اردوئے معلیٰ

 

خدا نے چن کے رکھا ہے مبارک نامِ نامی ہے

حبیبِ کبریا واللہ وہ ذاتِ گرامی ہے

 

نبوت ختم ہے ان پر رسالت اختتامی ہے

میانِ بندہ و مولا وہ آخر کا پیامی ہے

 

شفیعِ روزِ محشر ہے گنہ گاروں کا حامی ہے

مرے آقا کی شخصیت بڑی نامی گرامی ہے

 

وہ ساقی ہے مئے وحدت کا میخانہ عوامی ہے

یہیں پر تشنہ کام آئیں یہیں پر شادکامی ہے

 

بوقتِ شام طاری غلبۂ شوقِ سلامی ہے

یونہی خورشید کی روضہ کی جانب تیز گامی ہے

 

تری درگاہ مرجع ہے مسلمانانِ عالم کا

یہ چینی ہے یہ ہندی ہے یہ مصری ہے یہ شامی ہے

 

تمہارا ذکر ہے مستوجبِ خوشنودی یزداں

تمہارا نام لینے سے ہماری نیک نامی ہے

 

یہ یومِ فتحِ مکہ ہے معافی عام دی سب کو

دلِ اطہر میں غصہ ہے نہ جذبہ انتقامی ہے

 

ہزاروں تاجِ سلطانی پڑے ہیں ان کی ٹھوکر میں

غلامانِ محمد کی تو شاہانہ غلامی ہے

 

کمالِ اعتدال آتا نظرؔ ہے ان کی سیرت میں

کہیں افراط کا پہلو نہ اس میں کوئی خامی ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ