الفتوں کا دائرہ ہے اور میں
واہ ! شہرِ دلربا ہے اور میں
سنّتِ خیر البشر پیشِ نظر
’’ آگہی کا راستہ ہے اور میں ‘‘
سُوئے طیبہ چل پڑا ہے دوستو
عاشقوں کا قافلہ ہے اور میں
جا ہی پہنچوں گا کبھی ان کے نگر
گو بڑا ہی فاصلہ ہے اور میں
دردِ فرقت ، ہجر کی بے چینیاں
لمحہ لمحہ سانحہ ہے اور میں
روضۂ خیر البشر ہے سامنے
اک عطا کا سلسلہ ہے اور میں
اُس فضا میں آ گیا ہوں میں جلیل
مشک بو ہر زاویہ ہے اور میں