تیرے گواہ ہیں سبھی، شام و سحر، شجر حجر
تیرے ہی ذکر میں مگن، برگ ہوں، پھول یا ثمر
حمد کو تیری چاہیے ایک حیاتِ جاوداں
اور مری حیات ہے لمحوں کی طرح مختصر
دشت تحیّر آج بھی پھیلا ہوا ہے ہر طرف
اے مرے ربّ تری طرف ہو بھی تو کس طرح سفر؟
تو ہے محیطِ کل تو میں ذَرَّۂ بے عیار ہوں
مجھ کو تو چاہیے فقط ایک ہی لطف کی نظر
قید ہوں میں مکان میں دائرۂ زمان میں
مجھ کو بھی بے کراں بنا ایک نگاہ ڈال کر
ربِّ جہاں دکھا مجھے میری اسی حیات میں
میری تڑپ کے آب و رنگ میری دعاؤں کا اثر
مجھ کو بھی ہوں نصیب کچھ تیرے جہاں میں وسعتیں
تیرے ہی کوہسار ہیں تیرے ہیں سب یہ بحر و بر
مالکِ کل! بنا مری عمرِ گریز پا کو تو
اپنے کلام کی طرح دونوں جہاں میں معتبر
تو ہے خبیرِ تحت و فوق، تو ہے علیمِ جزو و کل
تیری طرح نہیں کوئی کون و مکاں میں باخبر
حمد تری لکھا کروں، حمد تری پڑھا کروں
تیری ثنا بنی رہے میرے لیے مرا ہنر