اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر،ادیب، مترجم اور صحافی کرار نوری کا یوم وفات ہے ۔

کرار نوری(پیدائش: 30 جون، 1916ء – وفات: 8 اگست، 1990ء)
——
کرار نوری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی تھے۔
کرار نوری 30 جون، 1916ء میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ اسد اللہ خان غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پر پوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کرار نوری کا شعری مجموعہ میری غزل کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ میزان حق کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پزیر ہوا۔
ان کی تصانیف میں ” میری غزل ” اور ” میزانِ حق ” شامل ہیں ۔
کرار نوری 8 اگست، 1990ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
ممتاز شاعر،ادیب، مترجم اور صحافی کرار نوری از ابو الحسن علی بھٹکلی
——
کرار نوری کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پر پوتے تھے اور 30 جون 1916ء کو جے پور دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔
کرار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’میزان حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : کرار نوری کا یوم وفات
——
کرار نوری خیام الہند حضرت حیدر دہلوی کے شاگرد تھے۔
——
ایک واقعہ
——
1958ء میں نواب شاہ میں ایک مشاعرہ تھا جس میں لاہور سے بھی شاعر آۓ ہوۓ تھے جن میں کلیم عثمانی،ظہیر کاشمیری اور قتیل شفائی وغیرہ تھے۔گورنمنٹ کالج کے ھال میں مشاعرہ تھا آغاز مقامی شاعروں کے کلام سے ہوا اور مشاعرہ ابتدا میں ہی اکھڑ گیا۔بہت سے طالب علم جو اس ھال میں موجود تھے خدا جانے کس موڈ میں تھے اپنے پرنسپل کی بات مانی نہ مہمان خصوصی کی ہوٹنگ ایسی کہ خدا کی پناہ ۔اس عالم میں کرار نوری نے معتمد سے کہا مجھے بلاؤ۔شعراء کرام سمجھے ترنگ میں ہیں اور اس جھوک میں اصرار کر رہے ہیں۔جب دو ایک شاعر اسی ہربونگ کا شکار ہو گۓ تو کرار نوری صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا مجھے بلاؤ۔چناچہ انہیں زحمت دی گئی۔اپنی جگہ سے اٹھے ایک دو بار لڑکھراۓ دائس پر پہنچے سامعین نے ان کی قدوقامت کا خیال کۓ بغیر سیٹیاں بجانی اور آوازیں کسنا شروع کر دیں۔یہ لمحہ بھر تک مجمع کو گھورتے رہے پھر مائیکرو فون پر آہستہ سے کہا”پہلے ایک قطعہ سن لیجیۓ” اور ایک لمحہ کا توقف کۓ بغیر پہلا مصرعہ پڑھا،پھر دوسرا اور فوراۤ ہی دوسرے مصرعہ کو دھرا کر پھر پہلا مصرعہ اور اس کے بعد تیسرا مصرعہ۔سامعیں کا شور ہلکی بھنبھناہٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔اب انھوں نے تینوں مصرعوں کو ترتیب سے پڑھا اور اس کے بعد چوتھا مصرعہ۔۔ محسوس ہوا قطعہ نہں پڑھا سامعین پر کوئی منتر پھونک دیا وہ قطعہ یہ تھا۔
——
یہ غلط ہے شراب کی تعریف
اس کا ذہنوں پہ راج ہوتا ہے
صرف حدت شراب دیتی ہے
باقی اپنا مزاج ہوتا ہے
——
شاعرانہ اطوار کے ساتھ منفرد انداز خواندگی جو ہوٹنگ کر رہے تھے داد دینے لگے۔اس کے بعد انہوں نے قائد اعظم کی شان میں نظم سنائی جب نظم ختم ہو گئی تو اور اور کے نعرے لگنے شروع ہو گۓ نوری صاحب یہ کہہ کر ڈائس سے ہٹ گۓ کہ اب دوسرے شاعروں کو سنیۓ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کون جانے کس بلندی پر مرے سرکار ہیں
——
میں دم لے لوں پھر سنانے کے لۓ آ جاؤں گا ۔
——
جیسے نادیدہ کوئی چاند اتر آۓ گا
ایک بستر کے ہے خالی مرے بستر کے قریب
——
ہمارے شہر میں کیا کیا سجے سجاۓ گھر ہیں
ہمارے گھر کو بھی کوئی سجانے والا ہو
وہ کس امید پہ گھر میں رہے کہ جس گھر میں
نہ آنے والا ہو کوئی نہ جانے والا ہو
ہر ایک صبح دل میں یہی ہوک اٹھتی ہے
ہمیں بھی ناز سے کوئی جگانے والا ہو
——
میرے ہی لہجے میں بولاہے گھر کا سناٹا
کچھ اس قدر در و دیوار سے کلام کیا
——
1972۔73 میں انہوں نے شادی کر لی شادی کے ایک دو برس بعد انہوں نے ایک شعر کہا جو دوستوں کو سناتے تھے اور شعر سے پہلے تھوڑی تمھید باندھتے تھے کہ میں ایک لاابالی۔آزاد رو شخص۔اب ہر بات پہ روک ٹوک۔قدم قدم پہ نصحیت۔
——
میں نے چاہا تھا کہ مل جائے شریک زندگی
وائے قسمت لیکن گھر میں شیخ سعدی آ گئے
——
نوری صاحب نے ایک اور محنت طلب کام کیا۔۔۔اخبارات میں ایک کالم شروع کیا جو ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتا ہوا۔اس کالم کا عنوان تھا۔”آج کے دن” عیسوی اور ہجری دن کے حساب سے اہم واقعات اور شخصیات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جاتی تھیں۔
جب انہوں نے غزلوں کا مجموعہ "میری غزل” کے نام سے شائع کیا تو انہوں نے وہ مجموعہ تقریباۤ ہر صاحب ذوق کو اس کی فرمائش کے ساتھ بھیجا کے جو اشعار یا غزل پسند آۓ اس کی نشاندہی کردیں۔میری غزل کی تقریب اجراء مکمل ہونے تک جتنی آراء موصول ہوئیں وہ سب ایک مجلے کی صورت میں شائع کی گئیں۔اتنا ضغیم مجلہ کسی کتاب کی تقریب اجراء پر آج تک شائع نہیں ہوا۔غالب کی زمیں پر تقریباۤ ہر شاعر نے طبع آزمائی کی ہے لیکن نوری صاحب
کا یہ شعر غالب کے اشعار کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گا
——
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا ،میرے بعد
——
یہ بھی پڑھیں : نانا تمہارے نبیوں کے سردار مجتبٰی
——
کرار نوری صاحب دوستوں کے دوست تھے۔دوسروں کے کام آتے تھے۔اپنے لۓ کسی کو زحمت نہیں دینا چاہتے تھے۔چناچہ آٹھ اگست 1990ء کو جب ان کا انتقال ہوا۔کراچی میں شدید بارش ہوئی تھی۔ان کے بہت سے دوستوں کو اس وقت اس سانحہ کا علم ہوا جب ان کی تدفین ہو چکی تھی۔
——
منتخب کلام
——
اپنے لہجے کی تمکنت کے لیے
میں نے الفاظ روند ڈالے ہیں
——
لفظوں کے پاس حُسن کی صورت گری نہ تھی
اک شوق تھا کہ جذبۂ اظہار بن گیا
——
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے
——
اُس کو تو صرف اپنی اکائی کی فکر ہے
ہم وہ کہ ہم کو ساری خدائی کی فکر ہے
——
سادہ کاغذ وہ لیے بیٹھے ہیں
میری تصویر بنائیں شاید
——
کس قدر ظلم ہے حالات کا نوریؔ صاحب
آپ دھوکا مجھے دیں اور میں دھوکا نہ کہوں
——
تو داستانِ مہ و سال میں نہ ڈھونڈ مجھے
میں ایک لمحہ ہوں اور اپنے اقتباس میں ہوں
——
بچھڑتے جا رہے ہیں ہمسفر نوریؔ تو کیا غم ہے
مسافر راستے میں بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں
——
اک دوسرے کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں لوگ
ہر شخص کو گزرنا ہے ہر رہگزر سے کیا ؟
یہ راہِ عشق ہے اسے منزل سے کیا غرض
اس رہ میں فاصلے کا تعلق سفر سے کیا ؟
——
پرِ پرواز ہی اہلِ چمن کے کام آئیں گے
گرے بھی تیر کھا کر تو ہوا کا رُخ بتائیں گے
ہماری کیا جدائی ہم متاعِ رنگ و بُو ٹھہرے
بہاریں جب بھی آئیں گی ، چمن میں ہم بھی آئیں گے
——
بے کسی تو ہی بتا کس سے سہارا مانگوں
بے سہارا جو کوئی مجھ سے سہارا مانگے
——
ہر گوشۂ زمیں کو محبت کے نام پر
اپنا بنا لیا ہے غریب الدیار نے
——
جو دل کی بات ہے منہ سے نکل ہی جاتی ہے
مرے رفیق میں کس کس سے احتیاط کروں
——
بُوئے گُل سی آتی ہے آج دانے دانے سے
اور کوئی آ پہنچا شاید آشیانے سے
زندگی کے دھارے پر اور بھی سفینے تھے
کتنی کشتیاں ڈوبیں میرے ڈوب جانے سے
——
ہے ذہن میں شاید کسی بجلی کا تصور
چُپ چُپ سے ہیں اربابِ گلستاں کئی دن سے
——
نظریں بدل کے کُوچہ بدلنا تھا کیا ضرور
کیا اس کشیدگی کو بھی دیوار چاہیے
——
چلو آؤ گریبانوں میں اپنے جھانک کر دیکھیں
یہیں وہ فیصلے کر لیں جو کل ہونے ہیں محشر میں
——
ہیں اگر دار و رسن صبح منور کے عوض
پھر تو خورشید ہی ابھرے گا مرے سر کے عوض
ہم کو بھی سر کوئی درکار ہے اب سر کے عوض
پتھر اک ہم بھی چلا دیتے ہیں پتھر کے عوض
فرق کیا پڑتا ہے ہو جاۓ اگر داد رسی
اک نظر دیکھ ہی لو وعدہء محشر کے عوض
ہم نے چاہا تھا کہ پتھر ہی سے ٹھوکر کھائیں
سر بھی اک ہم کو ملا راہ میں پتھر کے عوض
پاسبانان چمن رہ گۓ بیرون چمن
نرگس خفتہ ملی سرو و صنوبر کے عوض
اب کہاں پہلا سا ساقی کے کرم کا دستور
آبرو بیچنی پڑ جاتی ہے ساغر کے عوض
کیا خبر وہ ہی چلے آئیں سجا لوں گھر کو
موج گل آنے لگی آج تو صرصر کے عوض
ان کے وعدہ کی جو تصدیق بھی چاہی نوریؔ
صاف انکار تھا تائید مکرر کے عوض
——
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے
یہ کون سا مقام رہ و رسم ہے کہ وہ
اتنے ہوئے قریب کہ بیزار ہو گئے
منزل کی سمت تجھ کو نہ لے جائیں گے کبھی
وہ راستے جو آپ ہی ہموار ہو گئے
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے
اب کے تو نوک خار بھی گل رنگ ہو چلی
کل دیکھنا کہ دشت بھی گلزار ہو گئے
نوریؔ ہمیں جہاں میں مسرت کی تھی تلاش
آخر ہر ایک شخص کے غم خوار ہو گئے
——
حوالہ جات
——
شعری انتخاب از میری غزل ، مصنف : کرار نوری
شائع شدہ 1981 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ