغیرہ پڑھی اور حضرت مولانا عبداللطیف ناظم مظاہرعلوم سہارنپور اور مولانا عبدالقادر سہارنپوری سے ریاضی، منطق وفلسفہ وغیرہ اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری سے بخاری کے کچھ حصے اور دیگرکتابیں پڑھیں، فراغت ۱۳۲۹ھ میں ہوئی۔ (دیکھیے چالیس بڑے مسلمان ۶۶۹، بیس علماء حق ۲۳۰، تذکرہ اولیاء دیوبند ۴۸۷)
——
یہ بھی پڑھیں : اشرف علی تھانوی کا یومِ وفات
——
حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت تھانوی اور حضرت علامہ کشمیری سے اجازت حدیث حاصل کی۔
(علماء مظاہرعلوم الخ ۲/۱۵۹، از مولانا شاہد مدظلہ)
——
خلافت
——
خلافت: حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی، حضرت سہارنپوری، حضرت تھانوی سے ملی۔
——
تدریس و خدمات
——
ظفر احمد عثمانی نے مظاہر علوم سہارنپور میں فراغت کے بعد ۷-۸سال تک شرح وقایہ، نورالانوار، ہدایہ وشرح عقائد اورمتنبی وغیرہ کتابیں پڑھائیں، پھر تھانہ بھون کے قریب ارشاد العلوم گڑھی پختہ میں اکثر کتابیں از ابتداء تا بخاری شریف پڑھائیں اور خانقاہ امدادیہ میں ۱۳۳۸ھ میں ایک شعبہ قائم ہوا جس میں تلخیص بیان القرآن اوراعلاء السنن وغیرہ کتابیں تصنیف کیں، رنگون میں بھی مختلف اوقات میں دینی خدمات انجام دیں، تبلیغ کاکام بھی کرتے تھے، رنگون کی ایک پوری بستی کے لوگ مرتد ہوگئے تھے، ایک سال میں محنت کرکے سب کو دوبارہ کلمہ پڑھایا، پھر تھانہ بھون آکر تصنیفی کاممیں مصروف ہوگئے، ۱۳۵۸ھ میں ڈھاکہ تشریف لے گئے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہدایہ وصحیحین کا درس دیا۱۳۶۷ھ تک، اسی دوران اشرف العلوم ڈھاکہ میں موطا اور بیضاوی اور مثنوی اور کبھی کبھار بخاری شریف کا درس بھی دیتے رہے، نیز گرمی کی تعطیلات میں جامعہ ڈابھیل میں بھی مسلم اور ترمذی شریف کا درس دیا ہے (تاریخ جامعہ ڈابھیل میں جمادی الاخری ۱۳۶۴ھ میںآ پ کے ورود مسعود کا ذکر ملتا ہے، دیکھیے ص۱۴۴ و ۴۶۹ پاکستانی)، پھر یونیورسٹی کو چھوڑ کر مدرسہ عالیہ ڈھاکہ میں ۱۳۶۷-/۱۹۴۸- تا۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴/ صدر مدرس رہے اور بخاری شریف، الاشباہ والنظائر اور اصول بزدوی وغیرہ کتابوں کا درس بھی دیا، نیز جامعہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ میں ۱۵سال بخاری شریف کا درس دیا اور تقسیم پاکستان کے بعد تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔
۱۹۵۴/ میں پاکستان چھوڑ کر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں قیام کا ارادہ کرلیا حج کرکے ڈھاکہ واپس ہوئے تو حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی کی دعوت پر ٹنڈولہ یار پاکستان میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے اور تدریس وافتاء اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ تقریباً ۲۰سال (تاوفات) خدمات انجام دیتے رہے۔
اخیر وقت تک ظفر احمد عثمانی بخاری شریف کا درس دیتے رہے، فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے مرض اور کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے تو میں صحیح بخاری کا درس شروع کردیتاہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے صحت وقوت عطا فرمادیتے ہیں۔ (علماء مظاہر:۱۵۹)
——
تلامذہ
——
تلامذہ: حضرت مولانا محمدادریس کاندھلوی، مولانا عبدالرحمن کامل پوری، مولانا بدرعالم میرٹھی، شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا، مولانا اسعد اللہ ناظم مظاہرعلوم سہارنپور، حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عابدالرحمن کاندھلوی، حضرت مولانا عمراحمد سورتی اور حضرت مولانا عبدالرزاق افریقی وغیرہم آپ کے نام ور تلامذہ ہیں۔ (۴۰ بڑے مسلمان)
——
خلفاء
——
تیرہ اشخاص کو خلافت عطا فرمائی: جن میں مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عبدالشکور ترمذی زیادہ مشہور ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کلیم عثمانی کا یومِ پیدائش
——
تصانیف
——
تحذیر المسلمین عن موالاة المشرکین، امداد الاحکام، احکام القرآن (دلائل القرآن علی مسائل النعمان)، تلخیص بیان القرآن، الشفا (تفسیر سے متعلق سوال وجواب)، القول الماضی فی نصب القاضی، کشف الدجی عن وجہ الربا، فتح الظفر، البنیان المشید ترجمہ البرہان المشید لسید احمد الرفاعی، انکشاف الحقیقة عن استخلاف الطریقة، القول المنصور فی ابن المنصورؒ، حقیقت معرفت، براة عثمانؓ، تردید پرویزیت، رد منکرین حدیث، فاتحة الکلام فی القرائة خلف الامام، شق الغین عن حق رفع الیدین، القول المتین فی الجہر والاخفاء بآمین، کف اللسان عن معاویہ ابن ابی سفیان، فضائل القرآن، تعلیم نبوت، انوار النظر فی آثار الظفر، اعلاء السنن اوراس کا مقدمہ انہاء السکن لمن یطالع اعلاء السنن (قواعد فی علوم الحدیث)، انجاء الوطن عن الازدراء بامام الزمن، الظفر الجلی باشرف العلی، رحمة القدوس ترجمہ بہجة النفوس لابن ابی جمرة، اسباب المحمودیہ ترجمہ آداب المعبودیة للشعرانی، روح تصوف مع عطر تصوف، مرام الخاص، الدر المنضود ترجمہ البحر المورود لعبد الوہاب الشعرانی، فضائل الجہاد، فضائل سید المرسلین اور ولادت محمدیہ کا راز، علماء ہند کی خدمت حدیث، مسلمانوں کے زوال کے اسباب، دینی مدارس کے انحطاط کے اسباب وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے علماء مظاہرعلوم ۲/۱۶۰ تا ۱۷۳ ، و۴۰ بڑے مسلمان ۱/۶۶۳)
چار مرتبہ حج کی سعادت سے مشرف ہوئے: ۱۳۲۸ھ، ۱۳۳۸ھ، ۱۳۴۸ھ، ۱۳۷۴ھ۔
یام پاکستان کے لیے حضرت تھانوی اور علامہ شبیراحمد عثمانی کے ساتھ رہ کر بڑی محنت کی۔ (۴۰بڑے مسلمان )
——
وفات
——
۲۳/۱۱/۱۳۹۴ھ= ۸/۱۲/۱۹۷۴/ بروز اتوار اانتقال ہوا اور مفتی محمد شفیع دیوبندی جنازہ کی نماز پڑھائی۔
——
معاصرین اور علمائے کرام کے تاثرات
——
حضرت مولانا محمدیوسف بنوری نے فرمایا: مولانا عثمانی کی رحلت سے مسندِ علم وتحقیق، مسندِ تصنیف وتالیف، مسندِ تعلیم و تدریس اور مسندِ بیعت وارشاد بیک وقت خالی ہوگئیں۔
حضرت مولانا عبداللہ درخواستی نے فرمایا: مولانا عثمانی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔ ( تذکرہ، ص۴۹۴)
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے فرمایا: مولانا ظفراحمد عثمانی اپنے ماموں حکیم الامت تھانوی کا نمونہ ہیں۔ (بیس علماء حق ۲۵۹)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا: میرے بھانجے مولانا ظفراحمد عثمانی الحمدللہ علوم دینیہ کا سرچشمہ ہیں، طالبانِ خیر کے پیشوا ہیں اوراس دور کے امام محمد ہیں۔ (تذکرہ اولیاء دیوبند ۴۹۳، و۵۰ مثالی شخصیات ۱۸۲)
حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی فرماتے ہیں: حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی عہد حاضر کے ائمہ فن علماء اولیاء اور اتقیاء کی صف میں ایک بلند اور ممتاز مقام رکھتے تھے، حق تعالیٰ نے ان کو علمی وروحانی مقامات میں ایک خاص امتیاز عطا فرمایا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی جامع علم وعمل باخدا ہستیاں کہیں قرنوں میں پیداہوتی ہیں۔ (تذکرہ ۴۸۸ بیس علماء حق ۲۵۷)
——
یہ بھی پڑھیں : شوکت تھانوی کا یوم وفات
——
شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی کا علمی مقام معاصرین میں کیا تھا؟ تو حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا کہ میں تو ان کا شاگرد ہوں اور میری طرح سے ان کے بہت سے شاگرد ہیں، حضرت حکیم الامت تھانوی آپ کے علم وفہم پر بہت زیادہ اعتماد فرماتے تھے۔ (تذکرہ ۴۹۲)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: مولانا عثمانی علوم دینیہ اور قانون شریعت کے متبحرعالم تھے، وہ شریعت کے مزاج کو خوب سمجھتے تھے اور عقل سے تولتے تھے، کوئی بات ذمہ داری اورتحقیق سے خالی نہیں ہوتی تھی اور وہ تمام عالم اسلام کے لیے چراغ ہدایت تھے۔ (تذکرہ ۴۹۱)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ