مشرق کے عظیم انقلابی صوفی شاعر حضرت بابا بُلھے شاہ اوچ گیلانیاں(ریاست بہاولپور) کے سید خاندان کے شاہ محمد درویش کے ہاں پیدا ہوئے جو عربی، فارسی اور علومِ قرآنی کے بڑے عالم تھے. والد نے آپ کا نام عبداللہ رکھا جس سے بُلھا شاہ یا بابا بُلھے شاہ مشہور ہو گیا. آپ کے والدین نے کچھ عرصے بعد قصور کے نواحی گاؤں پانڈو کے میں مستقل سکونت اختیار کر لی جہاں آپ کے والد امام مسجد کے فرائض انجام دینے لگے.
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، اس کے بعد آپ کو مزید تعلیم کے لیے اسلامی علوم کے مرکز، قصور بھیج دیا گیا جہاں حضرت غلام مرتضیٰ جیسے استاد کی صحبت سے عربی، فارسی کے فاضل تسلیم کیے گئے. صوفیانہ کتب کے مطالعے نے آپ کے دل میں مرشدِ کامل سے ملنے کی تڑپ پیدا کر دی اور یہی جستجو آپ کو لاہور کے شاہ عنایت قادری کے در تک لے آئی جو ایک صوفی بزرگ اور ولیء کامل تھے.
——
یہ بھی پڑھیں : حضرت سخی سلطان باھو (1630 تا 1691)
——
ذات کے ارائیں اور کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک تھے. مرشد کے دیدار نے بابا بُلھے شاہ کی دنیا ہی بدل دی،روحانی چشمہ پھوٹ نکلا اور تیزی سے معرفت اور سلوک کی منازل طے کرنے لگے. مرشد کی محبت اس قدر غالب آ گئی کہ سوائے مرشد کے کسی شے کا ہوش نہ رہا، ہر ادا رمز آمیز ہو گئی.
والدین اور رشتہ داروں کو بابا بُلھے شاہ کا شاہ عنایت سے یہ تعلق ایک آنکھ نہ بھایا کیونکہ وہ ایک سید زادے تھے، ان کا ایک آرائیں کو مرشد تسلیم کرنا برادری کی توہین تھی. ذات پات کی اس تقسیم نےبابا بُلھے شاہ کے دل میں باغیانہ خیالات کو پروان چڑھایا. وہ کہتے ہیں
بُلھے نوں سمجھاون آئیاں بھیناں تے بھرجائیاں
من لَے بُلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پَلّا ارائیاں
آل نبی اولاد علیؓ نوں تُوں کیوں لِیکاں لائیاں
(بُلھے کو بہنیں اور بھابیاں سمجھانے آئیں کہ ہمارا کہنا مان اور ارائیں مرشد کا پیچھا چھوڑ دے. ہم آلِ نبی اور اولادِ علیؓ ہیں، ہماری اونچی ذات کو بٹہ نہ لگا)
اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
جیہڑا سانوں سید سَدّے دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں ارائیں آکھے، بہشتی پِینگاں پائیاں
(جو کوئی ہمیں سید کہہ کر پکارے گا اسے دوزخ میں سزا ملے گی اور جو ہمیں ارائیں مرشد کی نسبت سے ارائیں کہے گا وہ بہشت میں جھولا جھولے گا)
بُلھے شاہ کے مرشد سے عشق کو عشقِ حقیقی کے کمال تک پہنچانے کے لیے آزمائش کی بھٹی سے گزارنا ضروری تھا چنانچہ بلھے شاہ کی کسی کوتاہی پر شاہ عنایت اپنے مرید سے ناراض ہو گئے ، بُلھے شاہ کا یہ دردِ جدائی وحشت میں بدل گیا، مرشد کو منانے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی، ناچار ہیجڑوں کی ٹولی میں شامل ہوگئے، زنانہ لباس اور گھنگرو پہن کر سرِ بازار رقص کرنے لگے. خاندان والوں کے لیے مزید رسوائی کا سامان ہو گیا. ایک عرس پر مرشد کی آمد کی خبر ملی، وہاں پہنچ کر دیوانہ وار ناچنے لگے
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
مرشد کا دل نرم پڑ گیا اور کہا” ارے تُو بُلھا ہے؟”
——
یہ بھی پڑھیں : حضرت خواجہ غلام فرید (1845 تا 1901)
——
بابا بُلھے شاہ نے کہا”حضور بُلھا نئیں ، بُھلا ہاں” مرشد نے گلے سے کیا لگایا دل عشقِ حقیقی کے اسرار و رموز پا گیا.ہر شے میں مالکِ حقیقی کا جلوہ نظر آنے لگا. اس عالمِ یکتائی میں کوئی بیگانہ نہ رہا، ہندو، مسلم سب ایک ہو گئے چنانچہ بُلھے شاہ کی زندگی اور شاعری مذہبی ملّاؤں اور پنڈتوں سے نبرد آزما رہی. فرسودہ ذات پات کے نظام اور طبقاتی تفریق کو بُلھے شاہ نے خاص طور پر ہدفِ تنقید بنایا. اسی لیے ان کا کلام پنجاب کے علاوہ سندھ، راجستھان اور ہندوستان میں یکساں مقبول ہے.
بُلھے شاہ کو پنجاب کا سب سے بڑا صوفی شاعر کہا جاتا ہےاور آپ کے کلام کو صوفی کلام کی "چوٹی” کا درجہ حاصل ہے. انہوں نےاشعار، کافیاں، دوہڑے، سی حرفی اور بارہ ماہے لکھے جن کو روحانی اعتبار کے ساتھ ساتھ ادبی نقطہ نظر سے بھی فن کی بلند ترین سطح پر رکھا جا سکتا ہے.
بُلھے شاہؒ کے انقلابی فکر و عمل اور مذہبی ٹھیکیداروں سے ٹکر لینے کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیا گیا. بُلھے شاہ کہتے ہیں
عاشق ہوئیوں ربّ دا
ملامت ہوئی آ لاکھ
لوگ کافر کافر آکھ دے
تُوں آہو آہو آکھ
ان کی وفات کے وقت مُلّاؤں نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا اور انہیں برادری کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی چنانچہ انہیں قصور میں قبرستان سے باہر ایک الگ جگہ پر دفن کیا گیا مگر ان کا مقام دیکھیے کہ اب بڑے بڑے دولتمند ان کے مزار کے قریب دفن ہونے کو سعادت سمجھتے ہیں. آج بُلھے شاہؒ کروڑوں مدّاحوں کے دلوں میں زندہ ہے.
بُلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
نمونہء کلام
——۔۔۔
علموں بس کریں او یار
اِکّو الف ترے درکار
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
الٹے مسئلے گھروں بناویں
بے علماں نوں لُٹ لُٹ کھاویں
جُھوٹھے سچّے کریں اقرار
اِکّو : ایک ہی
الف : اللہ کا پہلا حرف جو عدد ایک سے بھی مشابہ ہے. مراد ایک اللہ
کہاویں : کہلائے
مسئلے : دینی الجھنیں
بُلھے شاہ مذہبی ٹھیکیدار یعنی مُلّا کی حقیقت کھولتے ہوئے اس سے مخاطب ہیں کہ تُو نے لوگوں کو دین کی فرضی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے اور الٹے سیدھے نکتے نکالتا رہتا ہے تا کہ تُو جاہل اور بے علم لوگوں کو مذہب کے نام پر لُوٹ لُوٹ کر کھاتا رہے،ان لوگوں سے جنت میں لے جانے کے جھوٹے سچے وعدے کرتا رہتا ہے حالانکہ تیرا اپنا علم محدود اور بیکار ہے. کتابیں پڑھ پڑھ کر تو عالم کہلوانے لگا ہے مگر اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ علم ان کتابوں میں نہیں ہے، علم کی وسعت تو ایک الف یعنی اللہ کی یکتائی میں سمائی ہوئی ہے. جس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا، اس کی قدرت کا اندازہ لگا لیا تو اس کے علم کے سامنے پوری دنیا کی کتب ہیچ ہیں.
——
یہ بھی پڑھیں : یاد آتی ہیں جو مرشد کی عنایات بہت
——
اپنے رب کو پہچاننا ہی علم کی معراج ہے. بے عمل مُلا کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں
مُلّا تے مشالچی دوہاں اِکّو چِت
لوکاں کر دے چاننا تے آپ ہنیرے وِچ
(مُلّا اور مشعل بردار دونوں ایک جیسے ہیں، لوگوں کو روشنی دکھاتے ہیں مگر خود اندھیرے میں رہتے ہیں)
——۔۔
بُلھا کیہ جاناں مَیں کون؟
نہ مَیں مومن وچ مسیت آں
نہ مَیں وِچ کفر دیاں رِیتاں
نہ مَیں پاکاں وِچ پلِیت آں
نہ مَیں موسیٰ نہ فرعون
کیہ جاناں : میں کیا جانوں
وِچ: میں، اندر
مسیت: مسجد
آں: ہوں
رِیت: رسم، رواج
پاکاں: پاکباز، پاک
پلِیت: نجس، ناپاک
بُلھے شاہ نے لوگوں کو مذہبی جبر کے خوف سے نکالا. رنگ، نسل، ذات برادری، قوم، ملک اور مذہب کے نام پر انسانوں کی تقسیم کے عمل کے خلاف آواز بلند کی اور بین الاقوامی بھائی چارے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اپنے آپ کو کس نام سے پکاروں؟ یہ میں نہیں جانتا. میں نہ تو ایسا مومن ہوں جس کا مذہب صرف مسجد میں پانچوں وقت کی حاضری تک محدود ہے، جسے دین کے دیگر فرائض کا کچھ علم نہیں، جو حقوق العباد سے یکسر غافل ہے.
میں کفر کے رسم و رواج میں جکڑا ہوا کافر بھی نہیں ہوں. میں فرسودہ روایات کا باغی ضرور ہوں مگر مجھے کافر نہیں کہا جا سکتا. میں مُلّاؤں اور پنڈتوں کی لاگو کی ہوئی خود ساختہ رسوم و قیود کو مسترد کرتا ہوں.
مجھے اپنی پارسائی کا بھی کوئی زعم اور دعویٰ نہیں ہے. میں گنہگاروں میں نیک کہلوانے کا آرزومند نہیں ہوں. میں دوسروں کو نفرت سے ناپاک کہہ کر اپنے آپ کو پاکباز ثابت نہیں کرتا. میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح پیغمبر بھی نہیں ہوں. لوگ نبوت کے دعویدار بن کر سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کرتا.
میں فرعون کی طرح خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کرتا اور نہ جبرو ستم سے لوگوں کی زندگی اجیرن کرتا ہوں. میں اپنی حقیقت سے بے خبر ہوں کہ آخر میں کون ہوں؟
——
یہ بھی پڑھیں : کردار
——
دوہڑا
اس کا مُکھ اک جوت ہے، گھونگھٹ ہے سنسار
گھونگھٹ میں وہ چھپ گیا، مُکھ پر آنچل ڈار
مُکھ: چہرہ
جوت: روشنی
ڈار: ڈال
سنسار: دنیا، یہ جہان
عشقِ حقیقی کا اظہار ہے کہ مالکِ حقیقی کا چہرہ، اس کا وجود روشنی کا سر چشمہ ہے. اس کی ذات نور ہی نور ہے جس کی تجلِی کی تاب لانا بشر کے لیے ممکن ہی نہیں. وہ ایسا معشوق ہے جس نے اپنے عاشق کو تڑپانے کے لیے اپنا حسن و جمال اس دنیا کی چلمن کے پیچھے چھپا رکھا ہے اس کے باوجود اس کے حسن کی روشنی کائنات کے ذرّے ذرّے سے پُھوٹ رہی ہے. اس دنیا کا آنچل چہرے پر ڈالنے کے باوجود اس مالکِ حقیقی کا جمالِ جہاں افروز ہویدا ہے.
لاکھ پردوں میں تُو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشاں تُو ہے
رنگ تیرا چمن میں بُو تیری
خوب دیکھا تو باغباں تُو ہے
(امیر مینائی)
- منجانب : انتظامیہ اردوئے معلیٰ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
اشتہارات
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ
اردوئے معلیٰ
پر
خوش آمدید!
گوشے۔۔۔
Menu