بہر صورت میں مشغولِ ثنائے یار ہو جاؤں
کہ اس حسنِ عمل سے خلد کا حقدار ہو جاؤں
رسائے بارگاہِ سیدِ ابرار ہو جاؤں
تمنّا ہے کہ میں لذّت کشِ دیدار ہو جاؤں
ذرا پہنچوں سہی اس بارگاہِ ناز تک میں پھر
خیالِ واپسی سے برسرِ پیکا رہو جاؤں
خوشا پامالیاں میری زہے خوش طالعی میری
جو میں پیوندِ خاکِ کوچۂ دلدار ہو جاؤں
تری نعلینِ پا کا ایک تسمہ بھی جو مل جائے
تو میں گنجِ گراں کا مالک و مختار ہو جاؤں
نہیں کچھ خوفِ راہِ پل صراط ایسا مجھے لوگو
بہ جست گام ان کا نام لے کر پار ہو جاؤں
مجھے تو جامِ وحدت کا فقط اک جام کافی ہے
میں کیوں ساغر کشِ میخانۂ اغیار ہو جاؤں
ہے میری کامیابی، فتح و نصرت کی یہی کنجی
جہادِ زندگی میں پیروِ سالار ہو جاؤں
فرشتے بھی سلامی کو نظرؔ آنے لگیں میری
اگر میں پیروِ آں سیرت و کردار ہو جاؤں