اگر تُو کہے تو
میں شاخِ شبِ قدر سے توڑ لاؤں
چمکتے دمکتے ستاروں کے گُچھے ؟
اُنہیں اِک سنہری سبک طشتری میں رکھوں
اور تجھے پیش کر دوں
کہ لے ، میرے عشقِ زبوں پر یقیں کر
اگر تُو کہے تو
چہکتے بہشتی پرندوں پہ چُپکے سے اِک جال پھینکوں
اُنہیں پھڑپھڑاتے ہوئے ہی گرفتار کر لوں
غباروں کی مانند دھاگے سے باندھوں
تجھے پیش کر دوں
کہ لے، میرے جذبِ دروں پر یقیں کر
اگر تو کہے تو
بخارا، ثمرقند، تہران، شیراز، لاہور
اور قرطبہ کی فضاؤں سے خوشبو چراؤں
اُسے اپنی آنکھوں میں بھر کے
تجھے پیش کر دوں
کہ لے، چاہتوں کے فسوں پہ یقیں کر
اگر تو کہے تو
شفق رنگ بارش کے قطروں سے مالا بناؤں
خموشی کے ساتوں سروں سے کوئی گیت بالکل نرالا بناؤں
محبت کے اظہار کا اک انوکھا حوالہ بناؤں
تیرے نام کا پھول کوئی سدا رھنے والا بناؤں
اُسے اپنی ویراں ہتھیلی پہ رکھ کے
تجھے پیش کر دوں
کہ لے، اب تو میرے جنوں پر یقیں کر
اگر پھر بھی شک ہے
مِری موت تک ہے
تو کیا اپنا مجنون سر کاٹ کر
تیرے قدموں میں دھر دوں ؟
کہ لے اور مجھے دفن کرنے سے پہلے
مرے گرم اور سُرخ خوں پر یقیں کر
مری چاہتوں کے فسوں پر یقیں کر
مری دھڑکنوں کے جنوں پر یقیں کر
مرے دل کے عشقِ زبوں پر یقیں کر
اگر تُو کہے تو