اردوئے معلیٰ

آج اردو کے مزاحیہ شاعر ظریف جبل پوری کا یوم وفات ہے

ظریف جبل پوری(پیدائش: 30 نومبر، 1913ء – وفات: یکم مارچ، 1964ء)
——
ظریف جبل پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاحیہ شاعر تھے۔
ظریف جبل پوری کا اصل نام سید حامد رضا نقوی اور تخلص ظریفؔ تھا۔ 30 نومبر 1913ء کو جبل پور (مدھ پردیش) برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
ظریفؔ ملٹری میں انجینئرنگ سروس میں ملازم تھے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ سب کچھ کہا ہے اور مصرعوں میں ظرافت کا خوبصورت رنگ بھر دیا ہے۔
ان کے کلام کے دو مجموعے فرمان ظرافت، تلافی مافات ان کی زندگی میں اور نشاط تماشا ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
ظرف جبل پوری یکم مارچ 1964ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔
——
تصانیف
——
فرمان ظرافت
تلافی مافات
نشاط تماشا
——
یہ بھی پڑھیں :  ممتاز پاکستانی شاعر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کا یوم پیدائش
——
ظریف جبل پوری از جگر مراد آبادی
بحوالہ فرمانِ ظرافت : صفحہ نمبر 8
——
جناب ظریف جبل پوری میرے دوست ہیں ، مزاح نگار شاعر ، ان کے کلام کو بیان کردہ معیار پر جانچنا سخت دشوار ہے ۔ طبیعت کیف و لذت سے آگے نہیں بڑھتی ۔ اور اگر ایسا ہو بھی سکے تو فرصت عنقا اس لیے اسی پہ اکتفا کیا جا سکتا ہے کہ موصوف کے متعلق اپنےتاثرات پیش کروں ۔
حضرت ظریفؔ کا کلام میں نے خود انکی زبانی اکثر و بیشتر سنا ہے بلکہ مجھے اس طرح کے مواقع بھی ملتے رہتے ہیں کہ میں ان کے مزاج اور انکے کردار کے متعلق کم و بیش کسی فیصلے پر پہنچ سکوں ۔
وہ مزاجاََ نہایت سادہ ، صاحبِ محبت مخلص شریف انسان ہیں اور یقیناََ پسندیدہ کردار کے مالک ۔ انکی زندگی کو تصنع و آورد سے کوئی مناسبت نہیں ۔ وہ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے ہیں ۔ جن خونیں حالات سے گزر کر وہ ترکِ وطن پر مجبور ہوئے ظاہر ہے کہ ان کے حساس دل و دماغ کس درجہ متاثر ہوئے ہوں گے ۔
اس کے باوجود ان کی بے تکلف و بے تصنع شگفتہ مزاجی و خندہ پیشانی یہی نہیں کہ ان کی فطرت ہے بلکہ عجب کہ ان کے تاثرات غم و الم کی پردہ دار بھی ہو ۔
مسرت و لذت کا صحتِ انسانی سے کس درجہ قریبی تعلق ہے ۔ ایک مسلمہ اور مستند نظریہ ہے کہ ظرافتِ محض بھی کوئی معمولی چیز نہیں لیکن اگر ظرافت کے ساتھ ساتھ کام کی باتیں بھی رہیں تو پھر اور کیا چاہیے ۔ حضرت ظریفؔ کے کلام میں کام کی باتیں بھی کثرت سے ملتی ہیں ۔
وہ حالات سے بے خبر نہیں ۔ قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید رحجانات کی آمیزش ان کے کلام کی خصوصیت ہے ۔
نقد و نظر ، طنز و تعریض سے وہ کبھی نہیں چوکتے ۔
ظریفؔ صاحب فطری شاعر ہیں اور بلند درجہ رکھتے ہیں ۔ ان کے کلام میں انکی انفرادیت بڑی حد تک پائی جاتی ہے اور یہی حقیقی شاعر کا معیار ہے ۔
اس کے باوجود کہ کامل ایک ماہ تک ظریفؔ صاحب کا مجموعہ میرے پاس رہا لیکن مجھے بہت کم اس کے مطالعے کا موقع ملا ، جستہ جستہ اور وہ بھی کبھی کبھی ۔ میری نظر عیوب کی تلاش میں سرگرداں رہنے کی مریض واقع نہیں ہوئی ۔ ممکن ہے اُن کے کلام میں کچھ فنی کمزوریاں بھی ہوں لیکن جس قدر کلام میری نظر سے گزرا ہے میں نے اسے بہت کیف آور اور بے عیب پایا ہے ۔
——
جگر مراد آبادی عفی عنہ ، کراچی 21 جولائی 1952 ء
——
منتخب کلام
——
دنیا نے غم ہزار دئیے لیکن اے ظریفؔ
میں نے ہر ایک غم کو ہنسی میں اُڑا دیا
——
کس کس کو کفن کا کپڑا دیں اب حکم یہ جاری کر دیں گے
مرنا ہے تو پرمٹ لے کے مرو ، مرنے کی اجازت عام نہیں
——
بغیر دعوت کے آ گئے ہو تو گوشِ دل سے سنو رقیبو
یہ بزمِ جاناں ہے بزمِ جاناں ، تمہاری خالہ کا گھر نہیں ہے
نصیحتیں ہم تمہاری ناصح سنا ہی کرتے ہیں تم بھی سُن لو
کریں گے اُلفت ، بنیں گے عاشق ، تمہارے باوا کا ڈر نہیں ہے
——
جو بویا تُخمِ الفت دل میں کونپل تک نہیں نکلی
بہت زرخیز سمجھے تھے بڑی بنجر زمیں نکلی
بڑھی تھی بات جس پر وہ یہی کچھ ذکرِ حسرت تھا
وہ کہتے تھے کہ نکلی ہے میں کہتا تھا نہیں نکلی
——
ہم بھی قسمت کے ہو گئے ہیں دھنی
بگڑی تقدیر اپنی خوب بنی
پہلے جلووں کو ہم ترستے تھے
اب تو جلوے ہیں اور ” بالکنی ”
——
کہاں وہ دید کا ارماں ، کہاں کسی کی دید
کہاں وہ دید کی حسرت دوچند ہے ہم کو
یہاں کی بادِ صبا خود نقاب اُلٹتی ہے
اسی لیے تو کراچی پسند ہے ہم کو
——
ہم وحشی رشتہ جانتے ہیں تم ہوش کے بندے کیا جانو
تم سب نے جسے سمجھا ہے جنوں وہ عقلِ رسا کا پوتا ہے
جب سوئے تو ان کی دید ہوئی اور ہجر میں جاگے کچھ نہ ملا
جو سوتا ہے وہ پاتا ہے ، جو جاگتا ہے وہ کھوتا ہے
——
جھوٹے عاشق جو ہیں، وہ آہ و بکا کرتے ہیں
ہم شبِ ہجر میں اخبار پڑھا کرتے ہیں
یہ ترقی کا زمانہ ہے ترے عاشق پر
انگلیاں اٹھتی تھیں، اب ہاتھ اٹھا کرتے ہیں
مردِ میداں تو ہیں وہ مرد، جو کرتے ہیں جہاد
ان کو کیا کہیئے، جو بیوی سے لڑا کرتے ہیں
ایکسیڈنٹ روز نگاہوں کا نئی بات نہیں
حادثے ایسے کراچی میں ہوا کرتے ہیں
سب مجھے ڈانٹتے ہیں دل کے لگانے پہ، مگر
ان سے کوئی نہیں کہتا کہ وہ کیا کرتے ہیں
تنگ آکر ترے نخروں سے ترے غمزوں سے
اپنے بدلے ترے مرنے کی دعا کرتے ہیں
وہ مسیحا تو ہیں، مُردوں کو جِلاتے ہیں ظریفؔ
ان سے پوچھے کوئی، خارش کی دوا کرتے ہیں؟
——
فلمی عشق
——
محبت جس کو کہتے ہیں بڑی مشکل سے ہوتی ہے
فقط اک بار ہوتی ہے خلوص دل سے ہوتی ہے
جہان فلم میں الفت کا ہر نخرا نرالا ہے
یہ ایسی دال ہے جس دال میں کالا ہی کالا ہے
اگر بازار میں لڑکی پھسل جائے محبت ہے
سہارا پا کے لڑکے کا سنبھل جائے محبت ہے
کسی لڑکی کو ڈاکو سے چھڑا کر لاؤ الفت ہو
کسی کی سائیکل سے سائیکل ٹکراؤ الفت ہو
یہ فلمی عشق نے کیسا نیا پہلو نکالا ہے
پولس کپتان کی لڑکی کا عاشق رکشے والا ہے
مقدر کو کہیں سے ساز گاری ہی نہیں ملتی
وہی ملتی ہے اور کوئی سواری ہی نہیں ملتی
امیری پر غریبی کا وہ یوں سکہ جماتا ہے
کرایہ تک نہیں لیتا مگر چڈی کھلاتا ہے
سر بازار ہیرو سے جو ایکسیڈنٹ ہو جائے
تو اس کا عشق ایکسیڈنٹ سے ڈیسینٹ ہو جائے
بہ ظاہر دیکھنے میں صرف اک موٹر کی ٹکر ہے
کسی دل پھینک سے لیکن کسی دلبر کی ٹکر ہے
وہ ہیروئن کو موٹر میں شفا خانے بھی لائے گا
اور اس کے دل کو بہلانے کو گانا بھی سنائے گا
وہ گانا جس میں حال دل کی پوری ترجمانی ہو
مگر یہ شرط ہے بھرپور دونوں کی جوانی ہو
وہ پھر موٹر سے ٹکر کی شکایت بھول جائے گی
وہ زخم دل کے آگے ہر جراحت بھول جائے گی
جناب سیٹھ صاحب کی جو اک بے ماں کی بچی ہے
نہایت لاڈلی ہے عمر پختہ عقل کچی ہے
اور اس کو سیٹھ کے دفتر کے اک بابو سے الفت ہے
منیجر اور بابو کے لیے وجہ رقابت ہے
نتیجہ میں ولن ناشاد ہیرو شاد ہوتا ہے
ترقی پا کے بابو سیٹھ کا داماد ہوتا ہے
کبھی لڑکی پہ جو تنہا سفر کا سانحہ گزرے
تو چلتی ریل میں بھی عشق کا یہ حادثہ گزرے
کہ ہیرو ریل کے سنڈاس سے ڈبے میں آئے گا
اور اس کے بعد ہیروئن کو بس بے ہوش پائے گا
وہ اس کے سر کو پھر زانو پہ رکھ کر گال تھپکے گا
اور اس کی آنکھ سے اک عشق کا آنسو بھی ٹپکے گا
تو ہیروئن بھی بس گھبرا کے آنکھیں کھول ڈالے گی
یہ اس کا دل سنبھالے گا وہ اس کا دل سنبھالے گی
ہوں دو بہنیں بڑی کا ان میں اکلوتا منگیتر ہو
محبت سے بپا دونوں کے دل میں ایک محشر ہو
کہ چھوٹی کو بھی الفت اس سے ہو گی برملا ہو گی
وہ اپنے ہونے والے دولہا بھائی پہ فدا ہو گی
فراق یار میں گانے کا یہ انداز ہوتا ہے
وہ جنگل ہو کہ بستی ہو یقیناً ساز ہوتا ہے
غزل آدھی جو ہیرو نے کسی جنگل میں گائی ہے
اسی کی آدھی ہیروئن نے بستی میں سنائی ہے
جو سازندے، پیانو، وائلن طبلہ بجاتے ہیں
کبھی جنگل میں جاتے ہیں کبھی بستی میں آتے ہیں
یہ فلمی عشق ہے، لے دے کے بس اس کا یہ حاصل ہے
ہماری قوم کے بچوں کے حق میں زہر قاتل ہے
ظریفؔ انجام کیا ہوگا جو میرا دل بھی کھو جائے
کہیں ایسا نہ ہو، مجھ کو بھی فلمی عشق ہو جائے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات