اب کے لبوں پہ زرد ، تو آنکھوں میں لال بھر

تصویر میں بھی رنگ مرے حسبِ حال بھر

میرے شفق نگار، سلامت ہو مُو قلم

میں ڈوبنے لگوں تو افق میں گلال بھر

تو معترض جنوں کی تہی دامنی کا تھا

دامانِ عقل و ہوش میں جا کر سوال بھر

کیا پانچواں بھی ہے کوئی موسم ، خبر کرو

کس رُت کی ہے تلاش کہ رہتی ہے سال بھر

خاکہ سا رہ گیا ہوں سرِ ورقِ آرزو

پھر ایک بار مجھ میں کوئی خد وخال بھر

اک آخری زقند، مرے آہُوئے جنوں

اک آخری اڑان، شکستہ خیال بھر

کیا آسمان صرف یہی طشتِ زرد ہے

گویا کہ کہکشاں میں ستارے ہیں تھال بھر

بانہوں میں بھر مجھے کہ فرشتہ نہیں ہوں میں

یہ خاکداں ہے خاک سے جامِ سفال بھر

ہے منتظر فقیر ، کہ اذنِ سفر ملے

یوں بھی گیا ہے کاسہِ ہجر و وصال بھر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]